روزہ حصول تقویٰ کا ذریعہ

851

روزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے جو 10 شعبان المعظم ڈیڑھ ہجری میں فرض کیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ایمان والو! تم پر رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے جیسا کہ پچھلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی ( اللہ سے ڈرنے والے) بن جاؤ۔‘‘ (البقرہ 183)

پہلا حکم یہ ہے کہ روزہ ہر بالغ مرد، عورت پر فرض ہے۔ بلا عذرِ شرعی روزہ چھوڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ہر روزے کے بدلے وہ چالیس دنوں کے لگاتار روزے رکھے یا چالیس دنوں تک تین وقت کا کھانا ایک مسکین کو کھلائے، اور عذرِ شرعی کے تحت جتنے روزے چھوٹے ہیں ان کا فدیہ ادا کرے، یعنی اتنے دن ہر روزے کے بدلے ایک فقیر کو تین وقت کا کھانا کھلائے، یا عید کے بعد ان روزوں کو پورا کرلے۔

روزہ پچھلی امتوں پر بھی فرض تھا اور آج بھی یہود ونصاریٰ اور ہنود اپنے مخصوص انداز میں روزے رکھتے ہیں۔ اہلِ ایمان کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس کی اطاعت ہر صاحبِ ایمان پر فرض ہے۔ روزے کی فضیلت تو بے شمار ہے مگر آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بنیادی فضیلت یہ بیان فرمائی کہ ’’تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔ یعنی تمہارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوجائے۔ تقویٰ وہ بنیادی صفت ہے جو مجموعی طور پر صاحبِ ایمان کو دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں کا حق دار بنادیتی ہے۔ تقویٰ کے بغیر انسان ہدایت کے نور سے اپنے قلب و جگر کو منور بھی نہیں کرسکتا، اور نہ صراطِ مستقیم پر چل سکتا ہے، نہ مغضوبین کی چالوں سے بچ سکتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیت ’’ھداللمتقین‘‘ کا یہ اعلان ہے: قرآن مقدس سے صرف متقی اور پرہیزگار ہی ہدایت حاصل کرسکتے ہیں۔ اہلِ تقویٰ ہی جنت کے حق دار ہیں اور یہی مومن کہلاتے ہیں۔ سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’دوڑو اپنے رب کی معرفت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین اور آسمانوں سے زیادہ ہے جو متقیوں کے لیے بنائی گئی ہے۔‘‘

سورۃ المومنون کی پہلی آیت ہے کہ ’’بھلائی تو مومنوں کے لیے ہے‘‘۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرشتوں نے جب جنت تیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے جنت کو حکم دیا اے جنت تُو بول۔ تو جنت بولی قد افلح المؤمنون۔‘‘

روزے تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کے لیے نازل کیے گئے، اور تقویٰ خوشنودیِ رب کا پروانہ ہے۔ ایک عمل سے کمزور مسلمان بھی اس ماہِ مبارک میں نماز، تلاوتِ قرآن، تراویح اور ذکر و اذکار کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں تین عشرے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلا عشرہ اللہ کی جانب سے رحمتوں اور برکتوں والا ہے۔ دوسرا عشرہ مغفرت کا، اور تیسرا جہنم سے رہائی کا۔‘‘

آپؐ نے فرمایا: ’’آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پہ نازل کیا، اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر ہے۔‘‘

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ نے قرآن مجید نازل فرمایا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو حق اور باطل کو چھانٹ کر الگ کردیتی ہے (البقرہ)۔ متقی شخص کو بصیرت اور بصارت دونوں حاصل ہوجاتی ہیں جس سے وہ حق اور باطل کی پہچان کرلیتا ہے، اور یوں وہ شیطانی وسوسوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

روزے کی حالت میں آدمی ترغیباتِ نفس سے خود کو بچاتا ہے تاکہ اس کا روزہ ضائع نہ ہوجائے۔ اور ترغیباتِ نفس ہی وہ شیطانی حربہ ہے جس سے انسان برائی کی جانب راغب ہوتا ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا اُسے ’’منشورِ انسانیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ جہاں آپؐ نے توحید و رسالت، فکرِ آخرت اور معاشرت کی تعلیم دی، وہیں تعصبات کو اپنے پیروں تلے کچلتے ہوئے فرمایا کہ ’’آج کے بعد سے کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر، کسی امیر کو کسی غریب پر، اور کسی کو رنگ و نسل کی بنیاد پر برتری حاصل نہیں ہے۔‘‘ آپؐ نے سورۃ الحجرات کی آیت 13 کی تلاوت کی اور فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قبائل اور خاندانوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک وہی برگزیدہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘

یہ آیت اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی سند ہے۔ یہ تقویٰ ہی تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات واپس آکر حضرت بلال حبشیؓ سے کہا کہ ’’بلال! میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے۔‘‘ یہ حضرت بلالؓ کا تقویٰ ہی تھا کہ فتح مکہ کے دن آپؓ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’’خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دو۔‘‘ تقویٰ کی وجہ سے خلیفۂ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بلالؓ کو ’’سیدنا بلال‘‘ (میرے آقا بلال) کہہ کر پکارتے تھے۔

عشرۂ مبشرہ کو دنیا میں جنت کی بشارت ملنے کے بعد وہ پہلے سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے بن گئے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ کسی غلطی پر اللہ کی نعمت چھن جائے۔ تمام صحابہ کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ’’میرے صحابہ چاند ستاروں کی مانند ہیں، اُن میں سے جس کی پیروی کروگے کامیاب، ہوگے۔‘‘

جب مدینہ میں شراب کی حرمت قائم ہوئی تو مدینہ کی گلیوں میں اتنی زیادہ شراب بہادی گئی کہ لگا جیسے شراب کی بارش ہوئی ہے۔ اس دوران جو صحابہؓ شراب پی چکے تھے انہوں نے حلق میں انگلی ڈال کر قے کردی۔ اسے کہتے ہیں خوف ِخدا۔ حالت ِ روزہ میں ایک مسلمان شدید پیاس کی حالت میں وضو کے دوران حلق میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں جانے دیتا، اس لیے کہ اسے اللہ کا ڈر رہتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ تو دیکھ رہا ہے، کہ اللہ بصیر بھی ہے اور خبیر بھی۔

اللہ ہر بندے کو دیکھ رہا ہے۔ روزے براہِ راست یہ کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ اللہ کو یہی مطلوب ہے کہ اس کا بندہ پوری زندگی اسی اطاعت اور بندگی کے ساتھ گزارے۔ ’’اللہ سے ڈرو تاکہ تم کو فلاح نصیب ہو جائے۔‘‘

’’ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ کرنے کا حق ہے، اور نہ مرو مگر ایسے حال میں کہ تم مسلمان ہو، یعنی مسلمان کی حالت میں مرو۔‘‘ (آل عمران 102)

تقویٰ پوری زندگی کا عمل ہے جس کی تربیت ایک مسلمان کو جب تک وہ زندہ ہے، رمضان المبارک کے روزوں سے حاصل ہوتی ہے۔

’’بھلائی اسے میسر ہوگی جس نے پرہیزگاری سے اپنی زندگی گزاری۔‘‘ (سورہ اعلیٰ)

’’وہ شخص فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کو اپنایا، اور وہ نامراد ہو گیا جس نے نیکی کے جذبے کو دبا دیا۔‘‘ (سورۃ الشمس)

یقینا اللہ اہلِ تقویٰ سے محبت کرتا ہے۔ جس کو اللہ کی محبت حاصل ہوگئی یقینا وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوگیا۔ روزے سے یہ صفت اُس وقت حاصل ہوجاتی ہے جب ایک صاحبِ ایمان اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

سورۃ الاعراف آیت 96 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بستی کے لوگ تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے ہماری تکذیب کی، اس لیے ہم نے ان کے برے اعمال کی وجہ سے پکڑ لیا۔‘‘

اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں دنیا کی حقیقی آسائشوں کا دارومدار بھی تقویٰ پر ہے۔ اور زمانے نے دیکھا کہ مدینہ کے مسلمانوں کی فقروفاقہ کی حالت ایسی بدلی کہ چند سال میں وہ سونے کی تھیلیاں لے کر تقسیم کرنے نکلتے مگر کوئی لینے والا نہیں ہوتا تھا، مگر جب مسلمان عیش و عشرت میں مبتلا ہوکر اللہ کو بھولے تو تاتاریوں نے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ اندلس سے نکالے گئے، یورپی سامراج کے صدیوں غلام بنے رہے۔

رمضان المبارک کے روزے جسمانی مشقت اور نفسانی فطری خواہشات کا صبر سے مقابلہ کرنے کا نام ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی، ایک افطار کرتے وقت، دوسری رب تعالیٰ کے دیدار کے وقت۔ روزہ داروں کے جنت میں داخلے کے لیے اللہ نے ’’باب الریان‘‘ بنایا ہے جس سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔

عالمِ اسلام کے مسلمانوں کے نزدیک جتنی بھی قابلِ احترام ہستیاں ہیں وہ یا تو اصحابِ رسول ہیں یا پھر بزرگانِ دین اور اللہ کے ولی ہیں، جن کا ذکر سن کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور دلوں کو طمانیت ہوتی ہے۔ یہ سب قرآن وسنت کے داعی اور اہلِ تقویٰ تھے۔ ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نہ ان کے پاس مال و زر تھا اور نہ کوئی جاہ و منصب… مگر یہ فقر و فاقہ کی زندگی گزارنے والے اور خلقِ خدا کی اصلاح اور خدمت کرنے والے لوگ تھے۔

کارنامہ سن چکے ہو حیدرِ کرار کا
کر دیا تھا تنگ جینا دہر میں کفار کا
تھا فقط اتنا ارادہ خالد و ضرار کا
تاکہ اونچا نام ہو اسلام کی تلوار کا
ہے وہی دریا مگر پہلی سی طغیانی نہیں
ہم مسلماں ہیں مگر شانِ مسلمانی نہیں

آج ساری دنیا میں وقت کے سلطانوں کے عالیشان مقبروں کے کھنڈرات موجود ہیں، اُن کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں۔

زمین اوڑھ کر سو گئے ہیں ساری دنیا میں
نہ جانے کتنے سکندر سجے سجائے ہوئے

مگر اللہ کے ولیوں اور درویشوں کے مزارات پر دن کے چوبیس گھنٹے عقیدت مندوں کا ہجوم موجود ہوتا ہے۔

سیم و زر سے عزت ملتی نہیں کسی کو
درویشوں کو ہی جہاں میں پذیرائیاں ملیں

تقویٰ دراصل اپنے نفسِ امارہ پر قابو پانے کا نام ہے، اور نفس لوامہ کو طاقت ور بنانے سے تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ صاحبِ ایمان کی فکرِ آخرت زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو اور قبر و حشر کے مراحل کی پرشش کے بارے میں زیادہ فکرمند ہو۔

نہنگ و شیر و نر اژدھا کو مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ تعالیٰ نے جو رزق تمہیں دیا ہے اللہ کے راستے میں انفاق کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جب کوئی خرید و فروخت نہیں ہوگی، نہ کوئی رشتے داری اور نہ کسی کی سفارش کام آئے گی، اور اللہ کا انکار کرنے والے ظالموں میں شمار ہوں گے۔‘‘ (البقرہ: آیت254)

یہی وہ عقیدہ ہے جس سے انسان کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ روزہ ایک بے ریا عبادت ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا: ’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں ہی دوں گا۔‘‘ آج کے اس دجالی دور میں نیکی کے راستے پر چلنے کا اجر پہلے سے زیادہ اس لیے ہے کہ بہک جانے کا ماحول اور مواقع زیادہ ہیں۔ مگر رمضان المبارک کا مہینہ نیکیوں کی بہار کا مہینہ ہے جس میں نیکیاں کرنے کا ماحول میسر ہوتا ہے۔

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ نے قرآن نازل فرمایا جو سراسر انسانوں کے لیے ہدایت ہے، یہ حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی کتاب ہے۔‘‘ (البقرہ: 185) لہٰذا ایک مومن کو حق اور باطل کی پہچان ہی تقویٰ کے راستے پر گامزن کرسکتی ہے اور رمضان المبارک کے مہینے میں تلاوتِ قرآن اور سماعتِ قرآن سے یہ موقع میسر ہوجاتا ہے۔ عام دنوں کے بجائے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔ مگر آج مسلمانوں کی بڑی تعداد نے اس کو ایک رسمی عبادت بنا لیا ہے اور اس کے فیوض وبرکات سے محروم ہیں۔

جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

حصہ