اعتراف

143

اس نے دو رکعت نماز ادا کی اور ہتھیلیاں پھیلا لیں۔ عجب ہی معاملہ تھا، کچھ مانگنے سے پہلے ہی چہرہ تر ہوجاتا، جذبات کی رو خود بہ خود ہی امنڈ آتی۔ کچھ کہے بنا ہی جیسے سب کچھ کہہ دیتی۔ شاید سراپا دعا ہونا اسے ہی کہتے ہیں کہ جب رگ و پے کا رشتہ الفاظ سے زیادہ مضبوط ہو جائے۔
’’لنچ باکس…‘‘ سوچوں نے دل کو ٹہوکا لگایا۔ وہیں مکالمہ کرنے والے سے اجازت چاہی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ گھڑی کی جانب نگاہ دوڑائی، بچوں کے جاگنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ لنچ بکس تیار کرنے کا سوچا۔ سحری کے برتن وہ صاف کر چکی تھی۔ باورچی خانے کی جانب قدم بڑھائے ہی تھے کہ قاسم کی آواز پر وہ چونکی:
’’بچوں کی چھٹی کروا لو، نیند خراب ہوتی ہے میری۔‘‘ نیند سے مغلوب قاسم سے مزید کچھ کہنا بے کار تھا۔ اس نے حکم کی تعمیل کرنا ہی بہترجانا اور بستر پر آپڑی۔
نیند تو شاید اُس سے روٹھی ہوئی تھی۔ سوچوں کا غلبہ اُسے کسی کروٹ سکون نہ لینے دے رہا تھا۔ رمضان کی آخری ساعتیں اُسے اسی طرح بے کل کردیتیں۔ جیسے جیسے عید کے دن قریب آتے، یادیں دھویں کے مرغولوں کی مانند اس کے گرد منڈلانے لگتیں۔ اس نے پاس رکھی میز سے ٹیبل کلینڈر نکالا۔ ایک اور تاریخ پہ نشان لگایا، گویا ایک دن مزید زندگی سے کاٹ ڈالا ہو۔ ’’گیارہ سال، چار ماہ اور دس دن۔‘‘ اس کے دل سے ہوک اٹھی اور وہ ماضی کے اوراق میں گم ہوگئی۔
…٭…
’’اب بھی وقت ہے اس سے اچھی جگہ تیرا رشتہ کروں گا۔‘‘ ابا نوشابہ کے پاس آ بیٹھے۔
’’ابا کل بارات ہے اس کی۔‘‘ آپا آگے بڑھیں اور ابا کے شانے تھامتے ہوئے انہیںکرسی پہ بٹھایا۔
’’اور جو سارا محلہ ہم پر تھوک رہا ہے، طرح طرح کی باتیں بنا رہا ہے؟‘‘ ابا کی آواز میں کڑواہٹ ابھری۔
نوشابہ کی نگاہیں ہنوز زمین پر تھیں۔ کمرے میںسناٹا در آیا۔ انہوں نے نوشابہ کی نگاہوں کو ٹٹولنا چاہا، مگر وہ وہیں جمی تھیں۔ اٹل، بالکل خالی۔ ابا یکدم کھڑے ہوگئے۔
’’ٹھیک ہے، کر لے اپنی مرضی۔ کل اسے رخصت کرو، آئندہ نہ یہ اپنی شکل دکھائے، نہ کوئی اور اس سے ملے گا۔‘‘
ابا دو ٹوک فیصلہ سنا چکے تھے۔ اُن کا ہر فیصلہ پہاڑ کی مانند اٹل ہوتا، اور وہی ہوا۔ نوشابہ اپنے من پسند قاسم کے ساتھ رخصت کردی گئی۔ ولیمے میں اس کے خاندان کے کسی فرد نے شرکت نہ کی تھی۔ آخری لمحے تک دل کی نگاہیں ان کی آمد کی منتظر رہیں، مگر قاسم کے لیے ہی تو ناراضی مول لی تھی، کوئی برا سودا معلوم نہ ہوا تھا۔ ایک دوسرے کو پاکر دونوں کی، دل کی دنیا باغ و بہار ہوگئی تھی۔
’’وقت کے ساتھ برف پگھل جائے گی۔‘‘ اس نے خود کو تسلی دی۔
وقت کا پرندہ اُڑا اور کسی اور منڈیر پر آ بیٹھا۔ ماحول یکسر بدل چکا تھا۔ بچوں سے آنگن کھلکھلا چکا تھا۔ تب بھی میکے سے کوئی ہلچل ہوئی، نہ ہی کوئی بھاگا دوڑا آیا۔ بھجوائی گئی مٹھائی الٹے ہاتھوں لوٹا دی گئی۔ بارہا ملنے کی کوشش بارآور نہ ہوئی۔ باپ کے در سے خالی دامن لوٹ آئی۔ وہ بجھ سی گئی۔
’’نوشی! الارم کب سے بج رہا ہے۔‘‘ قاسم کی آواز اسے خیالات کی دنیا سے واپس لے آئی۔
’’بندہ نیند سے بیدار ہوگیا مگر تمہارا تو جاگنا، نہ جاگنا ایک ہی بات ہے۔‘‘ وہ آنکھیں موندتے اٹھا اور باتھ روم کی جانب ہو لیا۔
’’میں فریش ہونے جارہا ہوں، کپڑے نکال کر رکھ دینا، کل کی طرح دفتر سے لیٹ نہ کروا دینا۔‘‘
قاسم کی یاددہانی پہ اسے بھی خیال آیا کہ کل اس کی کوتاہی سے قاسم کو دیر ہوگئی تھی۔ ’’اوپر والی موٹر چلائی ہوتی تو نہ پانی ختم ہوتا، نہ قاسم کو تاخیر ہوتی۔‘‘ نوشابہ نے اندر ہی اندر خود کو کوسا تھا۔ شاید قاسم ٹھیک ہی کہتا تھا کہ بروقت کام کرنا ہی ذمہ داری ہے۔ رشتے نبھانا بھی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی اسی کی یاددہانی کے سب نوشابہ نے جیٹھ اور جیٹھانی کے لیے افطار کا اہتمام کیا تھا۔ وہ بھی قاسم کی ہر بات پر من وعن عمل کرتی۔ جیسے چاہتا، ویسے ہوتا۔ دن کو رات کہتا تو رات ہوتی۔ وہ جہاں قدم رکھتا نوشابہ کے قدم بھی وہیں پڑتے۔ صحیح کو غلط کہتا تو نوشانہ بھی حتمی مان لیتی۔ گویا ہر فیصلہ قاسم کی مرہونِ منت ہوتا۔ یہی وجہ ان کی ازدواجی زندگی کا نسخۂ کامیابی ثابت ہوئی۔
لیکن ذمہ داری کے اُس نسخے پر وہ آج بھی پوری نہ اتری تھی جسے قاسم نے ترتیب دیا تھا۔ گیارہ سالہ سفر میں وہ ’’ذمہ داری‘‘ کا معیار نہ جانچ پائی تھی جو قاسم اس سے چاہتا تھا۔ بچوں کے لیے کس رنگ کے کپڑے مناسب ہیں، تربیت کے کون سے پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہیں، بچوں کی بڑھتی عمر کے لحاظ سے کیا کھلانا چاہیے، غذا کی تبدیلی کا طریقۂ کار کیا ہو۔ غرض وہ جو بھی کرتی محض کم فہمی کہلائی جاتی۔ غیر ذمہ دار سے ذمہ دار بننے کی تگ و دو اسے اکثر تھکا دیتی۔ دونوں کے بیچ نوک جھونک کی وجہ بھی یہی ہوتی۔ وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتی۔
’’سب کچھ کرنے کے باوجود غیر ذمہ دار! کون سا کام ہے جو نہ کرکے دیا ہو!‘‘ نوشابہ کوفت کا اظہار کرتی۔
’’ہر عورت ہی کرتی ہے مگر دنیا یوں غیر ذمہ داری سے نہیں چلتی۔ اگر میں تمہارے بکھرے انداز نہ دیکھوں تو نہ جانے گھر کا کیا حال ہو۔‘‘
کچھ دیر میں بلند آوازیں زیر لب ہوتیںاور یکایک جھاگ کی طرح بیٹھ جاتیں۔ یوں دونوں زندگی کے دائرے میں پھر گھومنے لگ جاتے۔
شیر خورمہ کو لوازمات سے سجایا اور کھانے کی میز پر رکھ دیا۔
’’عید کی نماز پڑھ کر آتے ہی ہوں گے۔‘‘ نوشابہ سوچتے ہوئے کرسی پر آبیٹھی اور کلائیوں سے کھنکتی چوڑیوںمیں محو ہوگئی۔ مہندی بھرے ہاتھوں میں چوڑیاں قاسم کو خوب لبھاتیں۔
’’ابا بھی چاند ہوتے ہی مہندی کا ہی پوچھا کرتے، خالی ہاتھ انہیں بھی نہ بھاتے۔‘‘ دل کے کسی کونے سے آواز ابھری۔ ’’عید مبارک…‘‘ بچوں کی خوشیوں بھری آواز گونجی۔ وہ بھی تاثرات دباتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی بھی تو کُل دنیا اب یہی تھی۔ سب نے مل بیٹھ کر شیر خورمہ نوش کیا۔ بچے عیدی لے کر اپنے دوستوں میں مگن ہوگئے۔ دن بھر قاسم کی اٹھتی ستائشی نگاہیں اس کے زخموں پر گویا مرہم تھیں۔ وہ بھی اس کے زخموں سے بہ خوبی واقف تھا۔ بے چینی سے بارہا فون ملاتے نوشابہ کو دیکھا تو اس کے ہاتھ تھام لیے۔
’’آج کے دن شاید ابا بات کرلیں۔‘‘ ڈری سہمی امید زبان پر آئی۔
قاسم ہنوز اسے تھامے ہوئے تھا جیسے روکنا چاہ رہا ہو۔ اس نے چھڑانا چاہا، سوالات کی لیکریں ماتھے پہ واضح ہونے لگیں۔
’’آپ تو خود ہمیشہ فون ملاتے ہیں، پھر آج…؟‘‘
وہ مسکرا دیا ’’ہر بات کا وقت ہوتا ہے۔‘‘
وہ اب بھی کچھ نہ سمجھ سکی۔ مگر فون مزید ملانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ قاسم بھی یکدم تیار ہوا اور بچوں کو ساتھ لیے باہر کی جانب چلا گیا۔
وہ بھی کھانا بنانے میں مگن ہوگئی۔ پلائو کے لیے یخنی چولھے پر چڑھائی اور دوسری جانب قورمے کے لیے پیاز فرائی کرنے لگی۔ تقریباً تین گھنٹے ہونے کو آئے تھے مگر نہ جانے قاسم بچوں کو کہاں لے کر گیا تھا۔ پلائو کو دَم پر لگا چکی تھی۔
’’عید کے دن تو بندہ ساتھ لے چلتا ہے۔‘‘ اس نے خود کلامی کی۔
اسی اثنا میں مہمان خانہ کسی کے لیے کھولا گیا۔ غالباً قاسم آچکا تھا۔ بچوںکی آوازیں بھی آرہی تھیں، مگر ساتھ کون تھا؟ پہچاننے سے قاصر تھی۔ آواز کچھ شناسا سی معلوم ہوئی۔ قاسم کے بلانے پر وہ بال سمیٹے مہمان خانے کی جانب ہو لی۔ اندر داخل ہوئی تو قدم وہیں ٹھیر گئے۔ آنسوئوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا، ہزارہا رنگ چہرے پہ بکھر گئے۔
’’میری چھپڑ چھائو…‘‘ وہ دوڑتی ابا کے سینے سے لگ گئی۔ کتنے ہی شکوے، معافی تلافی لمحوں میں بہہ گئے۔ اس نے ابا کے آگے ہاتھ جوڑ لیے۔
’’نہیں بیٹی! تم مجھے معاف کردو… بیٹیاں اپنے گھر میں سکھی ہوں اور کیا چاہیے۔‘‘
’’ابا ایسا نہ کہیں۔ میرا طریقہ غلط تھا۔ آپ تو مجھے زمانے کی گرم ہوا سے بچانا چاہتے تھے۔‘‘
ابا قاسم کی جانب مڑے ’’ہمارا ملنا تمہارے شوہر کی بہ دولت ممکن ہوا۔ میں دھتکارتا رہا مگر یہ میرے کڑوے کسیلے رویوں کے باوجود ڈٹا رہا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے انہوں نے سرعت سے قاسم کو بھی گلے لگا لیا۔ ’’میں بیٹے جیسے داماد کی قدر نہ کرسکا۔‘‘
نوشابہ نے کنکھیوں سے قاسم کو دیکھا۔
’’ابا آپ کا داماد ذمہ داریاں نبھانا خوب جانتا ہے۔‘‘ آج یہ اعتراف اس کے پُور پُور کو خوشی دے رہا تھا۔

حصہ