عیدی

114

’’تمہارے میکے کے بچے انتہائی لالچی ہیں!‘‘ راؤ صاحب نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ایسا کیا کردیا انہوں نے؟‘‘ ملکہ عالیہ بھی اپنے نام کی ایک تھیں، پوچھے بغیر چین سے نہ بیٹھیں۔
’’عیدی کوئی مانگ کر لیتا ہے؟ ایسے قطار میں کھڑے تھے جیسے کوئی لنگر بٹ رہا ہو۔ ہونہہ!‘‘ راؤ صاحب کی پوری گردن ہی اکڑ کے مارے گھوم گئی تھی۔
’’آپ تو رہنے ہی دیں۔ جب یہی کام آپ کے خاندان کے بچے کرتے ہیں تب تو آپ خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔‘‘ملکہ عالیہ کی زبان کو آرام نہ تھا۔
’’میرے خاندان کے بچوں میں بہت تمیز لحاظ ہے، اگر ہم انہیں عیدی نہ دیں تو فقیروں کی طرح مانگنے نہیں کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘ راؤ صاحب نے کہا۔
’’بہرحال میرے میکے کے بچوں کو آپ کچھ نہ ہی کہیں تو بہتر ہے، کیوں کہ نام کے آگے راؤ لگانے سے کچھ نہیں ہوتا، رہیں گے آپ فقیر ہی!‘‘ ملکہ عالیہ غصے میں اٹھ کر کچن میں برتن پٹخنے چلی گئیں۔ راؤ صاحب بھی غصے میں منہ پھلائے ٹیلی ویژن دیکھنے لگے۔
دراصل راؤ صاحب کا پورا نام فقیر حسین راؤ تھا، حالانکہ ان کا خاندان اور یہ خود بھی اچھے خاصے صاحبِ حیثیت تھے۔ مگر صرف ان کے فقیر ہونے کی وجہ سے ان کے بیوی بچے بھی فقیر ہوگئے تھے۔ حالانکہ ان کی بیوی ملکہ کہلاتی تھیں مگر بے چاری شوہر کی وجہ سے ملکہ فقیر حسین ہوگئیں۔ سونے پر سہاگہ فقیر صاحب کے گھر والے ان کے مزاج سے بہت تنگ تھے۔ ابھی چند گھنٹے پہلے بھی ملکہ عالیہ کے میکے والوں کے گناہ جھاڑ کر فارغ ہوئے تھے جس پر وہ کلستی ہوئی کمرے میں چلی گئی تھیں۔
…٭…
اگلے روز فقیر صاحب کے بھائی جو کہ ضمیر حسین کے نام سے جانے جاتے تھے، لندن سے تشریف لے آئے۔ بڑی گہما گہمی مچی ہوئی تھی۔ طرح طرح کے پکوان پک رہے تھے۔ فقیر صاحب کے بنگلے میں ایک الگ ہی فضا قائم تھی۔ بچے تو ایسے پُرجوش تھے جیسے سارا خزانہ انہی کے نام ہونے والا تھا۔ اتنے میں بیل بجی اور سب کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ سب دروازے کی جانب بھاگے۔ لیکن افسوس سب کو کچرا دینا پڑا، کیوں کہ گھنٹی کچرے والے نے بجائی تھی۔ سب مایوس سے ہوگئے تھے۔ اسی طرح کتنی گھنٹیاں فقیر اینڈ فیملی کو مایوس کر گئی تھیں۔ آخرکار وہ تھک ہارکر بیٹھ گئے تب ہی گھنٹی بجی، جس پر فقیر صاحب کے چھوٹے صاحبزادے منعام فقیر منہ بناتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھے، جھری سے جھانکا تو پھولے نہ سمائے۔ باہر تو ان کے لندن والے تایا جان تھے۔
’’ابو!ابو!ابو!!!‘‘ منعام میاں نے چلّا چلّا کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔
’’ارے بھائی!کیا ہوگیا؟‘‘ راؤ صاحب بھی پریشانی کے عالم میں دوڑے چلے آئے۔
’’تایا جان آگئے!‘‘ وہ ناچتا جارہا تھا اور بتاتا جارہا تھا۔ ابا جان کو بھی غصہ آیا۔ انہوں نے منعام کے سر پر چپت لگائی اور دروازہ کھولا۔ منعام بے چارہ جس کو مار کھانے کی عادت نہیں تھی، جھینپ کر رہ گیا۔ دروازہ کھلتے ہی ہوا اتنی تیز ہوگئی کے پتّے تایا جان کے استقبال میں ان کے قدموں میں آگرے۔ کوئل گیت گانے لگی۔ تب ہی ایک آواز آتی ہے’’میں اندر آؤں یا یہیں سے چلا جاؤں؟‘‘ اور یک دم سب رک جاتا ہے۔
’’نہیں بھائی جان! بالکل اندر تشریف لے آئیں۔ روحان! تایا جان کے بیگ اندر لے کر آؤ۔‘‘ راؤ صاحب نے اپنے بڑے صاحب زادے کو تایا کا سامان اندر پہنچانے کی تلقین کی۔
تایا جان تو اندر چلے گئے مگر جوں ہی روحان بیگ لینے آیا تو دونوں بھائیوں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ تایا جان دو بڑے بڑے بیگ لے کر آئے تھے۔ اندر پہنچے تو پتا چلا ابھی دو بیگ اور ہیں۔ بچوں کی آنکھیں چمکنے لگیں، زیادہ بیگ مطلب زیادہ تحائف۔
اُس روز تو کوئی بیگ نہیں کھولا گیا۔ اگلے روز بھی نہیں۔ آخر جب منعام کے صبر کی حد پار ہوئی تو وہ کہنے پر مجبور ہو ہی گیا ’’تایا جان! بیگ کھول بھی لیں۔‘‘
فقیر حسین اس بات پر شرمندہ سے ہوئے، مگر بچہ کہہ کر اپنی شرمندگی چھپا گئے۔ اتنے میں ملکہ عالیہ چائے بھی لے آئیں۔
’’ہاں بھائی کھول لوں گا، ابھی تو آیا ہوں!‘‘ تایا جان نے کہا۔
’’ابھی کب؟ آپ کو آئے ہوئے کئی دن ہوگئے ہیں۔ بے شک باقی سامان نہ کھولیں، آپی اور بھیا کے تحائف نہ دیں مگر مجھے میرا تحفہ چاہیے۔‘‘ منعام ضد پر اڑ گیا تھا۔
’’مگر میں تو تمھارے لیے کچھ نہیں لایا!‘‘ تایا جان نے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔
’’تو پھر پیسے دے دیں، ویسے بھی آپ نے عیدی نہیں دی۔‘‘وہ منہ بنا رہا تھا۔
فقیر حسین کا غصے سے لاوا ابل رہا تھا۔
’’میں تو کیش بھی نہیں لایا!‘‘ تایا جان نے جھوٹ موٹ کی افسردگی کا اظہار کیا۔
’’تو ابو کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیں۔‘‘ آج کل کے بچے منعام جیسے ہی ہیں۔
’’کیا بدتمیزی ہے منعام!‘‘ آخر فقیر حسین کی برداشت کی حد ختم ہوگئی۔
’’کتنے لالچی بچے ہیں آپ کے!‘‘ ملکہ عالیہ کیسے چپ رہ سکتی تھیں۔ ان کا دل تو میکے والی بات پر پہلے ہی جلا ہوا تھا۔
’’ارے بھائی! اس میں لالچ والی کیا بات ہے! وہ اپنے تایا سے مانگ رہا ہے کسی غیر سے تھوڑی۔‘‘ تایا جان نے آگ بجھانی چاہی۔
’’بچے تو ایسے ہی عیدی مانگتے ہیں اور جب وہ ایسے مانگتے ہیں تو دینے کا مزا دوبالا ہوجاتا ہے۔‘‘ تایا جان نے کہا۔
’’مگر بھائی جان! عید کو گزرے کئی دن ہوگئے اب عیدی مانگ رہے ہیں وہ بھی بدتمیزی سے۔‘‘ فقیر حسین نے کہا۔
’’تو کیا ہوا؟ میری عید تو ویسے بھی اب ان کھلتے پھولوں کو دیکھ کر شروع ہوئی ہے۔ اور ہاں ملکہ بھابھی! عیدی مانگنا کوئی لالچ کی نشانی نہیں ہے۔ عیدی تو انسان اپنی خوشی سے تحفتاً دیتا ہے، اور مانگنا تو معصوم بچوں کی نشانی ہوتی ہے۔ جن کے دل میں کھوٹ نہیں ہوتا اُن کے دل میں کھٹک اور جھجک بھی نہیں ہوتی۔‘‘ تایا جان نے بہت تفصیل سے سمجھایا۔
’’بھائی جان! یہ بات آپ اپنے بھائی کو سمجھائیں۔ میرے میکے کے بچوں کو اکثر ہی کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں، اور اس دن عیدی مانگنے پر لالچی کہہ دیا، اور جب اپنی اولاد نے کیا تو برداشت نہیں ہوا۔ ہونہہ!‘‘ ملکہ عالیہ بھی اپنے نام کی ایک تھیں، بدلہ لیے بغیر رہا نہیں گیا۔
’’پہلی بات، اپنے ذاتی جھگڑوں میں بچوں کو نہیں گھسیٹتے۔ بچے جنت کا پھول ہوتے ہیں اور ان کے دل بہت نازک ہوتے ہیں۔ پتا نہیں کون سی بات ان کے بچپن کا کوئی حادثہ بن جائے۔ دوسری بات فقیر صاحب! آپ نے عیدی نہیں دینی، نہ دیں مگر یوں کسی کی دل آزاری کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔ تیسری بات، غیبت کرکے اپنی نیکیاں بھی گنوا دیں آپ نے۔ مجھے افسوس ہے آپ کی سوچ پر!‘‘ تایا جان افسردگی میں سر ہلا رہے تھے۔
’’میں معذرت خواہ ہوں بھائی جان! میں سمجھ رہا ہوں آپ کی بات اور اپنی غلطی بھی تسلیم کررہا ہوں۔ میں مانتا ہوں مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں آئندہ سے خیال رکھوں گا۔‘‘ فقیر حسین کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ پھر تایا جان نے اپنے بڑے ہونے کا ثبوت یوں دیا کہ راؤ صاحب کو گلے لگا لیا۔ ان کے آنسو پونچھے۔
’’دیر آید درست آید!‘‘ تایا جان نے کہا۔ ملکہ عالیہ کا دل بھی پسیج گیا۔ انہوں شوہرِِ نامدار کو پانی کا گلاس پیش کیا اور آخرکار تایا جان نے بیگ کھول ہی لیا۔
nn

حصہ