نیند کی کمی اور ذیابیطس کے درمیان تعلق

284

جو لوگ کم سوتے ہیںان میں ذیابیطس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے،چاہے وہ صحت مند غذا ہی کیوں کھاتے ہوں

ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس میں جسم خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ تحقیق 20 سے 75 سال کی عمر کی 40 خواتین پر کی گئی جن میں زیادہ وزن، مٹاپے، ٹائپ ٹو ذیابیطس کی خاندانی ہسٹری، لیپڈ لیول میں اضافے یا دل کی بیماری جیسے عوامل کی وجہ سے کارڈیو میٹابولک بیماریوں کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔

ذیابیطس کی دو اقسام ہیں: ٹائپ 1 اور ٹائپ 2

ٹائپ 1 ذیابیطس ایک خودکار بیماری ہے، جس کا مطلب ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام انسولین پیدا کرنے والے اپنے ہی خلیوں پر حملہ کرتا ہے اور انہیں تباہ کردیتا ہے۔

ٹائپ 2 ذیابیطس زیادہ عام ہے اور اسے اکثر ’’مٹاپے سے متعلق ذیابیطس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اُس وقت ہوتی ہے جب جسم انسولین کے خلاف مزاحمت کرتا ہے، یا جب جسم کافی انسولین پیدا نہیں کرتا۔

سوئیڈن کی یونیورسٹی آف اپسالا کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ جو لوگ رات میں چھ گھنٹے سے کم سوتے ہیں اُن میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 16 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق میں 250,000 سے زیادہ برطانوی شہریوں کا ڈیٹا دیکھا گیا۔

تحقیق کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ نیند کی کمی اور ذیابیطس کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے۔ جو لوگ کم سوتے ہیں اُن میں ذیابیطس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، چاہے وہ صحت مند غذا ہی کیوں نہ کھاتے ہوں۔

ذیابیطس ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں 422 ملین سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ ذیابیطس کی وجہ سے ہر سال 1.5 ملین سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔

جاپان میں ہونے والی ایک تحقیق میں سائنس دانوں نے کہا ہے کہ دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ نیند ٹائپ 2 ذیابیطس کی علامت ہوسکتی ہے، جبکہ دن کے وقت 40 منٹ سے کم نیند کا ذیابیطس سے کوئی تعلق نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس چھوٹے چھوٹے وقفوں میں سونے والے زیادہ چوکنا ہوتے ہیں۔

برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جن افراد کو رات میں نیند نہیں آتی یا آدھی رات کو جاگ جاتے ہیں، ان کے لیے یہ خطرہ 87 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ ایک تحقیق اس سے قبل 2019ء میں بھی سامنے آئی تھی جس میں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا تھا کہ محض ایک رات کو کم سونے سے بھی ذہنی بے چینی، خوف یا اعصابی خلل کا خطرہ 30 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
اس لیے آئیے اپنی نیند کے نظام کو بہتر کریں۔ اگر ہماری نیند پوری ہو تو یہ کئی بیماریوں کا علاج ہے اور درجنوں بیماریوں کے پیدا ہونے کے امکانا ت بھی نہیں ہوںگے اگر ہماری نیند ٹھیک ٹھیک پوری ہورہی ہے۔

حصہ