سنہری بال اور کنجی آنکھیں…سچ مچ جیسے کانچ کی گڑیا۔
’’گود میں لوگی اس کو؟‘‘ابو نے پوچھا تو میں نے جھٹ سے ہاں کردی۔
وہ میری چھوٹی بہن تھی، مجھ سے پورے تین سال چھوٹی، نرم و ملائم گلابی گلابی۔ میرے لیے تو وہی کُل کائنات تھی… میرا بس چلتا تو ہر وقت گود میں لیے بیٹھی رہتی۔
وقت کے ساتھ میرا پیار، محبت، دوستی سب بڑھتی گئی۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہم ہر جگہ ساتھ ساتھ رہتے۔ کبھی ہماری لڑائی نہ ہوئی۔ دوستی میں بہناپے کی مثالیں ایسے ہی تو نہیں دی جاتیں نا؟ بہن، بہن ہوتی ہے… ایک جان دو قالب، ایک دوسرے کا دکھ بنا کہے سمجھنے والی… چپکے چپکے ڈانٹ سے بچانے والی، اپنے حصے کی چیزیں بھی دوسری کو دے کر خوش ہونے والی۔
اسکول، پھر کالج… میں شادی ہو کے سسرال آگئی۔ یہاں کی الگ دنیا اور کام… اچھا خاصا انسان اس دنیا میں ہیرو سے زیرو کے چکر میں آجاتا ہے، جب کہ میکے میں ساری بچیاں مزے کرتی ہیں… مزے تو سسرال میں بھی ہوتے ہیں لیکن ذمے داریوں کے ساتھ۔ بے فکری اور لاابالی پن بابل کی دہلیز پار کرتے ہی چھوٹ جاتا ہے۔
بس میکے کا سہارا تھا کہ بچوں کو نوین کے حوالے کرکے بے خود سوتی ہی چلی جاتی۔ جتنے دن رکتی، بچے نوین کے ہی ذمے ہوتے۔ آخر خالہ جو تھی۔
اِس بار امی کے پاس گئی تو بتانے لگیں کہ ’’نوین کا رشتہ آیا ہے… لڑکا امریکا میں پڑھ رہا ہے۔‘‘
’’اچھا تو آپ نے کیا سوچا ہے امی؟‘‘
’’منع کردیا کہ ہم اپنی بچی کی شادی پاکستان سے باہر نہیں کریں گے۔‘‘
ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ لڑکے کی بہن’’نا‘‘ کا سن کر آگئیں، امی نے وجہ بتائی تو کہنے لگیں ’’لوگ تو باہر کا نام سن کر خوشی خوشی تیار ہوجاتے ہیں، بس ہمیں ہی کوئی لڑکی پسند نہیں آرہی، ویسے بھی میرے بھائی کی جاب اسلام آباد میں ہے، وہ پڑھائی کرکے واپس وہیں آئے گا۔‘‘
’’چلو یہ بات ہے تو دیکھ سکتے ہیں…‘‘ بس پھر نوین کی شادی ہوگئی اور وہ پاکستان سے چلی گئی… جو گیا سو گیا…کون اور کیوں واپس آئے گا؟
ایسے جیسے دل کا ایک ٹکڑا آپ سے الگ ہوجائے۔ یہ وہ والا دور تھا جب نہ فون کی سہولت گھر گھر تھی، نہ موبائل تھے۔ آخر میں یہ کہتے ہیں: چلو خوش رہے جو جہاں رہے، لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ اگر جنت میں گئے تو ہی اکٹھے ہوں گے ورنہ خوشی اور غمی سب الگ ہی ہوجاتا ہے۔
یہاں پر دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے، وہاں رات ہوتی ہے تو یہاں دن ہوتا ہے… دوستی قائم رہے تو کیسے؟ ملاقات ہو تو کیوں کر؟ لاکھوں روپے خرچ کرکے یہاں پر آ بھی جائیں ملنے تو آتے ہی بچے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ وہ جو آنے کی خوشی ہوتی ہے وہ اسپتالوں کی نذر ہوجاتی ہے۔ ناقص غذائیں، آلودگی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بہتے نالے، فٹ پاتھوں پر ہیروئنچی اور جگہ جگہ ڈکیت… کراچی کی کتنی بدترین تصویر پیش کرتے ہیں کہ بچوں نے آنا ہی چھوڑ دیا۔ ہاں وہ جو یہاں پیدا ہوئی ہیں ان کو ماں باپ، بہن بھائیوں کی خوشبو کھینچ لاتی ہے، وہ بھی سال دو سال میں ایک بار… پھر مزے سے ہم سب اکٹھے ہو کے بیر، امرود،آم اور گرما گرم جلیبی، سموسے کھاتے ہیں۔ لیکن یہ لمحے بہت جلدی گزر جاتے ہیں۔
کوئی پیدا ہو یا مر جائے، وہ لوگ دور دیس میں تنہا ہوتے ہیں اور ہم کبھی فون پر اُن کو تسلیاں دیتے ہیں، کبھی مبارک باد… لیکن گلے نہیں مل سکتے، ایک دوسرے کو چھو نہیں سکتے۔ اب اگر جنت میں ہی اکٹھے ہوں تو ہوں، دنیا تو ایسے ہی گزرے گی۔
………
فارحہ کا فائنل ائر تھا کہ رشتے آنا شروع ہوگئے، لیکن مجھے باہر کے رشتے اچھے نہیں لگتے تھے، بلاوجہ زندگی میں ہی دوری سہو۔ بھئی! کم کھا لو، سستا پہن لو لیکن رہو اپنوں کے درمیان۔ آہستہ آہستہ گھر گرہستی یہاں پر بھی بن ہی جاتی ہے، لیکن اگر آپ برینڈز کے پیچھے چلے گئے تو پھر گزارا مشکل ہوجائے گا۔ یہی کہتے کہتے فارحہ کی شادی ایک اچھے گھرانے میں کردی۔ الحمدللہ زندگی اپنے ڈگر پر چل پڑی۔ داماد سے فقط یہی شرط رکھی تھی کہ جب میرا دل چاہے گا میں بچی سے ملنے آجاؤں گی، اور جب اُس کا دل چاہے تو وہ ملانے کے لیے ضرور لائے گا۔ اس کے سوا مجھے اور کوئی خواہش نہیں تھی۔
رخصت ہونے والی بچی کو صرف یہ معلوم ہو کہ وہ دل چاہنے پر اپنی امی، ابو، بہن بھائیوں سے مل لے گی تو وہ خوش اور مطمئن رہتی ہے… پھر بھی بچی کی رخصتی کرنا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے… رات کے ہنگاموں کے بعد بیٹی کے بغیر اگلی صبح، دل ہی نہیں اس کا کمرہ، گھر، بہنیں سب اداس اداس اور خالی خالی سے ہوجاتے ہیں… جانے کیوں!
شادی کے کچھ عرصے بعد فارحہ نے ہاؤس جاب شروع کردی۔ ہاؤس جاب کو چھے مہینے ہوئے تھے کہ ننھے منے سے عبداللہ نے آکر زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا۔ عبداللہ دو مہینے کے ہوئے تو ہاؤس جاب دوبارہ شروع کردی۔ صبح عبداللہ میرے پاس آجاتے تھے۔ ان کو نہلانا دھلانا، کھلانا پلانا سب میری اَن کہی ذمے داریوں میں شامل ہوتا چلا گیا۔
سال بھر کے عبداللہ اپنی عمر کے پہلے ہی سال میں بڑے بھائی بن گئے چھوٹی سی شزا کے۔ ہم سب کی زندگی میں رنگ، خوشبو، فیڈر، پیمپر اور چھوٹے چھوٹے کھلونے در آئے۔
ہم سب بہت خوش تھے۔ فرصت ہی نہ تھی کسی چیز کی۔ دونوں بچے اسکول جانے لگے۔ اکثر میرے پاس آجاتے، نزدیک گھر تھے۔ پھر وہی کھلانا، پلانا، سلانا… زندگی ایسی ہی رہتی اگر کراچی کے حالات بہتر ہوجاتے۔ الیکشن کے فوراً بعد داماد نے اس نظام سے مایوس ہوکر باہر جانے کا ارادہ باندھ لیا۔
’’کیوں جا رہے ہو باہر…؟ سب کچھ تو ہے یہاں…‘‘ میں نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں اسے روکنے کی کوشش کی۔
’’امی! یہاں انصاف نہیں ہے… میں سب کچھ سہہ سکتا ہوں، ناانصافی نہیں۔ قابلیت کے حساب سے نوکری نہیں ہے۔ آفس آنے کا ایک گھنٹہ، جانے کا ایک گھنٹہ… اُدھڑی ہوئی سڑکوں پر سفر کی تھکان… بچوں کی فیسیں، دوا علاج، خوشی غمی… اتنے اچھے پیکیج میں بھی میرے پاس کچھ نہیں بچتا۔ چلو یہ چھوڑ بھی دوں تو وہ جو دن دہاڑے میری کمائی اڑا لیتے ہیں، وہ پکڑے بھی جائیں تو چھوٹ جاتے ہیں… بس میں یہ ناانصافی نہیں جھیلوں گا۔‘‘
میں کیا کہتی، زبان پر تالا پڑ گیا۔ یہ کیسا اندھیر ہے، ہمارے بچے پاکستان سے نکل جانا ہی بہتر سمجھ رہے ہیں، انہیں امید کی کوئی کرن،کوئی راستہ نہیں دِکھ رہا۔
پھر پرسوں فارحہ اور بچے پاکستان چھوڑ گئے اور میں عبداللہ اور شزا کے اترے ہوئے میلے کپڑے سونگھ رہی ہوں… اور آنسو میرے گال پر نہیں دل پر گررہے ہیں۔