پربت کی رانی کا انجام قسط12

363

انسپکٹر حیدر علی، ان کے ساتھ ان کے عملے، یہاں تک کہ خچروں تک کے چہروں پر ماسک لگے ہوئے تھے۔ غالباً ان کو مرکز کی جانب سے خارج ہونے والی گیسوں کے بارے میں آگاہ کر دیا گیاتھا۔

انسپکٹر حیدر علی کے وہ خچر جن پر سامان لدا ہوا تھا، ان سے سامان اتارا جا رہا تھا۔ جمال کی ٹیم دیکھ رہی تھی ان پر نہایت پاور فل کمپریسرز لدے ہوئے تھے اور کچھ پر بظاہر گولہ بارود لدا ہوا تھا۔ جمال کی ٹیم سوچ رہی تھی کہ گولہ و بارود کی وجہ سے تو انسانی جانیں ضائع ہوجانے کے ساتھ ساتھ نصب پلانٹ، دیگر مشینری اور خود پربت کو بھاری نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے جو کسی صورت مناسب نہیں۔ جب یہ بات بحث میں آئی تو فاطمہ نے کہا کہ کیوں نہ انسپکٹر حیدر علی سے اس سلسلے میں بات کی جائے۔ وہ جب حیدر علی کے اور ان کے خچروں کے قریب پہنچے تو فاطمہ نے جمال اور کمال کو ہاتھ کے اشاے سے رک جانے کا اشارہ کیا اور آہستہ سے کہا کہ جس خچر پر ہمیں گولہ و بارود لدے ہونے کا شک ہے وہ گولہ و بارود نہیں۔

پھر کیا ہے؟، جمال اور کمال نے سوال کیا۔

یہ تو مجھے نہیں معلوم، فاطمہ نے کہا لیکن اس میں سے جو بو آ رہی ہے وہ بارود کی نہیں۔ ممکن ہے ہمارے سائنسدانوں نے کوئی اور چیز ایسی بنائی ہوئی ہو جو یہاں کام میں لائی جانے والی ہو۔ جمال نے کہا تو پھر ہمیں اپنے ٹھکانے پر ہی واپس جانا چاہیے۔ ایک تو پل پل کی بدلتی صورتِ حال کا جائزہ لیتے رہنا ضروری ہے دوسرے یہ کہ ممکن ہے مرکز کی جانب سے ہمارے لیے کوئی اور ہدایات آنے والی ہوں کیونکہ جو ہمیں مشن دیا گیا تھا وہ تو ہم نے مکمل کامیابی کے ساتھ ختم کر لیا ہے اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ اُس کے بعد مرکز کی منصوبہ بندی کیا ہے۔

فی الحال تو مرکز کی جانب سے کوئی نیا پیغام اسکرین پر نہیں ابھر رہا تھا۔ البتہ انسپکٹر حیدر علی کی ٹیم بہت سر گرم نظر آ رہی تھی۔ اب تازہ ترین پیغام کے مطابق جمال کی ٹیم کو ہدایت کی جا رہی تھی کہ جو جائزہ بھی لینا چاہتے ہیں دور سے ہی لیں اور حیدر علی کی سرگرمیوں میں کوئی مداخلت نہ کریں البتہ اسکرینوں پر مسلسل نظر رکھیں تاکہ کوئی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کو دیکھا جا سکے۔

کچھ ہی دیر بعد جمال کی ٹیم نے فضا میں کسی بڑے ہیلی کاپٹر کی گونج سنی جو بالکل ان کے قریب سنائی دے رہی تھی۔ باہر نکل کے دیکھا تو ایک بڑے سائز کا ہیلی کاپٹر ان کے سروں پر کھڑا تھا اور اس نے ایک بہت موٹے درخت کا کافی بڑا تنا ہینگ کیا ہوا تھا جس کو وہ آہستہ آہستہ ٹھیک اس جگہ اتار رہا تھا جہاں انسپکٹر حیدر علی کی ٹیم مصروفِ عمل تھی۔ بہت موٹا سا تنا زمین پر اتار دیا گیا تھا۔ اس تنے کو جمال کی پوری ٹیم حیرت سے دیکھ رہی تھی اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس تنے اور حیدر علی کی ٹیم کا کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ ابھی وہ غیر معمولی درخت کا تنا زمین پر اتارا ہی گیا تھا اور ہیلی کواپٹر وہاں سے روانہ ہی ہوا تھا کہ ایک دوسرا ہیلی کواپٹر فضا میں لہرانے لگا۔ اس نے بھی بالکل ویسا ہی ایک بڑا سارا تنا زمین پر اتار دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو اور تنے زمین پر اتارے گئے۔ ٹھیک اس کے بعد گھنے جنگل کی جانب سے پندرہ بیس انسانوں کی ایک ٹولی برآمد ہوئی جو محکمہ جنگلات کے اہل کاروں کی وردیاں پہنے ہوئے تھی۔ وہ سب درخت کے ان تنوں کے ساتھ جیسے لپٹ سے گئے ہوں۔ پھر ان کے خفیہ خانوں سے کوئی چھوٹے بڑے پائپ نکال رہا تھا اور کوئی تار۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارے تار اور چھوٹے بڑے پائپ حیدر علی کے نصب کئے گئے کمپریسروں سے جڑنا شروع ہو گئے۔ گویا یہ بظاہر درختوں کے تنے درختوں کے تنے نہیں کچھ اور ہی چیز تھے جس کا علم لانے والوں ہی کو ہوگا۔

تمام درختوں کے تنوں کو کمپریسروں سے منسلک کر دیا گیا تھا سوائے ایک تنے کے۔ درختوں کے تنوں کو کمپریسروں کے ساتھ ٹائی اپ کرنے کے بعد باقی بچ جانے والے تنے کا ایک ڈکھنا کھولا گیا۔ گویا یہ تنا ان سب سے مختلف تھا جبکہ اس کی ظاہری حیت پہلوں کے جیسی ہی تھی۔ اس میں خچروں پر لدا وہ کیمیا جس کو جمال کی ٹیم بارود خیال کر رہی تھی، بھرا جانے لگا۔ گولہ بارود کی شکل کا وہ سارا پوڈر اسی درخت کے تنے میں بھر لینے کے بعد اس میں پانی کی شکل کا کچھ اور کیمیکل ڈال کر ڈھکنے کو سختی کے ساتھ بند کر دیا گیا اور اس کے پائپ کو بھی تمام کمپریسروں کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ یہ سب کارروائی جمال کی ٹیم بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد سارے کے سارے بتوں کی طرح کھڑے ہو گئے جیسے فوج کا کوئی دستہ دشمن کے خلاف کھڑا ہو کر آرڈر ملنے کا منتظر ہو۔ حیدر علی کے ہاتھ میں کوئی فون نما آلہ تھا جو اس کے کانوں سے لگا ہوا تھا۔ اچانک بہت دور سے کچھ گرج کی آوازیں سی سنائی دیں۔ اس سے پہلے جمال، کمال اور فاطمہ کچھ سمجھ سکیں، حیدر علی نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور ٹھیک اسی کے ساتھ تمام کمپریسرز اسٹارٹ ہو گئے گویا آپریشن شروع ہو چکا تھا۔ طاقتور کمریسروں کے ذریعے کس قسم کی ہوائیں یا دیگر گیسیں پربت کے تہہ خانوں تک پہنچائی جا رہی ہونگی، اس کا علم تو فی الحال جمال کی ٹیم کو نہیں تھا لیکن ایک بڑے آپریشن کا آغاز ہو چکا تھا۔

پربت کیونکہ کافی بلندی پر تھا اس لیے کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا کہ اس وقت اوپر کی صورت حال کیا ہے لیکن اسکرین پر بیٹھے جمال، کمال اور فاطمہ تہہ خانوں میں بدلتی صورت حال میں یہ تبدیلی ضرور محسوس کر رہے تھے کہ جیسے ان تہہ خانوں میں نصب پلانٹوں نے کام بند کرنا شروع کر دیا ہو۔ اندر کی روشنیاں بند ہو چکی تھیں۔ ارتعاش کو محسوس کرنے والا میٹر صفر کی جانب بڑھ چکا تھا اور گیس کے اخراج کو باہر کی جانب دکھانے والا آلہ بتا رہا تھا کہ اب گیس باہر کی جانب آنے کی بجائے بہت شدید دباؤ کے ساتھ اندر کی جانب جا رہی ہے اور یہاں کی بھی روشنیاں گل ہو چکی ہیں۔ اسی کے ساتھ کئی ہیلی کواپٹروں کی گونج پربت کے اوپر سے بھی آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب وہاں کیا ہو رہا تھا اس کے متعلق فی الحال سب ہی بے خبر تھے۔

پربت کی رانی کے انجام والی مہم ختم ہو چکی تھی۔ حیدر علی کی ٹیم واپس جا چکی تھی۔ جمال، کمال اور فاطمہ کو وادی کے بڑے کے گھر میں ہی روک لیا گیا تھا۔ ان پر یہ خبر حیرت کا پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی کہ وادی کا بڑا خفیہ کا ایک ذمے دار آفیسر تھا۔ بے شک وادی کا یہ قبیلہ برسوں سے اسی جگہ آباد تھا لیکن آج سے بیس سال قبل جب وادی کا یہی سربراہ جوان تھا تو اس کی بہت ساری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے خاموشی کے ساتھ خفیہ کے دستے میں شامل کر لیا گیا تھا۔ جنگل کی پیچیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے شرپسند عناصر ایسی جگہوں کو اپنا اڈا بنا لیا کرتے ہیں اور دوسرے ممالک کے ایجنٹ بھی ایسے علاقوں میں منظم ہونے لگتے ہیں۔ ایسے ماحول میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ مقامی افراد میں سے کچھ لوگوں کو تربیت دے کر ایسے عناصر پر نظر رکھی جائے۔ باہر سے متعین کیا ہوا فرد فوری طور پر نظروں میں آ جاتا ہے۔ یہاں کے یہ سر براہ جو اب پچاس پچپن برس کے ہو چکے تھے، ان ہی کی بہت ساری فراہم کردہ اطلات پر جمال، کمال اور فاطمہ کو یہاں بھیجا گیا تھا۔ کیونکہ یہ سب نو عمر بچے تھے اس لیے ان کی سرگرمیوں پر کسی کے شک گزرنے کا امکان کم ہی تھا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ (جاری ہے)

حصہ