زمانۂ قدیم سے بہروپ بھرنا یا بھیس بدلنا ایک روایت ہے۔ بہروپیے اپنے آپ کو چھپانے اور لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے سوانگ رچتے ہیں۔ بہروپ بھر کر سرکس یا ڈراموں اور فلموں میں لوگوں کو تفریح بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ ایک فن ہے جو جوان کو بوڑھا، بوڑھے کو جوان، راجا کو بھکاری اور بھکاری کو راجا بنا دیتا ہے۔ بہروپ بھر کر اچھا بھلا آدمی جوکر بن جاتا ہے۔ لیکن سب سے اہم کام جاسوس کرتے ہیں جو اپنی شناخت چھپانے کے لیے بہروپ بھرتے ہیں، کیوں کہ ان کو ہر وقت پکڑے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔
مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں گھومتے تھے۔ ہارون الرشید تو باضابطہ بھیس بدل کر بغداد کی گلیوں میں گھوما کرتا تھا۔
مگر میرا موضوع پاکستان کے سیاسی بہروپیے اور جماعتیں ہیں جو گزشتہ 76 سال سے پاکستانی عوام اور اپنے کارکنوں کو بہروپیے کی طرح دھوکا دے رہے ہیں۔ یہ اس کام میں اتنی مہارت اور چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ہر بار پاکستان کے بھولے عوام اور جماعتوں کے بے لوث کارکنان دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان کا مقصد اقتدار اور ذاتی مفادات کے سوا کچھ نہیں۔ یہ صرف اور صرف ایوانوں تک پہنچنے کے لیے چولے بدلتے ہیں اور بے چارے مجبور اور غریب عوام ان کے خوشنما وعدوں کی وجہ سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔
آج برسراقتدار پارٹی کے وزرا اور پارلیمانی نمائندوں کے شجرۂ نسب اور قلابازیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ وہ ماہر بہروپیے ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی پارٹی کو چھوڑ کر اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان پارٹیوں میں دو طرح کے سیاسی عناصر ہیں: (1) جو سیکولر نظریات کے حامل ہیں، (2) یا پھر مذہبی اسلامی نظریات رکھتے ہیں۔ قابلِ ذکر پارٹیوں میں:
پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، پی پی پی، جے یو آئی، پی ایم ایل نون اور قاف ، جے یو پی اور بے شمار سیاسی اور دیگر مذہبی جماعتیں۔ پی ٹی آئی، پی پی پی اور پی ایم ایل تو سیاسی بہروپیوں کا ملغوبہ ہے۔
قیام پاکستان سے ہی یہ بہروپیے قائداعظم کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ تمام لوگ جو آج پاکستانی سیاست کے شیش ناگ بنے ہوئے ہیں ان کے اجداد مجاہدینِ آزادی کے خلاف برسر پیکار تھے اور انعامات کے طور پر بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بن گئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عوامی بیداری اور برعظیم کے عام مسلمانوں کی پاکستان کے حق میں حمایت سیلِ رواں بن گئی ہے اور برعظیم کی مسلم امت انگریز اور برہمن سامراج کی دہری غلامی سے خود کو نہ صرف آزاد کرانا چاہتی ہے بلکہ اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے تو پھر ان کالے انگریزوں نے بہروپ بھر کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی جو مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت تھی۔ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی ابھی ابتدائی حالت میں تھی اور مولانا مودودیؒ نے مسئلہ قومیت لکھ کر مسلم لیگ کے زعما کو ایک سیاسی نظریہ دیا، مگر ساتھ میں مولانا محترم نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ پاکستان بنانے میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں وہ ملک بنانے میں کامیاب تو ہوجائیں گے مگر یہ اسلامی ریاست نہ ہوگی کیوں کہ بنانے والے اسلامی فکر سے ناآشنا ہیں۔ علمائے دیوبند، ہندوستان کے جید علما اور مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ لہٰذا پاکستان میں جے یو آئی کی سیاست کا محور صرف اور صرف اقتدار کے ایوانوں میں رسائی حاصل کرکے کسی کے ساتھ اتحاد کرلینا ہے جو قطعاً ایک دینی اور نظریاتی مذہبی جماعت کا طرہ امتیاز نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کو بہروپ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ محترم مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کا چرچا اسی طرح کے اقدامات کی وجہ سے ہر پاکستانی کی زبان پر ہے اور ایک دہائی سے تمسخرانہ انداز میں مولانا محترم کی ذات ہدفِ تنقید ہے۔
دوسری قابلِ ذکر نظریاتی، شعوری، ایثار کیش ارکان و کارکنان پر مشتمل، منظم اسٹریٹ پاور رکھنے والی دینی و سیاسی جماعت، جماعت اسلامی ہے جس نے اپنی ابتدائی جدوجہد میں پاکستان کے دینی تشخص کو بحال کیا اور بیسویں صدی کے سیکولر، لبرل نظریات کو پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔ مگر بدقسمتی سے ملک میں پھیلی ہوئی لسانی، علاقائی، قبائلی، مسلکی اور طبقاتی تقسیم اور تعصبات کو اپنی آفاقی تعلیمات کے ذریعے ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی جو جماعت کی نظریاتی کامیابی کے راستے میں پارلیمانی سیاست کے ہدف کو حاصل کرنے میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔
جماعت اسلامی نے 1970ء کے انتخابات سے پہلے پاکستان کے دونوں حصوں میں شوکتِ اسلام کی تحریک چلائی جس نے عوام کے بڑے طبقے کو متاثر کیا اور جلسے جلوسوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہونا شروع ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک پر قابض فوجی حکمران اور اخلاقی اعتبار سے بدنام زمانہ جنرل یحییٰ اور سول بیوروکریسی اور عالمی طاغوتی قوتوں کے کان کھڑے ہوگئے اور پھر 1970ء میں جماعت اسلامی نے ترازو کے نشان پر ملک کے دونوں حصوں میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا۔ عوامی رجحانات جماعت کی کامیابی کا پتا دے رہے تھے، مگر وہی غلیظ ترین انتخابی دھاندلی ہوئی اور مشرقی و مغربی پاکستان میں پُرتشدد انتخابات کا نتیجہ جماعت اسلامی کی ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ نہ صرف جماعت اسلامی محروم ہوئی بلکہ بنگلادیش کی آزادی کی تحریک میں لاکھوں محب وطن بہاری اور بنگالی تہہ تیغ کردیے گئے۔ جماعت اسلامی نے دفاعِ مشرقی پاکستان میں اپنے ہزاروں البدر اور الشمس کے نوجوانوں کی قربانی دی جس کا خمیازہ آج بھی بنگلادیش میں جماعت اسلامی کی قیادت تختۂ دار کو چوم کر بھگت رہی ہے۔ ہزاروں ارکان و کارکنان اور اسلامی چھاترو شبر کے طلبہ پابندِ سلاسل ہیں اور سزائیں بھگت رہے ہیں۔
یہ اتنا بڑا نقصان اور دھچکا تھا کہ دوسری کوئی سیاسی جماعت ہوتی تو بکھر جاتی، مگر جماعت اسلامی ایک دستوری، نظریاتی اور ایثار کیش ارکان و کارکنان پر مشتمل جماعت ہے، اس لیے ملکی سیاست کی خرابیوں کو دور کرنے اور نظام کی تبدیلی کے لیے تنہا انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے مختلف اتحادوں کے ساتھ مسلسل حصہ لیتی رہی مگر اس کا بھی فائدہ نہ ہوا بلکہ اس کے تلخ نتائج نے جماعت اسلامی کے اپنے تشخص کو گہنا دیا۔ 2013ء کے انتخابات کے بائیکاٹ اور 2018ء کے انتخابات میں پھر سے اپنے نشان ترازو پر انتخاب لڑا، مگر اس میں بھی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر مقتدر قوتوٖں نے جماعت کو عملاً پارلیمانی سیاست سے باہر رکھا۔ 2024ء کے آٹھویں قومی انتخابات کا نتیجہ اور کراچی میں جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ایک ایسے انقلاب کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ شاید مقتدرہ کو ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ جیسے حالات سے گزرنا پڑے۔ ایک بار پھر ’پیٹ بھرو‘ کا کھیل جاری ہے اور یکے بعد دیگرے کھلاڑی اپنا کرتب دکھانے میں مشغول ہیں۔ ملک کی معیشت کی زبوں حالی، آئی ایم ایف کے قرضے، آئے دن کمر توڑ مہنگائی اور بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں عالمی طاغوتی قوتوں کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی اور حساس تنصیبات پر حملوں نے موجودہ بہروپیوں کی حکمرانی پر سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ آیا اس ملک کو بچایا جائے یا وردی پوش اور سول بیوروکریسی اور جاگیرداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر گدھوں کی طرح ملک کو تباہ و برباد ہونے دیا جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ملک پر باری باری حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی ہیئت ترکیبی کیا ہے۔ مسلم لیگ کی ابتدائی تشکیل کے بارے میں یہ حقیقت ہے کہ یہ 1906ء میں ڈھاکا میں اُس وقت وجود میں آئی جب زعمائے ملّتِ اسلامیہ برصغیر نے کانگریس کے ساتھ مشترکہ جدوجہدِ آزادی کے تلخ تجربات کا مشاہدہ کرلیا۔ آزادی کی جدوجہد اور پاکستان کی تخلیق تک قائداعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں مسلم لیگ کن مرحلوں سے گزری اور پاکستان کو بنتے دیکھ کر کس طرح انگریزوں کے دلال خاندانوں کے غدارانِ ملّت اس میں شامل ہوتے گئے اس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ قائداعظم نے خود کہا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔‘‘ اور ہوا بھی یہی کہ قائداعظم کے انتقال کے بعد اقتدار پر قبضے کے لیے مسلم لیگ بندوق برداروں کی آشیرباد سے مختلف دھڑوں میں بٹتی رہی اور موجودہ حکمران دھڑا جو چوتھی بار برسراقتدار ہے‘ جرنیل کی نرسری کی ہی ایک پنیری ہے۔ اس میں بھیس بدلنے والے بہروپیوں کی آوت جاوت جاری رہتی ہے۔
حکمرانی کرنے والی دوسری جماعت پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جو جنرل ایوب خان کے سیاسی لے پالک تھے اور انہیں ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے‘ 4 اپریل 1979ء کو دوسرے جنرل ضیاء الحق کے ذریعے متنازع عدالتی فیصلے کے بعد تختۂ دار پر لٹکا دیے گئے۔ گو کہ عدالت کا یہ فیصلہ متنازع تھا مگر سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ ایک آسمانی فیصلہ تھا کہ جس اقتدار کو بھٹو نے حاصل کیا تھا اُس اقتدار کی قربان گاہ پر لاکھوں معصوم پاکستانیوں کی گردنیں کاٹی گئی تھیں اور پاکستان دولخت ہوا تھا، کیا دنیا نے نہیں دیکھا کہ اس انسانی مقتل کو سجانے والے تمام کرداروں کا خاتمہ ہوشربا ہوا اور ہر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’اللہ کی پکڑ بہت شدید ہے۔‘‘ آج وہ پیپلز پارٹی بہروپیوں کی ایسی آماج گاہ ہے کہ آصف علی زرداری اس ملک کا صدر ہے جس کے باپ نے بھٹو کی پھانسی پر ضیاالحق کو اجرک پہنائی تھے۔
2013ء سے لے کر اب تک ملکی سیاست اور سلامتی، تہذیبی اقدار، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کو پامال کرنے والی تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی قیادت عمران خان آسیب کی طرح اس ملک کے عوامی ذہن پر سوار ہوکر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ناچ گانے کا رسیا اور بد زبانی کا چلتا پھرتا روبوٹ بنا چکے ہیں۔ تحریک انصاف ’’تحریکِ انتشار‘‘ میں بدل چکی ہے جو نہ صرف انتشار کے اس وائرس سے خود پریشان ہے بلکہ پورے ملکی نظام کو ایلومیناتی سازشوں کی چراگاہ بنانے میں اب تک کامیاب ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک گرانڈ بزدل جیل میں ہو اور اس کو لیڈری کرنے کی تمام تر سہولیات بھی میسر ہوں۔ اس کی پارٹی اور اس کی سابقہ حکومت میں تو بہروپیوں کا ملغوبہ اور جمعہ بازار تھا جس میں امپورٹڈ کاسمیٹکس قیادت بھی موجود تھی جو اب جہاں سے آئی تھی وہیں چلی گئی۔
یہ ہے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی حالتِ زار، جو ہر مرتبہ انتخابات کے وقت یہ پتلی تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں اور پھر ووٹ ڈال کر وقتِ حکمرانی تک آنکھ مَل مَل کر روتے ہیں۔ پاکستان کے اس سیاسی سرکس کا مالک راولپنڈی کے پنڈتوں کا وہ گروہ ہے جو ان بہروپیوں کی باری بدلتا رہتا ہے‘ جنہیں ’’خلائی مخلوق‘‘ بھی کہا جاتاہے۔
یہ اپنی زنبیل سے اپنے پسندیدہ بہروپیوں کو نکال کر مسندِ اقتدار پر براجمان کراتے ہیں، جو طرح طرح کے کرتب دکھا کر اپنا معاوضہ وصول کرنے کے بعد دوسری باری کے انتظار میں اپوزیشن میں بیٹھ کر شور شرابہ کرتے ہیں، اور ایک مستقل چھڑی بردار نوکر شاہی ہے جس کے ہاتھ میں قانون کا قلم دان ہے جو سیاسی بہروپیوں کو نچاتی رہتی ہے۔ بیچارے عوام یہ پتلی تماشا دیکھ کر تالی بجاتے بجاتے اتنا ہنستے ہیں کہ پانچ سال تک رونا ان کا مقدر ہو جاتا ہے۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
اور میں کہتا ہوں:
بے باکی سے جادو دکھا اے نئے دور کے جادوگر
اب موسیٰ و ہارون نہیں دربارِ فرعون میں
دجال کے معنی دھوکا دینے والا، اور یہ بہروپیے دھوکا دینے میں ماہر ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ یہی دجال کے اصل نمائندے ہیں۔ لہٰذا جو تحریک یا جماعت ملک میں عوامی جمہوری اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کررہی ہے اسے اس طلسم ہوش ربا سے نکل کر صرف اور صرف ایک فکری اور نظریاتی قرآن و سنت کی دعوت پر مبنی عوامی تحریک برپا کرنی ہوگی جس کو طاقت کے مراکز سے بھی اس کے اپنے CATALYST کی حمایت حاصل ہو۔ اس کے لیے حاضر و موجود سے بے گانہ بنانے والی قیادت چاہیے۔
ہے وہی اپنے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے
داعی کی شرافت اگر معذور ہو تو اس کی دعوت بے اثر ہوتی ہے۔ مکہ کے حنفہ معذور تھے تو مشرکین نے خانہ کعبہ کو بت خانہ بنا دیا۔ تبلیغی جماعت کا لاکھوں کا اجتماع طاغوت کے لیے ایک مذہبی میلے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
دل کے ٹکڑے کٹ کر جب آنسو میں بہہ جائے ہے
تب کوئی فرہاد بنے تب مجنوں کہلائے ہے
جہاں جہاں طاقت کے مراکز ہیں وہاں وہاں اثرات پیدا کیجیے۔
جو بلندیوں پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنے پاؤں کے نیچے زمین رکھتے ہیں۔
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے