قوموں کا اخلاقی زوال اور تباہی کے اسباب

1066

تاریخ کے مطالعے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ تمام اقوام جن کے کھنڈرات روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں ان کے اندر درج ذیل خباثتیں بدرجہ اتم موجود تھیں جن کی بنا پر وہ اللہ کے قہر و غضب کا شکار ہوکر نشانِ عبرت بن گئیں۔

سب سے پہلے انہوں نے اپنے زمانے کے پیغمبروں اور رسولوں کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ ان کی تذلیل کی اور ان کو اذیتیں دے کر شہید تک کردیا۔

دوسرا یہ کہ وہ بت پرستی اور شرک میں اتنا آگے بڑھ گئی تھیں کہ خودساختہ خداؤں کی پرستش شروع کردی۔ تیسرا یہ کہ وہ ظالم بن گئیں۔ چوتھا یہ کہ انہوں نے انسانیت کو شرم سار کردینے والے اخلاقی رذائل کو اپنا لیا۔

یہ وہ بنیادی اسباب تھے جن کی وجہ سے یہ اقوام اپنے زمانے کی تمام تر ترقی، علم و فن، مال و دولت اور طاقت کے باوجود دیکھتے ہی دیکھتے نشانِ عبرت بن گئیں۔کسی کو سیلاب نے تباہ و برباد کردیا، تو کسی کو زلزلے نے آن کی آن میں ملیا میٹ کردیا۔ کوئی لگاتار گرم ہواؤں کے جھکڑ سے کھائے ہوئے بھس کی مانند بکھر گئی، کسی کو اللہ تعالیٰ نے بندر اور سور بنا کر ہلاک کردیا۔ کوئی اپنے بنائے ہوئے بند کے ٹوٹ جانے سے راتوں رات سیلابی ریلے میں بہہ گئی، اور کوئی اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ریت کے ٹیلوں میں دب کر بے نام و نشان بن گئی۔ کسی کو آتش فشاں کے لاوے نے اپنے اندر جلانے کے بجائے پتھروں کی مورت میں تبدیل کردیا۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ ہم نے گمراہ اقوام کے ساتھ کیا کیا ہے۔‘‘

ہر صاحبِ ایمان یہ بات جانتا ہے کہ اللہ ہر طرح کے گناہوں کو بخشنے پر قادر ہے سوائے شرک کے۔آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام دنیا میں تشریف لائے اور سب نے توحید و رسالت، فکرِ آخرت اور اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دی۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ نے توحید و رسالت، فکرِ آخرت، تطہیر افکار و نظریات اور تعمیرِ سیرت و کردار کے لیے مبعوث فرمایا اور قرآن کے ذریعے حکیمانہ تعلیم سے روئے زمین پر ظلم و جبر کا خاتمہ کردیا، آپ نےؐ اپنے اخلاقِ حسنہ سے عرب کے بگڑے ہوئے بدوؤں کی تربیت کرکے ایسا انقلاب برپا کیا جس سے چند سال میں ہی دنیا کی کایا بدل گئی اور ایک بے مثال معاشرہ وجود میں آگیا۔

اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ’’رحمت اللعالمین‘‘ بنا کر بھیجا۔

وہ نبیوں میں رحمتؐ لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے معلم ِاخلاق بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

سورۃ المومنون میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’مومن وہ ہے جو تمام لغویات سے خود کو دور رکھتا ہے۔‘‘ لغویات میں ہر وہ فعل و قول شامل ہے جس کو تمام ادیان کی تعلیمات میں گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر فحاشی، عریانی، جوا، شراب، جھوٹ، بدگوئی، زنا، ملاوٹ، دھوکہ دہی، چوری، ڈاکہ زنی، خیانت و بدعنوانی، اقربا پروری، گالی گلوچ، قتل و غارت گری، نظر بازی ، حق تلفی، والدین کے ساتھ بد سلوکی، رشتے داروں کی عدم داد رسی ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ ناروا سلوک، چغل خوری، طعنہ زنی، تجسس، غیبت، مذاق اڑانا، ناچ گانا وغیرہ۔ یہ تمام فعل گناہِ کبیرہ میں شامل ہیں۔ اس سے نہ صرف معاشرہ تباہی سے دوچار ہوتا ہے بلکہ جسمانی، روحانی اور اخلاقی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور اللہ کی ناراضی کی وجہ سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجاتی ہیں۔ آج بہت ساری لاعلاج بیماریاں تو شراب، زنا اور نشے کی پیداوار ہیں۔ دنیا میں کروڑوں لوگ ان سے متاثر ہیں اور سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔اس میں ایڈز، ٹی بی، کوڑھ و دیگر بیماریاں شامل ہیں۔

ہر صاحبِ ایمان جانتا ہے کہ شیطان اس کا ازلی دشمن ہے۔ وہ دائیں، بائیں، آگے پیچھے ہر طرف سے انسان کو ورغلاتا ہے، ڈراتا ہے ، لالچ دیتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شیطان تم کو بھوک اور جان و مال کے خوف سے ڈراتا ہے اور تم کو فحاشی اور عریانی کی طرف بلاتا ہے۔‘‘

اللہ نے سورۃ القریش میں فرمایا ’’ربِ کعبہ کی عبادت کرو جس نے تم کو بھوک اور خوف سے نجات بخشی۔‘‘

آج پوری دنیا میں شیطانی اور طاغوتی طاقتوں کا غلبہ ہے اور شیطانی دعوت، اس کی پوجا اور ترغیبات کو ریاست کی چھتری حاصل ہے۔ اس کے راستے میں اہلِ ایمان ہر طرح سے ریاستی جبر و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔

سورۃ طہٰ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تم میرے ذکر سے غافل ہوگے تو میں تمہاری معیشت کو تنگ کر دوں گا اور تمہیں قیامت میں اندھا اٹھاؤں گا۔ تُو پکار کر کہے گا کہ اے ہمارے رب! میں تو آنکھوں والا تھا مجھے اندھا کیوں اٹھایا۔‘‘

تباہ شدہ اقوام میں جو برائیاں فرداً فرداً موجود تھیں، وہ تمام اخلاقی برائیاں اور جرائم مجموعی طور پر پوری دنیا کے لوگوں نے اپنا لیے۔ مثلاً قومِ لوط ہم جنس پرستی کے قبیح فعل میں مبتلا تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ انہوں نے ہی اس بدفعلی کو ایجاد کیا۔ آج یہ برائی اور گناہِ کبیرہ عالمی سطح پر پوری دنیا میں ریاستی قانون کی سرپرستی میں انسانی حقوق کے نام پر جاری و ساری ہے۔ گو کہ مسلم دنیا ابھی اس سے محفوظ ہے مگر عالمی طاغوت مسلسل مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اسے اپنانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، حالانکہ ادارۂ اقوام متحدہ بھی اس فعلِ قبیح کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دے چکا ہے۔ اسی کے اثراتِ بد کا نتیجہ ہے کہ ایڈز جیسی لا علاج بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس بدکاری کو پھیلانے کے لیے آزاد خیال اور حقوقِ نسواں کی عَلم بردار خواتین ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ کے نام پر ہر سال تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں۔ مسلم دنیا، بالخصوص پاکستان میں یہ کام زورشور سے جاری ہے جسے میڈیا کے ذریعے فروغ دیا جا رہا ہے۔ 1914ء اور 1939ء میں دو عالمی جنگوں میں کروڑوں انسانوں کی موت نے بھی لوگوں کو ہوشیار نہیں ہونے دیا اور دنیا اب تک مسلسل جنگ و جدل میں مبتلا ہے۔ ہوسِ زر اور صنعتی ترقی کی وجہ سے پوری دنیا میں گلوبل وارمنگ خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ سیلاب، طوفان اور زلزلے کی وجہ سے مسلسل تباہی پھیل رہی ہے۔ جدیدیت اور فیشن کے نام پر آج عورت کی حیثیت بکاؤ مال سے زیادہ نہیں ہے، اسی ترقی کو وہ آزادیِ نسواں کا نام دے رہی ہیں۔

تہذیب پھر سے آئی ہے پتھر کے دور کی
یہ اور بات ہے کہ نئے پیرہن میں ہے
جنگل میں بے لباس تھی کل کی جانِ جاں
آج بے لباس بھری انجمن میں ہے
پتوں کا پیرہن تھا، آنکھوں میں شرم تھی
آج خوش لباسی میں بکتا بدن بھی ہے

صورتِ حال بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔ جھوٹ بولنے میں مہارت کو لوگ چالاکی اور فن کاری سمجھتے ہیں۔ بے حیائی کو حُسن سمجھا جاتا ہے۔

ہنر مند کو کمینہ، فراڈی کو ذہین کہتی ہے
یہ دنیا بڑی ظالم ہے بے حیا کو حسین کہتی ہے

قمار بازی ایک عالمی کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور حکومتوں کی جانب سے بھی یہ کاروبار لاٹری کے نام پر کیا جاتا ہے۔ آج فلمی دنیا سے وابستہ اداکار اور شخصیات عالمی شہرت کے حامل ہیں اور اس سے وابستہ افراد اور مالکان اربوں کھربوں کے بزنس کرتے ہیں۔ پوری نوجوان نسل کے لیے یہ لوگ مثالی کردار کے حامل ہیں، ان کی نقالی اور پیروی کی جاتی ہے، لباس سے لے کر بالوں کی تراش خراش سب اپنایا جاتا ہے اور ان کے کنسرٹ دیکھنے کے لیے لاکھوں نوجوان اکٹھے ہوتے ہیں اور دیوانگی کی حد تک ان اخلاق باختہ اداکاروں اور ہیروئنوں کی پرستش کرتے ہیں۔

اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو! یہ شراب، جوا، یہ آستانے اور یہ پانسے سب عملِ شیطانی ہیں، ان سے بچو تاکہ تم کو فلاح نصیب ہو۔‘‘ (المائدہ 90)

اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اس کے ذریعے شیطان تمہارے درمیان فساد برپا کرتا ہے۔‘‘

یہ تمام گناہِ کبیرہ کے کام عالمی صنعت میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ مشہور زمانہ بذلہ سنج بدگوئی میں شہرت رکھتے ہیں اور مزاح کے نام پر خود بھی اور لوگوں کو بھی اللہ کے غصے کا شکار بناتے ہیں۔ جب کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’لوگوں سے خوش خلقی سے بات کیا کرو۔‘‘

کم تولنے کی بنیاد پر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم عذاب کا شکار ہوکر نشانِ عبرت بن گئی، آج اس فعلِ بد کو مہارت بنا لیا گیا ہے اور با لخصوص برصغیر اور تیسری دنیا کے ملکوں میں یہ چلن عام ہے۔ سورۃ الرحمن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ٹھیک ٹھیک تولا کرو اور ناپ تول میں ڈنڈی نہ مارو۔‘‘

اس پوری کائنات کی بقا میزان پر قائم ہے۔ تمام اجسام فلکی کی گردش میزان پر قائم ہے۔

حق تلفی ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ اللہ اس کو معاف نہیں کرے گا۔ حشر میں اگر حق تلفی کرنے والوں کے پاس ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ حق تلفی کرنے والے کی نیکیاں اُس شخص کو دے دے گا جس کی اُس نے حق تلفی کی تھی۔ اگر نیکیاں نہیں ہوں گی تو جس کا حق تلف کیا گیا ہے اس کے گناہ، حق تلف کرنے والے کو دے دیے جائیں گے۔ لیکن آج کے دور جدید میں یہ گناہ ہر خاص و عام سے سرزد ہورہا ہے۔ سب سے زیادہ کوئی متاثر ہے تو وہ بوڑھے والدین ہیں جن کی اولادیں بڑھاپے میں ان سے یا تو لاتعلق ہوچکی ہیں یا پھر ان کو اولڈ ایج ہوم کے حوالے کردیا ہے۔

شراب کی عالمی تجارت سے صنعت کار 1.6 ٹریلین ڈالر کی سالانہ آمدنی کرتے ہیں۔ آج جسم فروش عورتوں کو سیکس ورکر کا نام دے کر قانونی تحفظ دے دیا گیا۔ عریاں فلمیں جن کو Film Blueکا نام دیا جاتا ہے اور اس میں ملوث مرد و زن کو Porn Star کہا جاتا ہے، یہ عالمی کاروبار بن چکا ہے۔ Pornography Childکا گھناؤنا کاروبار بھی عالمی تجارت بن چکا ہے۔ اس طرح کی انسانیت سوز برائیوں نے پوری مغربی اقوام سے ان کے خاندانی نظام کو چھین لیا ہے۔ نیز تمام تر انتظامی اور ضروریاتِ زندگی کی سہولیات کے باوجود ان کو ازدواجی زندگی کا حقیقی سکون میسر نہیں ہے۔

آسائشِ حیات تو مل جائے گی مگر
لیکن سکونِ قلب مقدر کی بات ہے

کہا جاتا ہے کہ دولت اور عورت جب تک پردے میں ہیں، محفوظ ہیں۔ مگر آج ان دونوں چیزوں کو ہر کوچہ و بازار میں رقصِ ابلیس کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس اخلاقی زوال کے تابوت میں آخری کیل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ٹھونک دی ہے۔ اس ہوائی شیطان نے چھ سال کے بچے سے لے کر ساٹھ سال کے بوڑھے تک کو ایک جیسے اخلاقی زوال کی سمت بگٹٹ دوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کا استعمال مہلک نشے سے بھی برا اثر ڈال رہا ہے۔ یہ ایسی دلدل ہے جس میں گرنے کے بعد بچنے کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس کا عادی فرد ہر بات سے بے گانہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ تو ہر طرح کے جرائم کرنے کا ہنر بھی سکھاتا ہے۔

عورت اور مرد کے چار کردار قدرت نے متعین کیے ہے، اس کے علاوہ وہ کوئی اور کردار ادا کریں توآدمیت کے دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔

عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہے، جب کہ مرد باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر ہے۔ ان ہی چار کرداروں کے دائرے میں رہ کر زندگی پُر سکون اور محفوظ رہ سکتی ہے، ورنہ دنیا اور آخرت کی تباہی مقدر ہے۔

عاد،‘ ثمود، فراعنۂ مصر ، باغِ ارم ، اصحاب ا لرس، پومپائی ، موہن جودڑو اور ہڑپہ کی اجڑی بستیاں یہ سب غربت اور افلاس کی وجہ سے نشانِ عبرت نہیں بنیں بلکہ ان سب کے پیچھے انسانیت سوز برائیوں کی داستانِ عبرت موجود ہیں۔

اب تو زمانہ اس قدر تیزی سے اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے کہ قوم کی نمائندگی کرنے والے اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں جس بد زبانی اور اخلاق سے گری ہوئی حرکتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اسے سن اور دیکھ کر کان سُن اور آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ لگتا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

مشین بنانے والا مکینک جس کام کے لیے مشین بناتا ہے اگر مشین وہ کام نہ کرے یا مطلوبہ نتائج نہ دے تو بنانے والا اس کو کباڑیے کو بیچ دیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اللہ نے جتنی بھی مخلوقات بنائی ہیں ان سب میں انسان کو افضل اور زمین کا خلیفہ بنایا اور اس کو کچھ اختیارات دے کر اس کا Code of life متعین کردیا جو انبیا اور رسولوں کے ذریعے اپنی نازل کردہ کتابوں کے توسط سے فراہم کیا۔ وہ یہ ہے کہ ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔‘‘ اس سے انحراف انسان کی تباہی اور بربادی ہے۔

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
میر صاحب تم فرشتہ ہو تو ہو
آدمی ہونا بہت مشکل ہے میاں

حصہ