رمضان المبارک کی آمد آمد تھی۔فاطمہ کا گھرانہ رمضان کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ان کے ہاں رمضان میں افطاری کا بہت اہتمام کیا جاتا تھا۔اس بار اور زیادہ کیا جانا تھا،کیونکہ اس بار فاطمہ کی خالہ عائشہ اپنی دو بیٹیوں بینا اور صبا کے ساتھ لندن سے ان کے گھر آ رہی تھیں۔
فاطمہ کو سحری کے لئے جاگنا بہت مشکل لگتا تھا۔
اس بار رمضان کے مہینے میں اسکول کی چھٹیاں بھی تھیں۔سحری کے بعد نماز پڑھ کر جو سوتی تو ظہر سے ذرا پہلے جاگتی،پھر تھوڑی دیر بعد امی سے پوچھتی کہ افطاری میں کیا بنا رہی ہیں۔اس کی والدہ جن چیزوں کا نام لیتیں تو منہ بسور لیتی اور اپنی پسند کی ایک آدھ چیز ضرور بنواتی۔اس کی امی تین بجے سے ہی افطار کی تیاریوں میں لگ جاتیں۔
سحری کے لئے الگ سالن بنتا۔
ساتھ میں کچھ چیزیں افطاری کے لئے اور دو قسم کے مشروب تو ضرور بنتے تھے۔فاطمہ اپنی امی کی مدد بھی نہ کرواتی اور عشاء کی نماز پڑھ کر ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتی یا فضول قسم کے گیم شوز سے لطف اندوز ہوتی۔
فاطمہ کی خالہ زاد بہنوں نے ان کے یہ معمولات دیکھے تو بہت افسردہ ہوئیں۔عائشہ خالہ کے گھرانے کے طور طریقے مختلف تھے۔وہ بے جا اصراف کی قائل نہیں تھیں۔
وہ افطاری میں بس کھجور کے ساتھ پانی پی کر افطار کرتیں اور پھر نمازِ مغرب ادا کر کے کھانا کھا لیتیں اور پھر تراویح کی تیاری کرتیں۔فجر کے بعد عائشہ خالہ اور ان کی بیٹیاں قرآن پاک کی تلاوت کرتیں۔تھوڑی دیر آرام کرتیں پھر قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر پڑھتیں۔ہلکا پھلکا کھانے کی وجہ سے عبادت میں سستی اور گرانی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
انھوں نے فاطمہ کو بھی سمجھایا کہ رمضان کا مہینہ ہمیں صبر کا درس دیتا ہے،نہ کہ حرص کا۔
جب ہم سادہ اور کم کھانا کھائیں گے تب ہی ہمیں غریب کی مشکلوں کا احساس ہو گا۔فاطمہ اور اس کی والدہ بہت شرمندہ ہوئیں کہ عائشہ خالہ نے غیر اسلامی ملک میں رہتے ہوئے بینا اور صبا کی پرورش اسلامی اُصولوں کے مطابق کی ہے اور وہ اسلامی ملک میں رہتے ہوئے بھی اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دور ہیں۔انھوں نے عبادت کی روح کو سمجھا ہی نہیں۔
فاطمہ اور اس کی امی عید کی خریداری آخری عشرے میں کرتی تھیں۔
جب بازار میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی اور ہر چیز کا بھاؤ آسمان سے باتیں کر رہا ہوتا ہے،لیکن انھیں ان سب باتوں کی بالکل پروا نہیں تھی۔
اس بار عائشہ خالہ نے ان کو بازار نہیں جانے دیا،بلکہ جو تحائف وہ وہاں سے لائی تھیں،ان سے کہا:”تم لوگ عید پر یہی پہننا۔مقدس راتوں کو اور ان قیمتی لمحات کو بازاروں میں ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔“
خیریت سے جب رمضان ختم ہوا تو اس بار عید پر فاطمہ اور اس کی امی کو الگ ہی سکون محسوس ہوا،کیونکہ اس بار انھوں نے رمضان المبارک الگ طریقے سے گزارا تھا۔اس مبارک مہینے سے فیض یاب ہونے کی کوشش بھی کی۔انھوں نے عائشہ خالہ کا دل سے شکریہ ادا کیا،جنہوں نے ان کی رہنمائی کر کے انھیں اندھیروں سے نکالا۔