ذعیم اور فیصل دونوں بہت گہرے دوست تھے بچپن سے لے کر اب تک پڑھائی کھیل سکول کالج ہر جگہ دونوں ساتھ نظر اتے تھے دونوں کی دلچسپیاں بھی کم و بیش ایک جیسی تھیں یہ رمضان کے دن تھے دو عشرے گزر چکے تھے دونوں دوست تراویح پڑھ کر جب باہر نکلے تو فیصل نے کہا چلو یار چل کر اچھی سی چائے پیتے ہیں یہ دونوں بہت امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن روپے پیسے کی ریل پیل ہونے کے باوجود دونوں ہی بہت سلجھے ہوئے ہیں اور اچھے اخلاق کے مالک تھے یہ دونوں پیدل چلتے ہوئے چائے کے مشہور ہوٹل کیفے پیالہ پر جا کر بیٹھ گئے چائے پراٹھے کا ارڈر دے کر دونوں خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے اسی دوران ایک 10گیارہ سال کا لڑکا ا کر ٹیبل صاف کرنے لگا پھر اس نے چائے پراٹھا لا کر رکھا اور دوسری ٹیبل کی طرف متوجہ ہو گیا زعیم اور فیصل دونوں کو یہ بچہ بہت تمیزدار اور معصوم لگ رہا تھا ان دونوں نے یہ بات محسوس کی کہ یہ بچہ بار بار انہی دونوں کی طرف دیکھ رہا ہے زعیم نے اشارے سے اس بچے کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کیا بھوک لگی ہے پراٹھا کھاؤ گے بچے نے نفی میں سر ہلا دیا اس نے مزید پوچھا کہ کیا تم بڑھتے ہو بچے نے کہا ہاں دن کے وقت میں اسکول جاتا ہوں اور رات کو یہاں نوکری کرتا ہوں بچے کو باتیں کرتے دیکھ کر ہوٹل کے مالک نے گندی سی گالی دے کر اسے اواز دی کہ کام نہیں کرے گا تو پیسے کاٹ لوں گا بچہ جلدی جلدی دوسری میزو ں کی صفائیاں کرنے لگا فیصل اور ذعیم کافی دیر تک اس کے متعلق اپس میں باتیں کرتے رہے کہ کتنی کم عمری میں یہ بچہ یہاں نوکری کر رہا ہے اور اسے یہاں پیسے بھی کیا ملتے ہوں گے بچہ بہت محنتی معلوم ہوتا تھا لہذا ان دونوں دوستوں نے اس کی مدد کرنے کا سوچا مگر وہ اس کی عزت نفس بھی مجروح نہیں کرنا چاہتے تھے لہٰذا اس کے لیے انہوں نے ایک پلان بنایا ان دونوں کو اپنے گھر سے پاکٹ منی میں اچھی خاصی رقم ملتی تھی اگلے روز یہ دونوں پھر سے اسی ہوٹل پر چائے پینے گئے اور اس بچے کو بلا کر پوچھا کیا تم ہمارے لیے کام کرو گے بچے نے جواب دیا مجھے تو کوئی کام اتا ہی نہیں فیصل نے کہا تمہیں ہمارے سٹال پر رکھی ہوئی چیزیں بیچنی ہوں گی ہم تمہیں سب کام سمجھا دیں گے بس تمہیں نظر رکھنی ہوگی کہ چیزیں چوری نہ ہوں اگر تم نے اچھا کام کیا تو ہم تمہیں تنخواہ بھی دیں گے اور انعام بھی بچہ جس کا نام انور تھا وہ خوشی خوشی تیار ہو گیا پھر اس نے کہا کہ میرا ایک دوست بھی ہے جو بہت غریب ہے اس کو بھی کام کی ضرورت ہے اگر اپ اس کو بھی نوکری دے دیں تو بہت مہربانی ہوگی فیصل نے کہا ٹھیک ہے اگر وہ کام کرنا چاہتا ہے تو تم اسے بھی لے انا عید کے دنوں میں دکانوں کے اگے چھوٹے چھوٹے سٹال لگے ہوتے ہیں اس میں عید کے مطلب کی چیزیں بچیوں کے ہیئر بینڈز کلپس ہاربندے چوڑیاں ہیئر پن.اور مہندی کی کون وغیرہ شامل ہوتے ہیں یہ تمام چیزیں ان دونوں دوستوں نے خریدی اور ایک سٹال کرائے پر لے لیا اور ان دونوں بچوں کوچیزوں کی قیمتیں بتا دی عید میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا دکانوں اور سٹالوں پہ رش بہت بڑھ گیا تھا انوراور اس کا دوست جاوید دونوں سٹال پر بیٹھنے لگے اور بڑی سمجھداری کے ساتھ انہوں نے چیزوں کی قیمتیں بھی یاد کر لی ان کے سٹال پر گاہک انے لگے پہلے ہی دن اچھی خاصی چیزیں بک گئی تھی یہ دونوں بہت خوش تھے یہ بچے روزانہ کا پورا پورا حساب فیصل اور زعیم کو دیتے تھے فیصل اورذعیم بھی ان دونوں بچوں کو برگر چپس اور دوسری کھانے پینے کی چیزیں لا کے دیتے رہتے تھے تاکہ ان کا دل لگا رہے عید میں چار دن باقی تھے دونوں دوستوں نے تین تین ہزار روپے دونوں بچوں کو عید کی شاپنگ کے لیے دیے رش روز بروز بڑھتا جا رہا تھا یہ دونوں بچے بہت ہوشیاری اور دلجمی کے ساتھ کام کر رہے تھے اخری دنوں میں تو سحری تک سیل جاری رہتی تھی بچے بہت خوش تھے کہ انہیں ایک باعزت نوکری مل گئی چاند رات کو تو صبح تک خریداری کا سلسلہ چلتا رہا اسٹال بند کرنے کے بعد اب دونوں بچے تنخواہ کے منتظر تھے زعیم اور فیصل نے تو پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ یہ کام وہ ان بچوں کی مدد کے لیے کر رہے تھے جب حساب کتاب ہوا تو پتہ چلا کہ 16 ہزار روپے کی سیل ہوئی ہے ان دونوں دوستوں نے ان دونوں بچوں میں اٹھ اٹھ ہزار روپے برابربانٹ دیے اور وہ سارا سامان جو بچ گیا تھا وہ بھی ان کے حوالے کر دیا کہ اب تو تمہیں کاروبار کرنے کا طریقہ اگیا ہے اب یہ کام تم اپنے گھر کے باہر بیٹھ کر بھی کر سکتے ہو ہم تمہیں ایک کیبن بنوا کر دیں گے جس کو تم دونوں مل کر چلانا اور اس سے اپنے گھر والوں کا خرچہ اٹھانا لیکن دیکھو اسی طرح ایمانداری سے کام کرنا ہے اور اپس میں کبھی جھگڑا نہ کرنا کیونکہ اتفاق میں برکت ہے اور ہاں تم دونوں اپنی پڑھائی ضرور جاری رکھنا بچے بہت خوش تھے کیونکہ انہوں نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اتنے سارے نوٹ اپنی محنت سے وہ کبھی کما سکتے ہیں انہوں نے ان دونوں دوستوں کا بہت شکریہ ادا کیا اور یہ نیا کاروبار ملنے پر اللہ کا بہت بہت شکر ادا کیا اس طرح ان دونوں دوستوں کی اچھی سوچ اور ہمدردی نے ان بچوں کو کو محنت کے راستے پر لگا کر ایک اچھے مستقبل کا اغاز کیا یوں بچوں کا بھی بھلا ہو گیا اور ان چاروں نے ہنسی خوشی عید منائی۔