”کل اخبارات میں چھپنے والی اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ پڑھ کر انتہائی افسوس ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے، 56 لاکھ بچے سرے سے اسکول جاتے ہی نہیں، ایک کروڑ 4 لاکھ بچے سیکنڈری سے آگے نہیں بڑھ پاتے، جبکہ شہری اور دیہی نظامِ تعلیم میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جب سے یہ رپورٹ میری نظر سے گزری ہے اُس وقت سے دل بہت پریشان ہے۔ سوچتا ہوں معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالات تو پہلے ہی خراب تھے، اب تعلیمی نظام بھی زمیں بوس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔“
”ماسٹر صاحب، آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں! جس ملک میں مہنگائی اور غربت سے تنگ افراد خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں، جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں، وہاں تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کس کو فکر ہوگی! یہ وہ وقت ہے جس میں بچوں کی روٹی پوری ہوجائے اتنا ہی کافی ہے۔“
”ارے ساجد میاں! معاشی حالات کی خرابی اپنی جگہ.. تعلیمی نظام کی ابتری انتہائی خطرناک ہے، اس سے نہ صرف معاشرتی نظام بلکہ قومیں تباہ و برباد ہوجایا کرتی ہیں۔ دیکھو، تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، کوئی ملک تعلیم کے میدان میں جتنا بہتر ہوگا، زندگی کے ہر شعبے میں اُتنی ہی بہتری نظر آئے گی۔ تعلیم معاشرتی، اقتصادی، تہذیبی و ثقافتی یعنی ہر میدان میں ترقی کی ضامن ہے، لہٰذا اسے ایسے چھوڑا نہیں جاسکتا۔ یاد رکھو، تعلیمی نظام کا ارتقاء ہی قوموں کی زندگی کی علامت ہوا کرتا ہے، اس لیے فکرمند ہونے کی ضرورت ہے، خاص طور پر مجھ جیسے شخص کے لیے تو یہ خبر زہر قاتل سے کم نہیں، اور یہ بھی ذہن نشین کرلو کہ علم و ہنر کو جو مقام موجودہ دور میں حاصل ہے، اس سے روگردانی کرنے والی قومیں صفحہِ ہستی پر اپنی موجودگی کو زیادہ دیر قائم نہیں رکھ سکتیں۔ ایک مضبوط قوم بننے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی یافتہ اور ثمرآور تعلیمی نظام ہی مضبوط اور مہذب قوم کی تعمیر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں سائنسی ترقی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں جو قومیں تعلیمی میدان میں عالمی سطح پر اپنے علمی حصے کی شراکت نہیں کرپائیں گی وہ ترقی یافتہ اقوام کے سامنے ہمیشہ دست بستہ رہیں گی اور عزت و احترام سے محرومی ہمیشہ اُن کا مقّدر رہے گی۔“
”ماسٹر صاحب! آپ نے جو کہا وہ بالکل درست ہے، لیکن اگر یہ حالات ہوئے ہیں تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ میرا مطلب ہے تعلیمی نظام کی بربادی کے محرکات کیا ہیں؟ دیکھا جائے تو اسکول تو ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ تعلیمی ادارے موجود ہیں، خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں کی تو منڈی لگی ہوئی ہے، شاید ہی کوئی گلی یا محلہ ایسا ہو جہاں پرائیویٹ اسکول نہ ہو، تو پھر ہم دنیا میں رائج تعلیمی نظام سے پیچھے کیسے ہوئے؟“
”ساجد میاں! تم ٹھیک کہہ رہے ہو، بے شک ہر گلی کے نکڑ پر اسکول موجود ہیں، نجی تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہوا ہے، لیکن یہاں بات تعلیمی معیار کی ہے، بہترین عمارتوں کی نہیں۔ میں مانتا ہوں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جہاں مختلف سہولیات کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم دی جاتی ہوگی، لیکن زیادہ تر ادارے تو محض کاروباری طرز پر یا برانڈ کے نام سے مال کمانے میں مصروف ہیں، انہیں بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما سے کیا لینا! ان کے نزدیک تو یہ کاروبار ہے۔“
”ماسٹر صاحب! آپ بھی تو ساری زندگی شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے ہیں، آپ کے وقت میں اور آج ایسا کیا ہوا کہ ہمارا نظامِ تعلیم دنیا سے پیچھے رہ گیا؟“
”بات سیدھی سی ہے، ہمارے زمانے میں سرکاری تعلیمی ادارے اعلیٰ تعلیم کا گہوارا ہوا کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ اُس وقت سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہاں کے ماحول، اساتذہ کی قابلیت اور تعلیمی معیار کا کوئی ثانی نہ تھا۔ سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طالبِ علم جس جگہ جاتے، انہیں عزت اور محبت ملا کرتی، ان کی تعلیمی قابلیت پر کوئی شبہ نہ ہوتا۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ یہ سرکاری پیلے اسکول ہی تھے جہاں سے فارغ التحصیل عام گھرانوں کے بچوں نے نہ صرف اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہر میدان میں ملک کا نام اونچا کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک جو بھی اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے یعنی ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، شاعر و ادیب، یہاں تک کہ اعلیٰ عدلیہ سے وابستہ بڑے نام… سب نے سرکاری اسکولوں سے ہی تعلیم حاصل کی۔ وہ بچے جن کے جوتے پھٹے ہوا کرتے تھے آج مہنگے قیمتی بوٹ پہنے نظر آتے ہیں، وہ سب سرکاری اسکولوں کی ٹوٹی پھوٹی ڈیسکوں پر، تو کبھی چٹائیوں پر بیٹھ کر علم کی روشنی سے منور ہوئے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُس دور میں سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار وہ نہ تھی جو آج ہے۔ اُس زمانے میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود بھی معیارِ تعلیم بہت بہتر ہوتا تھا۔ اُس وقت بنیادی سہولیات سے زیادہ حصولِ تعلیم اہمیت رکھتا تھا،اساتذہ عبادت سمجھ کر پڑھایا کرتے تھے۔آج سب کچھ بدل گیا،ایسے حالات ہوگئے کہ اب تو غریب طبقہ بھی یہاں آنے سے گریز کرنے لگا ہے۔ہاں چند گنے چنے لوگ ضرور ایسے ہیں جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو سرکاری پیلے اسکولوں میں داخل کرانے پر مجبور ہیں، لیکن وہ بھی یہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس بھی معقول ذرائع آمدنی کا کوئی راستہ ہوتا تاکہ ہم اپنے بچوں کا کسی ایسے نجی تعلیمی ادارے میں داخلہ کراتے جہاں طلبہ کو دورِ حاضر کے مطابق تعلیم دی جا رہی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ چند نجی اسکول ایسے ہیں جو آج بھی اس شعبے کو عبادت سمجھ کر چلا رہے ہیں، لیکن اکثریت اس کے برعکس ہے۔“
تعلیم ریاست کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، لیکن ہمارے ملک پر جاگیردار مسلط ہیں۔ اور جاگیردارانہ نظام اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ عام شہریوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ وسائل پر قابض جاگیرداروں کے اپنے بچے تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیتے ہیں، لیکن غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تعلیمی اداروں کے دروازے بھی بند کردیے گئے ہیں۔ مجھے تو یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو آج سے پندرہ بیس سال بعد کی دنیا یکسر مختلف ہوگی۔ تب اس میں وہ پاکستانی نوجوان فٹ نہیں ہوسکیں گے جو اِس وقت کم سن ہیں اور تعلیم سے محروم ہیں، یا جنہیں پڑھائی کے موقع فراہم نہیں کیے جارہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی لاپروائی، نااہلی اور عدم توجہی کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ کل تک جن اسکولوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے ہیرے تراشے، وہاں آج خاک اُڑ رہی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ صاحبِ حیثیت تو ایک طرف.. کم وسیلہ لوگ بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتے، اور اپنی حیثیت سے زیادہ فیس دے کر گلی گلی کھلے ہوئے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کروانے پر مجبور ہیں، جہاں سہولیات تو موجود ہیں مگر تعلیم کا معیار اس وقت کے سرکاری اسکولوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ایک وقت تھا جب پرائیویٹ اسکولوں کا کوئی وجود نہیں تھا، اب تو یہ کاروبار انتہائی عروج پر ہے، جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں کی پہچان آہستہ آہستہ مٹ رہی ہے، ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اسکولوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، عمارتیں خستہ حال ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، بعض اسکولوں کی تو چاردیواری ہی نہیں، بچوں کے لیے کرسیاں، ڈیسک اور بیت الخلا تک نہیں ہیں، کہیں بجلی اور پنکھے نہیں، اساتذہ تو ہیں لیکن بچے نہیں، یا یوں کہیے کہ سرکاری ملازمین تو بھرتی کرلیے جاتے ہیں فروغِ تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔ بس یوں سمجھیے کہ اساتذہ کلاس ون آفسر کی نوکری لیے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے میں مصروف ہیں۔ تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد اور حکمرانوں سمیت کسی کو کوئی فکر نہیں۔ اوپر سے نیچے تک ٹھنڈ پروگرام چل رہا ہے۔ خدا ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے۔