رمضان المبارک اور دورہ قرآن

738

اس پُرفتن دور میں جہاں ہمیں چاروں طرف برائیاں ہی برائیاں نظر آرہی ہیں، وہیں کچھ اچھائیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔ ان کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ انہی اچھائیوں میں رمضان المبارک کے آنے سے پہلے دورۂ قرآن پاک کی محافل کا انعقاد بھی شامل ہے جو بندے کا ناتا اپنے رب سے جوڑنے کا باعث بنتی ہیں۔

بچپن میں ہمیں ایسی محافل شاذ و نادر ہی نظر آتی تھیں، لیکن الحمدللہ اب جگہ جگہ ایسی محافل نظر آتی ہیں جن سے بندگانِ خدا کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ یہ محافل ہمارے لیے بہت خوبصورت صحبت بھی ہیں، کیوں کہ صحبت صرف انسانوں اور کتابوں سے ہی نہیں بلکہ ایسی محافل بھی ہیں۔ جس طرح بہترین اور نیک دوستوں کی صحبت سے کردار و عمل میں اچھائیاں پیدا ہوتی ہیں اسی طرح ان قرآنی محافل سے بھی آپ اپنے قلب کو روشن کرسکتے ہیں۔ دورۂ قرآن کی ان محافل سے قرآن کو پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملتا ہے جو کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری بھی ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں اچھا وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘ (بخاری شریف)

الحمدللہ گزشتہ چند سال سے اللہ رب العزت نے ہم گناہ گاروں کو بھی یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ ان محافل میں شرکت کرکے تھوڑا بہت حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ ہر سال قرآنی احکامات سے اپنے قلب میں جو محسوس کرتی ہوں اسے اپنے قارئین سے بھی ضرور شیئر کرتی ہوں۔ ان چند سال میں ہم سب شرکا کی اپنی استاذہ کی رہنمائی سے تلاوتِ قرآن پاک میں کافی اصلاح آئی ہے۔

اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کا قرآن (پڑھنے میں) خوب صاف ہو وہ (بزرگی میں) فرشتوں کے ساتھ ہوگا، جو (فرشتے) بندوں کے اعمال لکھتے ہیں، عزت والے پاکی والے ہیں۔ اور جو شخص قرآن پڑھنے میں اٹکتا ہے اور وہ اس کو مشکل لگتا ہے اس کو دگنا ثواب ملے گا۔‘‘(بخاری مسلم )

یعنی تلاوتِ قرآن پاک میں اچھائی پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ الحمدللہ دورہ قرآن کی ان محافل سے ہمیں تجوید اور رموز اوقاف کی کچھ پہچان اور آگہی ہوئی ہے جو تلاوتِ قرآن کے لیے بے حد ضروری ہے۔ تجوید کو نظرانداز کرنے سے عربی الفاظ کے معنی بھی بدل جاتے ہیں، اس لیے الفاظ کی صحیح ادائیگی نہ صرف تلاوت کی خوب صورتی اور حسن ہے بلکہ معنی کے لحاظ کے لیے بھی ضروری ہے، ورنہ ہم اس غلطی کی وجہ سے گناہ گار ہوسکتے ہیں۔

استاذہ (عالمہ) سے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر سمجھ کر پڑھنے اور سمجھنے سے آگہی کے دروازے کھلتے چلے گئے ہیں، سیکھنے کے ساتھ ساتھ عمل کرنے کی بھی کچھ توفیق حاصل ہوئی ہے جو بے حد ضروری ہے۔

ابوداؤد کی حدیثِ مبارکہ ہے جسے حضرت معاذؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا، قیامت کے دن اُس کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی دُنیا کے سورج سے زیادہ ہو گی، تو تمہارا قرآن پر عمل کرنے والے کے بارے میں کیا خیال ہے۔‘‘ سبحان اللہ۔

بے شک قرآن پاک پڑھنے کا بے حد ثواب ہے، صرف الم پڑھنے پر تیس نیکیاں۔ یعنی امتِ مسلمہ کے لیے نیکیوں کا خزانہ ہی خزانہ، سبحان اللہ۔ جب پڑھنے پر اتنا اجر، تو سمجھ کر پڑھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کا اجر اور پھر آگے دوسروں کو پہنچانے پر اجر۔

بار بار جب قرآن پاک کو ترجمے اور تفسیر سے پڑھنے کا موقع ملے تو دل پر اثر تو یقینی ہے۔ بندے کے دل میں توحیدِ الٰہی پر یقین کے ساتھ رب العالمین کی محبت پختہ ہوجاتی ہے۔ پھر اللہ کی ہم سے محبت کہ وہ ہمیں اپنے احکامات کے ذریعے بار بار پچھلی امتوں پر اُن کی نافرمانیوں پر دنیاوی عذاب کے ساتھ آخرت کے انجام سے خبردار کررہا ہے کہ یہ یہ برائیاں تھیں اُن قوموں میں جس کی وجہ سے اُنہیں دنیا میں بھی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور آخرت میں بھی ان کا انجام ہولناک ہوگا۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہی ہے کہ ہم اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں، اور ان پچھلی امتوں کی طرح گمراہ نہ ہوجائیں۔ پھر ڈرانے کے فوراً بعد اللہ مومنین کو خوش خبری بھی سنا رہا ہے آخرت کی ابدی زندگی کے سُکھ کی۔

مجھ ناقص علم کے دل میں ایک اور چیز کا احساس بھی ہوتا ہے کہ اس دوران جو سوال بھی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اگلی آیات میں ان کا جواب ہمیں مل جاتا ہے۔ اللہ کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت اور حکمت ہے۔ بے شک اس بات کا احساس قرآن پاک کو اساتذہ کرام کی رہنمائی میں سیکھنے سے ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی میرے رب کا ہم پر کرم ہے، کیوں کہ کم از کم ان محفلوں میں شامل ہوکر اپنے آپ کو برائیوں سے بچانے کے تو قابل ہو ہی جائیں گے، اِن شاء اللہ۔
اللہ رب العزت ہمیں بھی قرآن پاک سیکھنے، اس پر عمل کرنے اور سکھانے والوں میں شامل کرے، آمین ثم آمین یارب العالمین۔

حصہ