-1 دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے لئے مضبوط تنظیم وجود میں لایئے اور اقامت دین کے لئے اجتماعی جدوجہد کیجئے۔
’’اور تم میں سے ایک جماعت تو ایسی ضرور ہونی چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے، اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے‘‘۔
الخیر سے مراد ہر وہ فطری بھلائی ہے جسے ہمیشہ انسانی فطرت نے بھلائی سمجھا ہے اور جس کے بھلائی ہونے کی شہادت آسمانی کتابوں نے دی ہے، ان تمام بھلائیوں اور خوبیوں کی ایک جامع اور مرتب شکل اللہ کا بھیجا ہوا وہ دین ہے جو ہر دور میں اللہ کے پیغمبر لاتے رہے ہیں جس کی آخری مکمل، مستند اور محفوظ شکل وہ کتاب و سنت ہے جو نبیؐ امت کو دے گئے ہیں۔ اسی خیر کی طرف دعوت دینے اور بھلائیوں سے دنیا کو مالا مال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان جماعت بن کر منظم طور پر اس کام کو انجام دیں اور زندگی کے ہر میدان میں باطل پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے مضبوط اجتماعیت وجود میں لائیں اور انتہائی منظم جدوجہد کریں۔ اللہ نے مومنوں کی اس مضبوط اجتماعیت اور اجتماعی جدوجہد کا نقشہ کھینچتے ہوئے ان کی مثالی اجتماعیت کی تعریف کی ہے اور ان کو اپنا محبوب قرار دیا ہے۔
’’بلاشبہ وہ لوگ اللہ کے محبوب ہیں جو اس کی راہ میں استقلال کے ساتھ صف باندھے لڑتے رہتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہو‘‘۔
نبیؐ نے اجتماعی زندگی کی اہمیت اور جماعت بن کر زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
تین آدمی جو کسی جنگل میں رہتے ہوں، ان کے لئے جائز نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنے میں سے کسی کو اپنا امیر منتخب کرلیں (مشعی)
اور آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
جو شخص جنت کے وسط میں اپنا گھر بنانا چاہتا ہو اسے الجماعت سے چمٹا رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ شیطان ایک آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ دو ہوجاتے ہیں تو وہ دور بھاگ جاتا ہے۔
الجماعت سے مراد مسلمانوں کی ایسی منظم اجتماعیت ہے، جب اقتدار اسلام کے ہاتھ میں ہو، اور مسلمان خلیفہ اسلامی احکام و قوانین نافذ کررہا ہو اور سارے اہل اسلام اس کی قیادت و رہنمائی پر متفق ہوں، ایسی حالت میں کسی مسلمان کے لئے قطعاً کوئی گنجائش نہیں کہ وہ جماعت سے الگ رہ کر زندگی گزارے اور جب یہ الجماعت موجود نہ ہو تو امت کا فرض ہے کہ وہ منظم ہوکر اجتماعی جدوجہد کے ذریعے اس جماعت کو وجود میں لانے کی کوشش کرے۔
-2 اتحاد و تنظیم کی بنیاد صرف دین کو بنائے، اسلامی تنظیم وہی ہے جس کی بنیاد اللہ کا دین ہو۔ اللہ کے دین کو چھوڑ کر کسی اور بنیاد پر مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق وہ اتحاد نہیں ہے جس کا حکم اسلام نے دیا ہے اور ایسی تنظیم اور جماعت درحقیقت اسلامی تنظیم نہیں ہے۔ مسلمانوں میں حقیقی رشتہ اخوت و اتحاد صرف دین ہے۔ دین کے سوا جس چیز کو بھی یہ اپنے اتحاد کی بنیاد بنائیں گے متحد ہونے کے بجائے منتشر ہوں گے اور ایک الجماعت بننے کے بجائے گروہ، گروہ اور فرقہ، فرقہ بن جائیں گے۔
جماعت بنایئے تو صرف اس لئے کہ اللہ کا دین قائم کرنا آپ کا نصب العین ہو اور آپ کی ساری تگ و دو محض اسی کی خاطر ہو۔
قرآن کا ارشاد ہے:
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا، اور الگ الگ فرقے نہ بن جانا اور اللہ کے اس احسان کو یاد رکھنا جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیئے اور تم اس کے فضل و کرم سے بھائی بھائی بن گئے‘‘(آل عمران: 103)
اللہ کی رسی سے مراد اللہ کا دین، اسلام ہے قرآن کے نزدیک مسلمانوں کی وحدت و اجتماعیت کی بنیاد یہی دین ہے اس کے سوا کوئی بھی بنیاد مسلمانوں کو جوڑنے والی نہیں بلکہ پارہ پارہ کردینے والی ہے۔
-3 دعوت حق کے کارکنوں سے دلی محبت کیجئے اور اس رشتے کو ہر رشتے سے زیادہ اہم اور قابل احترام سمجھئے۔
قرآن میں مومنوں کی تعریف میں کہا گیا ہے:
’’تم اس گروہ کو جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے ان لوگوںسے محبت اور الفت کرتے نہ دیکھوگے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی دشمنی اور مخالفت پر کمربستہ ہوں۔ چاہے وہ اس کے اپنے ہی باپ یا اپنے ہی بیٹے یا اپنے ہی بھائی یا اپنے ہی خاندان والے کیوں نہ ہوں‘‘(المجادلۃ:22)
-4 جماعتی رفقا کی نصح و خیر خواہی کا اہتمام کیجیے اور جماعتی زندگی میں باہمی تلقین کے جذبے کو بیدار رکھیے۔ اس لئے کہ یہی کامیابی کی ضمانت ہے:
’’زمانہ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، اور جو ایک دوسرے کو دین حق کی وصیت کرتے رہے اور صبر و ثبات کی تلقین کرتے رہے‘‘ (العصر)
-5 جماعتی نظم کی پوری پابندی کیجئے اور اس کو محض جماعتی استحکام کا ذریعہ نہ سمجھیے بلکہ دینی فریضہ تصور کیجئے۔
اللہ کا ارشاد ہے:’’مومن تو حقیقت میں وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو دل سے مانیں، اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسولؐ کے ساتھ ہوں، تو ان سے اجازت لئے بغیر نہ جائیں، حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آپؐ سے اجازت لیتے ہیں وہی لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کے ماننے والے ہیں‘‘(النور: 62)
نظم جماعت کی پابندی اور اپنے قائد کی اطاعت و فرمانبرداری محض ایک قانونی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک اہم شرعی معاملہ ہے اور قرآن پاک نے ان لوگوں کے ایمان کی سچائی کی شہادت دی ہے جو نظم جماعت کے پابند ہوں اور کسی جماعتی ڈیوٹی سے اسی وقت ہٹیںجب اپنے سر براہ سے اجازت حاصل کرلیں۔
-6جماعتی زندگی میں نیکی کے جو کام بھی ہورہے ہوں، خلوص دل سے اس میں تعاون کیجیے اور جو کچھ کرسکتے ہوں اس سے دریغ نہ کیجیے۔ خود غرضی، مطلب برآوری اور خود پرستی جیسے گندے جذبات سے اپنا اخلاقی دامن پاک رکھیے۔
قرآن کی ہدایت ہے:’’اور نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو‘‘(المائدہ:2)
-7 رفقا سے تعلقات خوش گوار رکھیے اور کبھی کسی سے کوئی اختلاف ہوجائے تو فوراً صلح صفائی کرلیجیے اور دل کی کدورت سے پاک رکھیے:
’’پس اللہ سے ڈرو، اور آپس کے تعلقات کو خوش گوار رکھو‘‘ (انفال:1)
-8اسلامی جماعت کے امیر کی خوش دلی کے ساتھ اطاعت کیجیے اور اس کے خیر خواہ اور وفادار رہیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:’’مسلمانوں کو اپنے ذمہ دار کی بات سننی اور مانی ضروری ہے وہ حکم اپنی طبیعت کے لئے خوش گوار ہو یا ناخوش گوار بشرطیکہ وہ اللہ کی نافرمانی کی بات نہ ہو، ہاں! جب اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو وہ بات نہ سننی چاہئے اور نہ ماننی چاہئے‘‘ (بخاری، مسلم)
حضرت تمیمؓ داری فرماتے ہیںکہ نبیؐ نے فرمایا:’’دین مخلصانہ خیر خواہی اور وفاداری کا نام ہے‘‘۔ تین بار آپؐ نے یہ بات دہرائی۔ ہم لوگوں نے پوچھا: ’’کسی کی خیر خواہی اور وفاداری‘‘۔ ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی، اس کے رسولؐ اس کی کتاب کی مسلمانوں کے ذمہ داروں کی اور عام مسلمانوں کی وفاداری‘‘ (مسلم)
-9جماعتی عصبیت، تنگ نظری اور دھڑے بندی سے پرہیز کیجیے۔ کشادہ دلی اور خوش اخلاقی کے ساتھ ہر ایک سے تعاون کیجئے اور جو لوگ بھی دین کا کام کررہے ہوں ان کی قدر کیجیے۔ ان کے ساتھ خیر خواہی اور اخلاص کا برتائو کیجیے اور ان کو اپنا رفیق سفر اور معین کار سمجھئے۔ دین کا کام کرنے والے درحقیقت سب ایک دوسرے کے ناصر و حامی ہیں۔ سب کا مطلب دین ہے اور سب اپنی اپنی سمجھ کے مطابق دین کی خدمت ہی کرنا چاہتے ہیں۔ خلوص کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعے ایک دوسرے کی غلطی واضح کرنا اور صحیح طرز فکر و عمل کی نشاندہی کرنا تو ایک نہایت ہی مبارک عمل ہے اور یہ ہونا چاہئے۔ البتہ باہمی منافرت، کشیدگی، بغض و عناد، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا کرنا، وہ رکیک طرز عمل ہے جو کسی طرح بھی داعیان دین کے شایان سان نہیں ہے اور ان لوگوں کا دامن اس طرح کے داغوں سے بالکل ہی صاف ہونا چاہئے جو واقعی دل کی گہرائی سے یہ چاہتے ہیں کہ اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو اللہ کی راہ میں لگائیں اور زندگی میں اللہ کے دین کی کچھ خدمت کر جائیں۔
قیادت کے آداب
-1 اسلامی جماعت کی قیادت اور رہنمائی کے لئے ایسے شخص کو منتخب کیجیے جو خدا ترسی اور پرہیزگاری میں سب سے بڑھا ہوا ہو، دین میں بزرگی اور بڑائی کا معیار نہ مال و دولت ہے نہ خاندان بلکہ دین میں وہی شخص سب سے افضل ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔
قرآن کا ارشاد ہے:’’اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا۔ تمہارے کنبے اور قبیلے بنائے تاکہ تم باہم پہچانے جائو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم سب میں زیادہ معزز اور مکرم وہ ہے جو تم سب میں زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے‘‘(الحجرات:13)
-2 قیادت کے انتخاب کو ایک خالص دینی فریضہ سمجھیے اور اپنی رائے کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے صرف اسی شخص کے حق میں استعمال کیجیے جس کو آپ واقعی اس بار گراں کو اٹھانے اور اس کا حق ادا کرنے کے لائق سمجھتے ہوں۔
اللہ کا ارشاد ہے:’’بلاشبہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنی امانتیں انہی کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہیں‘‘(النسا:58)
یہ ایک اصولی اور جامع ہدایت ہے، جو ہر طرح کی امانتوں پر حاوی ہے اور سلسلہ بیان میں امانتوں سے مراد اسلامی جماعت کی ذمہ داریاں ہیں یعنی اسلامی جماعت کی قیادت اور رہنمائی کے لئے اپنی رائے اور پسند کی امانت اسی اہل تر شخص کے حوالے کیجیے جو واقعی اس بار امانت کو اٹھانے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہو، اس معاملے میں جانب داری یا بے جا رواداری اور اسی طرح کے دوسرے عوامل سے متاثر ہوکر رائے دینا خیانت ہے جس سے مومن کا دامن پاک ہونا چاہیے۔
-3 اگر آپ مسلمانوں کی جماعت کی ذمہ داری سنبھالیں تو اپنے فرائض کا پورا پورا شعور رکھیے اور کامل دیانت، محنت، احساس ذمہ داری اور تن دہی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دیجیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:’’جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی امور کا ذمہ دار ہو اور وہ ان کے ساتھ خیانت کرے تو اللہ اس پر جنت حرام کردے گا‘‘ (بخاری و مسلم)
اور آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:’’جس شخص نے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی ذمہ داری قبول کی پھر اس نے ان کے ساتھ خیر خواہی نہ کی اور ان کے کام انجام دینے میں اپنے آپ کو اس طرح نہیں تھکایا جس طرح وہ اپنی ذاتی ضرورت کے لئے خود کو تھکاتا ہے تو اللہ اس شخص کو منہ کے بل جہنم میں گرادے گا (طبرانی)
-4 اپنے مامورین کے ساتھ نرمی، شفقت، انصاف اور بردباری کا برتائو کیجیے تاکہ وہ کھلے دل سے آپ کے ساتھ تعاون کریں اور اللہ آپ کی جماعت کو اپنے دین کی کچھ خدمت کرنے کا توفیق بخشے۔ قرآن میں نبیؐ کی تعریف میں کہا گیا ہے:’’یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ آپ ان لوگوں کے لئے انتہائی رحم دل ہیں ورنہ اگر کہیں آپ سخت مزاج اور سخت گیر ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے‘‘۔
اور آپ کو تاکید کی گئی ہے:’’اور آپ اپنے شفقت کے بازو پھیلا دیجیے ان مومنوں کے لئے جو آپ کی پیروی کررہے ہیں‘‘(الشعرا: 215/26)
حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! ہمارا تم پر حق ہے کہ پیٹھ پیچھے، ہماری مخلصانہ خیر خواہی کرو اور نیکی کے امور میں ہماری مدد کرو‘‘۔
پھر ارشاد فرمایا:’’اے حکومت کے ذمہ دارو! سربراہ کی برد باری اور نرمی سے زیادہ نفع بخش اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور کوئی برد باری نہیں ہے۔ اسی طرح سربراہ کی ناسمجھی اور جذباتیت اور بے سوچے سمجھے کام کرنے سے زیادہ نقصان دہ اور ناپسندیدہ کوئی دوسری نادانی اور بدسلیقگی نہیں ہے‘‘ٗ
-5 اپنے رفقا کی اہمیت کو محسوس کیجیے، ان کے جذبات کا احترام کیجیے، ان کی ضرورتوں کا احساس کیجیے اور ان کے ساتھ برادرانہ سلوک کیجیے کہ وہ آپ کو اپنا سب سے بڑا خیر خواہ سمجھیں۔
حضرت مالک بن حویرثؓ کہتے ہیں، ایک بار ہم کچھ ہم عمر نوجوان نبیؐ کی خدمت میں رہنے کے لئے پہنچے اور ہم آپؐ کے خدمت میں بیس رات تک رہے، واقعی اللہ کے رسولؐ انتہائی نرم دل اور رحیم تھے۔ جب آپؐ نے یہ محسوس کیا کہ اب ہمیں گھر والوں کی یادستا رہی ہے تو ہم سے پوچھنے لگے کہ تم لوگ اپنے پیچھے گھر میں کن کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہو؟ ہم نے تفصیل بتائی تو فرمایا:
’’اچھا تو اب تم لوگ اپنے گھروں کو واپس جائو اور انہی کے ساتھ رہو اور جو کچھ تم نے سیکھا ہے ان کو سکھائو اور انہیں نیک باتوں کی تلقین کرو اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھو اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے دے اور جو تم میں علم و کردار کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہو وہ نماز پڑھائے‘‘۔
-6اپنے رفقا کی قدر کیجیے اور انہی کو اپنا اصل سرمایہ سمجھتے ہوئے پوری تن دہی اور دل سوزی کے ساتھ ان کی تربیت کیجیے، ان کو نادار اور مفلس سمجھ کر ان لوگوں کی طرف حقیر نظروں سے نہ دیکھیے جب کہ اللہ نے دنیوی شان وشوکت اور مال و اسباب دے کر ڈھیل دی ہے:
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت اور رفاقت پر مطمئن رکھیے جو اپنے رب کی رضا کے طالب بن کر صبح و شام اس کو پکارتے رہتے ہیں اور ان کو نظر انداز کرکے دنیوی شان و شوکت کی طلب میں اپنی نگاہیں نہ دوڑایئے‘‘ (الکہف:28/18)
درحقیقت دینی جماعت کا اصل سرمایہ وہی لوگ ہیں جو تن من دھن سے دین کی تبلیغ و اشاعت میں لگ گئے ہیں۔ جماعت کے قائد کا فرض ہے کہ ان کی اہمیت کا احساس کرے اور اپنی ساری توجہ انہی کی تربیت اور تیاری پر مرکوز رکھے۔
-7جماعت کے سارے اہم کام رفقا کے مشورہ سے طے کیجیے اور انجام دیجیے اور رفقا کے مخلصانہ مشوروں سے فائدہ اٹھاکر جماعت کے کاموں سے ان کا لگائو اور شغف بڑھایئے۔ مومنوں کی صفت اللہ نے یہ بھی بیان کی ہے کہ ان کے معاملات باہمی مشوروں سے طے ہوتے ہیں۔
’’اور ان کے معاملات باہمی مشوروں سے طے پاتے ہیں‘‘۔
’’اور خاص معاملے میں ان سے مشورہ کیجیے‘‘۔
-8جماعتی معاملات میں ہمیشہ فراخ دلی اور ایثار سے کام لیجیے، اپنے اور گھر والوں کو کسی معاملے میں ترجیح نہ دیجیے۔ بلکہ ہمیشہ ایثار اور فیاضی کا برتائو کیجیے تاکہ رفقا خوش دلی کے ساتھ ہر قربانی دینے کے لئے پیش پیش رہیں اور ان میں جماعت سے بددلی اور بے تعلقی نہ پیدا ہو اور نہ خود غرضی اور مطلب برآری کے جذبات ابھرنے پائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک بار حضرت عمرؓ سے کہا:
’’اے خطاب کے بیٹے! میں نے مسلمانوں پر تمہیں اس لئے منتخب کیا ہے کہ تم ان کے ساتھ مشفقانہ برتائو کرو۔ تم نے نبیؐ کی صحبت اٹھائی ہے، تم نے دیکھا ہے نبیؐ کسی طرح ہم کو اپنے اوپر اور ہمارے گھر والوں کے اوپر ترجیح دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کو جو کچھ آپ کی طرف سے ملتا۔ اس میں سے کچھ بچ جاتا تو وہ ہم نبیؐ کے گھر والوں کو ہدیہ بھیجا کرتے تھے (کتاب الخراج)
-9جانب داری اور خویش پروری سے ہمیشہ بچتے رہیے اور بے جا مروت اور رواداری سے بھی پرہیز کیجیے۔ حضرت یزید بن سفیانؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے مجھے سپہ سالار بناکر شام کی طرف روانہ کیا تو اس وقت یہ نصیحت فرمائی:
’’اے یزید! تمہارے کچھ عزیز اور رشتہ دار ہیں ہوسکتا ہے کہ تم ان کو کچھ ذمہ داریاں دینے میں ترجیح دینے لگو۔ تمہارے لئے میرے نزدیک سب سے زیادہ اندیشے اور خوف کی بات یہی ہے‘‘۔
نبیؐ نے فرمایا کہ ’’جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی امور کا ذمہ دار ہو اور وہ مسلمانوں پر کسی کو محض رشتہ داری کی بنا پر یا محض دوستی کی وجہ سے حکمران بنائے تو اللہ اس کی طرف سے کوئی فدیہ قبول نہ کرے گا یہاں تک کہ جہنم میں ڈال دے گا‘‘ (کتاب الخراج)
-10 جماعت کے نظم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط رکھنے کی کوشش کیجیے اور کبھی اس معاملے میں بے جا نرمی اور ڈھیل سے کام نہ لیجیے۔
اللہ کا ارشاد ہے: ’’جب وہ اپنے کسی خاص کام کے لئے آپؐ سے اجازت مانگیں تو آپ جس کو چاہیں اجازت دے دیا کریں، اور ان لوگوں کے حق میں اللہ سے استغفار کیا کریں‘‘ (النور: 62/24)
یعنی جب جماعت کے رفقا کسی اجتماعی ضرورت کے لئے جمع ہوں اور پھر بعض لوگ اپنی نجی ضرورت اور معذوریوں کی وجہ سے اجازت مانگنے لگیں تو سربراہ جماعت کا فرض ہے کہ وہ نظم جماعت کی اہمیت کے پیش نظر صرف انہی لوگوں کو اجازت دے جن کی ضرورت واقعی اس اجتماعی دینی کام کے مقابلے میں زیادہ قابل ترجیح ہو یا جن کی معذوری واقعی شرعی معذوری ہو اور اس کا قبول کا کرنا ضروری ہو۔