-1 دعوت و تبلیغ میں حکمت اور سلیقے کا پورا پورا خیال رکھیے اور ایسا طریقہ اختیار کیجیے جو ہر لحاظ سے انتہائی موزوں پر وقار مقصد سے ہم آہنگ اور مخاطب میں شوق اور ولولہ پیدا کرنے والا ہو۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے:
’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجیے حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کیجیے تو ایسے طریقے پر جو انتہائی بھلا ہو‘‘(النحل:126)
قرآن کی اس جامع آیت سے تین اصولی ہدایات ملتی ہیں:
(1) دعوت حکمت کے ساتھ دی جائے۔
(2) نصیحت اور فہمائش عمدہ انداز سے کی جائے۔
(3) مباحثہ بھلے طریقے پر کیا جائے۔
’’حکمت کے ساتھ دعوت دینے کا مطلب یہ ہے کہ خود آپ کو اپنی دعوت کے تقدس اور عظمت کا پورا پورا احساس ہو، اور آپ اس گراں بہار دولت کو نادانی کے ساتھ یوں ہی جابے جانہ بکھیریں بلکہ آپ موقع محل کا بھی پورا پورا لحاظ رکھیے اور مخاطب کا بھی، ہر طبقے، ہر گروہ اور ہر فرد سے اس کی فکری رسائی، استعداد، صلاحیت، ذہنی کیفیت اور سماجی حیثیت کے مطابق بات کیجیے اور ان اٹل قدروں کو باہمی افہام و تفہیم اور دعوت کی بنیاد بنایئے جن میں باہم اتفاق ہو اور جو قرابت و قبولیت کے لیے راہ ہموار کریں۔
عمدہ نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس سوز، خیر خواہی اور خلوص کے ساتھ نیک جذبات کو ابھاریے کہ مخاطب شوق و رغبت کے جذبات سے سرشار ہوجائے اور دین سے اس کا تعلق محض ذہنی اطمینان کی حد تک نہ رہے بلکہ دین اس کے دل کی آواز، روح کی غذا اور جذبات کی تسکین بن جائے۔
تنقید ومباحثے میں اچھا طریقہ اختیار کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی تنقید تعمیری ہو، دلسوزی اور اخلاص کی آئینہ دار ہو اور انداز ایسا دل نشین اور سادہ ہوکہ مخاطب میں، ضد، نفرت، ہٹ دھرمی، تعصب اور حمیت جاہلیت کے جذبات نہ ابھریں بلکہ وہ واقعی کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور ہو، اور اس میں حق کی طلب پیدا ہو، اور جہاں یہ کیفیتیں پیدا ہوتی نظر نہ آئیںآپ اپنی زبان بند کرلیجیے اور اس مجلس سے اٹھ کر چلے آیئے۔
-2 ہر حال میں پورے دین کی دعوت دیجیے اور اپنی سمجھ سے اس میں کانٹ چھانٹ نہ کیجیے۔ اسلام کی دعوت دینے والے کو یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق اس کے کچھ اجزا پیش کرے اور کچھ چھپائے رکھے۔
اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور جب ان کو ہماری کھلی کھلی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہماری ملاقات کا یقین نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں، اس قرآن کی بجائے کوئی دوسرا قرآن لایئے یا اسی میں کچھ تغیر ت و تبدل کردیجیے۔ آپؐ فرمادیجیے کہ میں اپنی طرف سے ہرگز اس میں کچھ کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ میں تو خود اسی وحی کا پیرو ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا خوف ہے۔ اور کہیے اگرا للہ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں یہ قرآن تمہیں سنائوں تو میں کبھی نہ سنا سکتا اور نہ تمہیں اس سے واقف کرتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی (واقعی) آیات کو جھوٹا قرار دے۔ یقیناً مجرم لوگ کبھی فلاح نہیں پاسکتے‘‘۔(یونس: 17-15)
حالات کیسے ہی ناسازگار ہوں داعی کا کام بہر حال یہی ہے کہ دین کو اپنی اصل اور مکمل حالت میں پیش کرے، اللہ کے دین میں کمی بیشی، اور حالات کے تقاضوں کے تحت اپنی سمجھ سے اس میں تغیر و تبدل بہت بڑا ظلم ہے اور ایسے لوگوں کی دنیا بھی تباہ ہوتی ہے اور آخرت بھی۔ اسلام، اس اللہ کا بھیجا ہوا دین ہے جس کا علم پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے، جو ازل سے ابد تک کا یقینی علم رکھتا ہے اور جس کا نقطہ نظر غلطی سے قطعاً پاک ہے، جو انسانی زندگی کے آغاز سے بھی واقف ہے اور انجام سے بھی اور جس کی مشیت کے تحت انسانی معلومات میں روز بروز حیرت انگیز وسعت پیدا ہورہی ہے اور انسانی زندگی میں غیر معمولی ترقیاں رونما ہوتی جارہی ہیں، کسی اور کے لیے تو بھلا کسی کمی بیشی کی کیا گنجائش ہوگی جب کہ خود داعی اول کا مقام یہ بتاگیا ہے کہ وہ ایک مثالی فرماں بردار کی طرح اس دین کی پیروی کریں اور نافرمانی کے تصور سے لرزتے رہیں۔
-3دین کو حکمت کے ساتھ فطری انداز میں پیش کیجیے کہ وہ غیر فطری بوجھ نہ محسوس ہو اور لوگ بدکنے اور متنفر ہونے کے بجائے، اس کو قبول کرنے میں سکون اور راحت محسوس کریں، اور آپ کی نرمی، شیریں زبانی اور حکیمانہ طرز دعوت سے لوگ دین میں غیر معمولی کشش محسوس کریں، حضرت معاویہ بن حکمؓ فرماتے ہیں: ’’ایک بار میں نبیؐ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک آدمی کو چھینک آئی، میں نے نماز ہی میں ’’یرحمک اللہ‘‘ کہہ کر چھین کا جواب دے دیا۔ لوگ مجھے گھورنے لگے۔ میں نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ تو لوگوں نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ میں خاموش ہوگیا۔ جب نبیؐ نماز سے فارغ ہوئے، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، میں نے ایسا بہترین تعلیم و تربیت کرنے والا نہ ان سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ ان کے بعد۔ آپؐ نے نہ تو مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ برا بھلا کہا۔ صرف یہ فرمایا: ’’دیکھو! یہ نماز ہے۔ نماز میں بات چیت کرنا مناسب نہیں۔ نماز تو نام ہے اللہ کی پاکی اور برتری بیان کرنے۔ اس کی بڑائی بیان کرنے اور قرآن پڑھنے کا‘‘۔
-4 اپنی تحریر، تقریر اور دعوتی گفگتوئوں میں ہمیشہ اس اعتدال کا اہتمام رکھیے کہ سننے والوں پر امید کی کیفیت بھی طاری رہے اور خوف کی بھی۔ نہ تو خوف پر ایسا مبالغہ آمیز زور دیجیے کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس رہنے لگیں اور اپنی اصلاح اور نجات انہیں نہ صرف مشکل بلکہ محال نظر آنے لگے اور نہ اللہ کی رحمت اور بخشش کا ایسا تصور پیش کیجیے کہ وہ بالکل ہی بے باک اور غیر ذمہ دارانہ بن جائیں اور اللہ کی بے پایاں رحمت و بخشش کا سہارا لے کر نافرمانیوں پر کمر باندھ لیں۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
’’بہترین عالم وہ ہے جو لوگوں کو (ایسے انداز سے اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے کہ) اللہ سے مایوس نہیں کرتا اور نہ اللہ کی نافرمانی کے لیے انہیں رخصتیں دیتا ہے اور نہ اللہ کے عذاب سے انہیں بے خوف بناتا ہے‘‘۔
-5 دعوتی کوشش میں دوام اور تسلسل پیدا کیجیے اور جو پروگرام بنائیں اسے استقلال اور ذمہ داری کے ساتھ برابر چلاتے رہنے کی کوشش کیجیے۔ پروگراموں کو ادھورا چھوڑنے اور نئے نئے پروگرام بنانے کی عادت سے بچئے۔ تھوڑا کام کیجیے لیکن مسلسل کیجیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’بہترین عمل وہ ہے جو مسلسل کیا جاتا رہے، چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو‘‘۔
-6 دعوت و تبلیغکی راہ میں پیش آنے والی مشکلات، تکالیف اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجیے اور صبر و استقامت دکھایئے۔
قرآن میں ہے:
’’اور نیکی کا حکم دو، اور برائی سے روکو اور اس راہ میں جو مصائب بھی آئیں ان کو استقلال کے ساتھ برداشت کرتے رہو‘‘۔(لقمان: 17)
راہ حق میں مصائب اور مشکلات کا آنا ضروری ہے، آزمائش کی منزلوں سے گزر کر ہی ایمان میں قوت آتی ہے اور اخلاق و کردار میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے ان بندوں کو ضرور آزماتا ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور جو اپنے دین و ایمان میں جتنا زیادہ پختہ ہوتا ہے اس کی آزمائش بھی اسی لحاظ سے سخت ہوتی ہے۔
اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ انہیں خوش خبری دے دیجیے، ان پر ان کے رب کی طرف سے عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست روہیں‘‘۔(البقرہ: 157-155)
حضرت سعدؓ نے نبیؐ سے پوچھا۔ یا رسولؐ اللہ! سب سے زیادہ سخت آزمائش کس شخص کی ہوتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’انبیا کی پھر جو دین و ایمان میں ان سے زیادہ قریب ہو اور پھر جو اس سے قریب ہو۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے ہوتی ہے، پس جو شخص اپنے دین میں پختہ ہوتا ہے اس کی آزمائش سخت ہوتی ہے اور جو دین میں کمزور ہوتا ہے اس کی آزمائش ہلکی ہوتی ہے۔ اور یہ آزمائش برابر ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی اثر نہیں رہ جاتا‘‘ (مشکوٰۃ)
اور نبیؐ نے اپنا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے اللہ کی راہ میں اتنا ستایا گیا کہ کبھی کوئی انسان اتنا نہیں ستایا گیا اور مجھے اللہ کی راہ میں اتنا ڈرایا گیا کہ کوئی شخص اتنا نہیں ڈرایا گیا اور ہم پر تیس شب و روز ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلالؓ کے کھانے کے لیے کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے کوئی جاندار کھاسکے سوائے اس مختصر توشے کے جو بلالؓ کی بغل میں تھا‘‘ (ترمذی)
اور نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص صبر کرنے کی کوشش کرے گا اللہ اس کو صبر بخشے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور بہت سی بھلائیوں کو سمیٹنے والی بخشش اور کوئی نہیں‘‘ (بخاری، مسلم)
دراصل آزمائشیں تحریک کو قوت پہنچانے اور آگے بڑھانے کا لازمی ذریعہ ہیں۔ آزمائشوں کی منزلوں سے گزرے بغیر کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بالخصوص وہ تحریک جو علم انسانی میں ایک ہمہ گیر انقلابات کی دعوت دیتی ہو اور پوری انسانی زندگی کو نئی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہو۔
جس زمانے میں مکے کے سنگ دل لوگ، نبیؐ کے ساتھیوں پر بے پناہ ظلم و ستم توڑ رہے تھے انہی دنوں کا ایک واقعہ حضرت خباب بن الارتؓ بیان کرتے ہیں:
’’نبیؐ بیت اللہ کے سایے میں چادر سر کے نیچے رکھے آرام فرما رہے تھے۔ ہم آپؐ کے پاس شکایت لے کر پہنچے۔ یا رسولؐ اللہ! آپؐ ہمارے لیے اللہ سے مدد طلب نہیں فرماتے۔ آپؐ اس ظلم کے خاتمے کی دعا نہیں کرتے۔ (آخر یہ سلسلہ کب تک دراز رہے گا اور کب یہ مصائب کا دور ختم ہوگا؟) نبیؐ نے یہ سن کر فرمایا: ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ ان میں سے بعض کے لیے گڑھا کھودا جاتا۔ پھر اس کو اس گڑھے میں کھڑا کردیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے جسم کو چیرا جاتا۔ یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے کردیئے جاتے۔ پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتا اور اس کے جسم میں لوہے کے کنگھے چبھوئے جاتے جو گوشت سے گزر کر ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچ جاتے مگر وہ اللہ کا بندہ حق سے نہ پھرتا۔ قسم ہے اللہ کی، یہ دین غالب ہوکر رہے گا۔ یہاں تک کہ سوار (یمن کے دارالخلافے) صنعا سے حضر موت تک کا سفر کرے گا اور راستے میں اللہ کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہوگا۔ البتہ چرواہوں کو صرف بھڑیوں کا خوف رہے گا کہ کہیں بکری اٹھا نہ لے جائیں لیکن افسوس کہ تم جلدی مچارہے ہو۔ (بخاری)
حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے نبیؐ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ: میری امت میں برابر ایک گروہ موجود رہے گا جو اللہ کے دین کا محافظ رہے گا۔ جو لوگ ان کا ساتھ نہ دیں گے اور جو لوگ ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کو تباہ نہ کرسکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے اور یہ دین کے محافظ لوگ اپنی اسی حالت میں قائم رہیں گے۔ (بخاری و مسلم)
بے جا رواداری، مداہنت اور اصولوں کی قربانی دینے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے۔ قرآن میں مومنوں کی تعریف میں کہا گیا ہے:’’وہ کافروں پر سخت ہوتے ہیں‘‘۔
یعنی وہ اپنے دین اور اصولوں کے معاملے میں انتہائی شدید ہوتے ہیں۔ وہ کسی حال میں بھی کوئی مصالحت یا مداہنت نہیں کرتے۔ وہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں لیکن دین و اصول کی قربانی نہیں دے سکتے۔ مسلمانوں کو اللہ نے نبیؐ کے توسط سے یہ ہدایت دی ہے:
’’پس آپ اسی دین کی طرف دعوت دیجیے اور جس طرح اپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اسی پر مضبوطی سے جمے رہیے اور ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیے‘‘(الشوری:15)
دین کے معاملے میں مداہنت، بے جا رواداری اور باطل سے مصالحت وہ خطرناک کمزوری ہے جو دین و ایمان کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
جب بنی اسرائیل اللہ کی نافرمانیوں کے کام کرنے لگے تو ان کے علما نے ان کو روکا لیکن وہ نہیں رکے (تو ان کے علما ان کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے) ان کی مجلسوں میں بیٹھنے لگے اور ان کے ساتھ کھانے پینے لگے جب ایسا ہوا تو اللہ نے ان سب کے دل ایک جیسے کردیئے اور پھر حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی زبان سے اللہ نے ان پر لعنت کی۔
یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی اور اسی میں بڑھتے چلے گئے۔ اس حدیث کے راوی عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ ٹیک لگائے بیٹھے تھے پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور لوگوں کو نیکی کا کام دیتے رہوگے اور برائی سے روکتے رہوگے اور ظالم کا ہاتھ پکڑوگے اور ظالم کو حق کے آگے جھکائوگے اگر تم لوگ ایسا نہ کروگے تو تم سب کے دل بھی ایک ہی طرح کے ہوجائیں گے اور پھر خدا تمہیں اپنی رحمت اور ہدایت سے دور پھینک دے گا جس طرح بنی اسرائیل کو اس نے محروم کردیا‘‘۔
-8 اپنے بچوں کی اصلاح و تربیت اور ان کو اقامت دین کا فریضہ انجام دینے کے لیے تیار کرنا آپ کا اولین فرض بھی ہے اور آپ کی سرگرمیوں کا فطری میدان بھی۔ اس میدان کو چھوڑ کر اپنی تبلیغی اور اصلاحی کوششوں کے لیے محض باہر کے میدان تلاش کرنا غیر حکیمانہ اور غیر فطری عمل ہے اور یہ بہت بڑی کوتاہی اور فرار ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ قحط کے زمانے میں اپنے گھر والوں کو بھوک پیاس سے نڈھال اور جان بلب چھوڑ کر باہر کے ضرورت مندوں کو تلاش کرکے غلہ تقسیم کرنے کی فیاضی کا مظاہرہ کریں، گویا نہ تو آپ کو بھوک پیاس اور قربت و محبت کا احساس ہے اور نہ غلے کی تقسیم کی حکمت ہی سے آپ کا ذہن آشنا ہے۔ قرآن میں مومنوں کو ہدایت دی گئی ہے۔
’’مومنو! بچائو اپنے کو اور گھر والوں کو جہنم کی آگ سے‘‘۔
اور نبیؐ نے اس کی تشریح ان الفاظ میں فرمائی ہے:
’’تم میں سے ہر ایک نگران اور ذمہ دار ہے، اور تم میں سے ہر ایک سے ان لوگوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی جو اس کی نگرانی میں ہوں گے۔ حاکم نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور شوہر اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے۔ تو تم میں سے ہر ایک نگران اور ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جو اس کی نگرانی میں دیئے گئے ہیں‘‘ (بخاری، مسلم)
-9اپنے پڑوسیوں اور محلے والوں کی اصلاح و تعلیم کی بھی فکر کیجیے اور اس کو بھی اپنا فریضہ سمجھئے۔
نبیؐ نے ایک دن خطبہ دیا اور اس میں کچھ مسلمانوں کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا: ’’ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے اور انہیں دین نہیں سکھاتے اور انہیں دین سے ناواقف رہنے کے عبرتناک نتائج نہیں بتاتے، اور انہیں برے کاموں سے نہیں روکتے؟ اور ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ اپنے پڑوسیوں سے دین کا علم حاصل نہیں کرتے اور دین کی سمجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے اور دین سے جاہل رہنے کے عبرتناک نتائج معلوم نہیں کرتے۔ اللہ کی قسم! لوگ اپنے پڑوسیوں کو لازماً دین کی تعلیم دیں۔ ان کے اندر دین کی سمجھ بوجھ پید اکریں۔ انہیں نصیحت کریں، ان کو اچھی باتیں بتائیں اور ان کو بری باتوں سے روکیں نیز لوگوں کو چاہیے کہ لازماً اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھیں، دین کی سمجھ پیدا کریں اور ان کی نصیحتوں کو قبول کریں ورنہ میں انہیں بہت جلد سزا دوں گا‘‘۔ پھر آپؐ منبر سے اتر آئے اور تقریر ختم فرمادی۔
سننے والوں میں سے بعض لوگوں نے دوسروں سے پوچھا، یہ کون لوگ تھے جن کے خلاف نبیؐ نے تقریر فرمائی؟ دوسرے لوگوں نے بتایا کہ آپؐ کا روئے سخن قبیلہ اشعر کے لوگوں کی طرف تھا۔ یہ لوگ دین کا علم رکھنے والے لوگ ہیں اور ان کے پڑوس میں چشموں پر رہنے والے دیہاتی اجڈ لوگ ہیں۔ جب اس تقریر کی خبر اشعری لوگوں کو پہنچی تو وہ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے اپنے خطبے میں کچھ لوگوں کی تعریف فرمائی اور ہمارے اوپر غصہ فرمایا تو فرمایئے ہم سے کیا قصور ہوا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو دین کی تعلیم دیں، انہیں وعظ و نصیحت کریں، اچھی باتوں کی تلقین کریں اور بری باتوں سے روکیں، اسی طرح لوگوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے دین کا علم حاصل کریں، ان کی نصیحتوں کو قبول کریں اور اپنے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں ورنہ میں بہت جلد ان لوگوں کو دنیا میں سزا دوں گا‘‘۔ یہ سن کر اشعر کے لوگوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم دوسرے لوگوں میں سمجھ پیدا کریں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جی ہاں یہ تمہاری ذمہ داری ہے‘‘ تو یہ لوگ بولے، حضورؐ ہمیں ایک سال کی مہلت دیجیے۔ چنانچہ حضورؐ نے ان کو ایک سال کی مہلت دی جس میں وہ اپنے پڑوسیوں کو دین سکھائیں اور دینی سمجھ پیدا کریں۔ اس کے بعد نبیؐ نے یہ آیتیں تلاوت فرمائیں:
’’بنی اسرائیل کے کفر کرنے والوں پر لعنت کی گئی دائودؑ کی زبان سے عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے اور یہ لعنت اس لیے کی گئی کہ انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی اور برابر اللہ کے احکام توڑتے چلے گئے۔ یہ آپس میں ایک دوسرے کو بری باتوں کے کرنے سے نہیں روکتے تھے۔ بلاشبہ ان کی یہ حرکت انتہائی بری تھی‘‘(المائدہ: 79-78)
-10 جن لوگوں کے درمیان آپ دعوت و تبلیغ کا خوشگوار فریضہ انجام دے رہے ہوں، ان کے مذہبی تعلقات اور جذبات کا احترام و لحاظ کیجیے۔ نہ ان کے بزرگوں اور پیشوائوں کو برے نام سے یاد کیجیے، نہ ان کے معتقدات پر حملے کیجیے، نہ ان کے مذہبی نظریات کی تحقیر کیجیے۔ مثبت انداز میں حکمت کے ساتھ اپنی دعوت پیش کیجیے اور تنقید میں بھی مخاطبین کو بھڑکانے کے بجائے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان کے دل میں اپنی بات اتارنے کی کوشش کیجیے۔ اس لئے کہ جذباتی تنقید اور توہین آمیز گفتگو سے مخاطب میں کسی خوشگوار تبدیلی کی توقع نہیں ہوتی۔ البتہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں حیت جاہلیت اور تعصب کے ہیجان میں وہ اللہ اور دین کی شان میں گستاخی کرنے لگے اور دین سے قریب آنے کے بجائے وہ اور زیادہ دور ہوجائے۔ قرآن کی ہدایت ہے:
’’(اے مومنو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو، ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں‘‘۔
-11داعی الی اللہ بن کر دعوت کا فریضہ انجام دیجیے۔ یعنی صرف الہ کی طرف دعوت دینے والے بنیے۔ اللہ کے بندوں کو اللہ کے سوا کسی اور چیز کی طرف ہرگز نہ بلایئے۔ نہ وطن کی طرف بلایئے نہ قوم و نسل کی طرف، نہ کسی کی طرف دعوت دیجیے، نہ کسی جماعت کی طرف، مومن کا نصب العین صرف اللہ کی رضا ہے، اسی نصب العین کی طرف دعوت دیجیے اور یہ یقین پیدا کرنے کی کوشش کیجیے کہ بندے کا کام محض یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی بندگی کرے، اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور خانگی زندگی میں بھی، سماجی زندگی میں بھی اور ملکی زندگی میں بھی اور ملکی معاملات میں بھی، غرض پوری زندگی میں اپنے مالک و پروردگار کے کہنے پر چلے اور اس کے قانون کی مخلصانہ پیروی کرے۔ اس کے سوا کوئی چیز ایسی نہیں جس کو مسلمان اپنا نصب العین قرار دے، اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دے۔ مومن جب بھ اللہ کی ہدایت سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا کے سوا کسی اور چیز کو اپنا نصب العین قرار دے گا، دونوں جہان میں ناکام و نامراد ہوگا۔
’’اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف دعوت دی، اور نیک عمل کیا اور کہاکہ میں اللہ کا فرمانبردار اور مسلم ہوں‘‘۔(حم سجدہ:33)