گفتگو کے آداب

-1ہمیشہ سچ بولیے، سچ بولنے میں کبھی جھجھک نہ محسوس کیجیے چاہے کیسا ہی عظیم نقصان ہو۔

-2 ضرورت کے وقت بات کیجیے اور جب بھی بات کیجیے کام کی بات کیجیے۔ ہر وقت بولنا اور بے ضرورت باتیں کرنا وقار اور سنجیدگی کے خلاف ہے اور اللہ کے یہاں ہر بات کا جواب دینا ہے۔ آدمی جو بات بھی منہ سے نکالتا ہے اللہ کا فرشتہ اسے فوراً نوٹ کرلیتا ہے۔

’’کوئی بات اس کی زبان پر آتی ہی ہے کہ ایک نگراں (اس کو محفوظ کرنے کے لئے) مستعد رہتا ہے‘‘۔(ق:18)

-3 جب بات کیجیے نرمی کے ساتھ کیجیے، مسکراتے ہوئے میٹھے لہجے میں کیجیے۔ ہمیشہ درمیانی آواز میں بولیے نہ اتنا آہستہ بولیے کہ مخاطب سن ہی نہ سکے اور نہ اتنا چیخ کر بولیے کہ مخاطب پر رعب جمانے کا خطرہ ہونے لگے۔ قرآن شریف میں ہے:

’’سب سے زیادہ کریہہ اور ناگوار آواز گدھے کی آواز ہے‘‘ (لقمان:19)

-4 کبھی کسی بری بات سے زبان گندی نہ کیجیے، دوسروں کی برائی نہ کیجیے، چغلی نہ کھایئے، شکایتیں نہ کیجیے، دوسروں کی نقلیں نہ اتاریئے، جھوٹا وعدہ نہ کیجیے، کسی کی ہنسی نہ اڑایئے، اپنی بڑائی نہ جتایئے، اپنی تعریف نہ کیجیے، کٹ حجتی نہ کیجیے، منہ دیکھی بات بھی نہ کیجیے، فقرے نہ کسیے، کسی پر طنز نہ کیجیے، کسی کو ذلت کے نام سے نہ پکاریئے، بات بات پر قسم نہ کھایئے۔

-5 ہمیشہ انصاف کی بات کہیے، چاہے اس میں اپنا یا اپنے کسی دوست اور رشتہ دار کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

’اور جب زبان سے کچھ کہو تو انصاف کی بات کہو چاہے وہ تمہارے رشتہ دار ہی ہوں‘‘ (انعام: 152)

-6 نرمی، معقولیت اور دل جوئی کی بات کیجیے، کھری، بے لوث اور تکلیف دہ سخت بات نہ کہیے۔

-7عورتوں کو اگر کبھی مردوں سے بولنے کا اتفاق ہو، تو صرف، سیدھے اور کھرے لہجے میں بات کرنی چاہیے، لہجے میں کوئی نزاکت اور گلاوٹ نہ پیدا کریں کہ سننے والا کوئی برا خیال دل میں لائے۔

-8 جاہل باتوں میں الجھانا چاہیں تو مناسب انداز سے سلام کرکے وہاں سے رخصت ہوجایئے۔ فضول باتیں کرنے والے اور بکواس میں مبتلا رہنے والے لوگ امت کے بدترین لوگ ہیں۔

-9 مخاطب کو اچھی طرح سمجھانے کے لئے یا کسی بات کی اہمیت جتانے کے لئے مخاطب کے ذہن و فکر کو سامنے رکھ کر مناسب انداز اختیار کیجیے اور اگر مخاطب نہ سمجھ سکے یا نہ سن سکے تو پھر اپنی بات دہرا دیجیے اور ذرا نہ کڑھیے۔

-10 ہمیشہ مختصر اور مقصد کی بات کیجیے، بلاوجہ گفتگو کو طول دینا نامناسب ہے۔

-11 اگر کبھی کوئی دین کی بات سمجھانی ہو یا تقریر کے ذریعے دین کے کچھ احکام اور مسائل ذہن نشین کرانے ہوں تو نہایت سادہ انداز میں سوز کے ساتھ اپنی بات کی وضاحت کیجیے۔
تقریر کے ذریعے شہرت چاہنا، اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو مرعوب کرنا، لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا، فخر و غرور کرنا یا محض دل لگی اور تفریح کے لئے تقریریں کرنا وہ بدترین عادت ہے جس سے دل سیاہ ہوجاتا ہے۔

-12کبھی خوشامد اور چاپلوسی کی باتیں نہ کیجیے، اپنی عزت کا ہمیشہ خیال رکھیے اور کبھی اپنے مرتبے سے گری ہوئی بات نہ کیجیے۔

-13دو آدمی بات کررہے ہوں تو اجازت لئے بغیر دخل نہ دیجیے اور نہ کبھی کسی کی بات کاٹ کر بولنے کی کوشش کیجیے۔ بولنا ضروری ہی ہو تو اجازت لے کر بولیے۔

-14 ٹھہر ٹھہر کر سلیقے اور وقار کے ساتھ گفتگو کیجیے، جلدی اور تیزی نہ کیجیے نہ ہر وقت ہنسی مذاق کیجیے، اس سے آدمی کی وقعت جاتی رہتی ہے۔

-15 کوئی کچھ پوچھے تو پہلے غور سے اس کا سوال سن لیجیے اور خوب سوچ کر جواب دیجیے۔ بغیر سوچے سمجھے الٹ جواب دینا بڑی نادانی ہے اور اگر کوئی دوسرے سے سوال کررہا ہو تو خود بڑھ بڑھ کر جواب نہ دیجیے۔

-16 کوئی کچھ بتارہا ہو تو پہلے ہی نہ کہیے کہ ہمیں معلوم ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بتانے سے کوئی نئی بات سمجھ میں آجائے یا کسی خاص بات کا دل پر کوئی خاص اثر ہوجائے۔ اس لئے کہ بات کے ساتھ ساتھ بات کرنے والے کا اخلاص اور نیکی بھی اثر کرتی ہے۔

-17 جس سے بھی بات کریں، اس کی عمر، مرتبے اور اس سے اپنے تعلق کا لحاظ رکھتے ہوئے بات کیجیے۔ ماں، باپ، استاد اور دوسرے بڑوں اور دوستوں کی طرح گفتگو نہ کیجیے۔ اسی طرح چھوٹوں سے گفتگو کریں، تو اپنے مرتبے کا لحاظ رکھتے ہوئے شفقت اور بڑے پن کی گفتگو کیجیے۔

-18 گفتگو کرتے وقت کسی کی طرف اشارہ نہ کیجیے کہ دوسرے کو بدگمانی ہو اور خوامخواہ اس کے دل میں شک بیٹھے۔ دوسروں کی باتیں چھپ کر سننے سے پرہیز کیجیے۔

-19 دوسروں کی زیادہ سنیے اور خود کم سے کم بات کیجیے اور جو بات کیجیے اور جو بات راز کی ہو، وہ کسی سے بھی بیان نہ کیجیے۔ اپنا راز دوسرے کو بتاکر اس سے حفاظت کی امید رکھنا سراسر نادانی ہے۔

خط و کتابت کے آداب
-1خط کی ابتدا ہمیشہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے کیجیے، اختصار کے لئے ’’بسمہ تعالیٰ‘‘ لکھیے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’جس کام کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی جاتی وہ ادھورا اور بے برکت رہتا ہے، بعض لوگ الفاظ کے بجائے 786 لکھتے ہیں اس سے پرہیز کیجیے، اس لئے کہ اللہ کے تلقین لئے ہوئے الفاظ میں ہی برکت ہے۔

-2 اپنا پتا خط میں ضرور لکھیے۔ یہ سوچ کر پتا لکھنے میں ہرگز سستی نہ کیجیے کہ آپ مکتوب الیہ کو اپنے پتا اس سے پہلے لکھ چکے ہیں یا اس کو یاد ہوگا۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ کا پتا مکتوب الیہ کے پاس محفوظ ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ مکتوب الیہ کو آپ کا پتا یاد ہی ہو۔

-3 اپنا پتا دائیں جانب ذرا حاشیہ چھوڑ کر لکھیے۔ پتا ہمیشہ صاف اور خوشخط لکھیے اور پتے کی صحت اور املا کی طرف سے ضرور اطمینان کیجیے۔

-4 اپنے پتے کے نیچے یا بائیں جانب سر نوشت پر تاریخ ضرور لکھ دیا کیجیے۔

-5 تاریخ لکھنے کے بعد مختصر القاب اور آداب کے ذریعے مکتوب الیہ کو مخاطب کیجیے۔ القاب و آداب ہمیشہ مختصر اور سادہ لکھیے، جس سے خلوص اور محبت محسوس ہو، ایسے القاب سے پرہیز کیجیے جن سے تصنع اور بناوٹ محسوس ہو۔ القاب و آداب کے ساتھ ہی یا القاب کے نیچے دوسری سطر میں سلام مسنون یا اسلام علیکم لکھئے، آداب و تسلیمات وغیرہ الفاظ نہ لکھئے۔

-6 غیر مسلم کو خط لکھ رہے ہوں تو السلام علیکم یا سلام مسنون لکھنے کے بجائے آداب و تسلیمات وغیرہ جیسے الفاظ لکھئے۔

-7 القاب و آداب کے بعد اپنا وہ اصل مطلب و مدعا لکھئے جس غرض سے آپ خط لکھنا چاہتے ہیں، مطلب و مدعا کے بعدمکتوب الیہ سے اپنا تعلق ظاہر کرنے والے الفاظ کے ساتھ اپنا نام لکھ کر خط کو ختم کیجیے۔ مثلاً آپ کا خادم، دعا کا طالب، خیر اندیش، دعاگو وغیرہ۔

-8 خط نہایت صاف، سادہ اور خوش خط لکھئے کہ آسانی سے پڑھا اور سمجھا جاسکے اور مکتوب الیہ کے دل میں اس کی وقعت ہو۔

-9 خط میں نہایت شائستہ، آسان اور سلجھی ہوئی زبان استعمال کیجیے۔

-10 خط مختصر لکھئے اور ہر بات کھول کر وضاحت سے لکھئے، محض اشاروں سے کام نہ لیجیے۔

-11 پورے خط میں القاب و آداب سے لے کر خاتمہ تک مکتوب الیہ کے مرتبہ کا لحاظ رکھیے۔

-12 نیا پیراگراف شروع کرتے وقت لفظ کی جگہ چھوڑ دیجیے۔

-13 خط میں ہمیشہ سنجیدہ انداز رکھیے۔ غیر سنجیدہ باتوں سے پرہیز کیجیے۔

-14 خط کبھی غصے میں نہ لکھئے اور نہ کوئی سخت سست بات لکھئے۔ خط ہمیشہ نرم لہجے میں لکھئے۔

-15 عام خط میں کوئی راز کی بات نہ لکھئے۔

-16 جملہ کے ختم پر ڈیش(۔) ضرور لگایئے۔

-17 کسی کا مکتوب بغیر اجازت ہرگز نہ پڑھیے، یہ زبرست اخلاقی خیانت ہے۔ البتہ گھر کے بزرگوں اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چھوٹوں کے خطوط پڑھ کر ان کی تربیت فرمائیں۔ اور انہیں مناسب مشورے دیں۔ لڑکیوں کے خطوط پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے۔
-18 رشتہ داروں اور دوستوں کو خیر و عافیت کے خطوط برابر لکھتے رہیے۔

-19کوئی بیمار ہوجائے، اللہ نہ کرے کوئی حادثہ ہوجائے یا کسی مصیبت میں کوئی پھنس جائے تو اس کو ہمدردی کا خط ضرور لکھئے۔

-20 کسی کے یہاں کوئی تقریب ہو، کوئی عزیز ہو یا خوشی کا کوئی اور موقع ہو تو مبارک باد کا خط ضرور لکھئے۔

-21 خطوط ہمیشہ نیلی یا سیاہ روشنائی سے لکھئے۔ پنسل یا سرخ روشنائی سے ہرگز نہ لکھئے۔

-22کوئی شخص ڈاک میں ڈالنے کے لئے خط دے تو نہایت ذمہ داری کے ساتھ بروقت ضرور ڈال دیا کیجیے لاپرواہی اور تاخیر ہرگز نہ کیجیے۔

-23 غیر متعلق لوگوں کو جواب طلب باتوں کے لئے جوابی کارڈ یا ٹکٹ بھیج دیا کیجیے۔

-24لکھ کر کاٹنا چاہیں تو ہلکے ہاتھ سے اس پر خط کھینچ دیا کیجیے۔

-25 خط میں صرف اپنی دلچسپی اور اپنے ہی مطلب کی باتیں نہ لکھئے بلکہ مخاطب کے جذبات و احساسات اور دلچسپیوں کا بھی خیال رکھیے، صرف اپنے ہی متعلقین کی خیر و عافیت نہ بتایئے بلکہ مخاطب کے متعلقین کی خیر و عافیت بھی معلوم کیجیے اور یاد رکھیے، خطوط میں بھی کسی سے زیادہ مطالبے نہ کیجیے، زیادہ مطالبے کرنے سے آدمی کی وقعت نہیں رہتی۔

کاروبار کے آداب
-1دلچسپی اور محنت کے ساتھ کاروبار کیجیے اپنی روزی خود اپنے ہاتھوں سے کمایئے اور کسی پر بوجھ نہ بنیے۔ ایک بار نبیؐ کی خدمت میں ایک انصاری آئے اور انہو ں نے نبیؐ سے کچھ سوال کیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا تمہارے گھر میں کچھ سامان بھی ہے؟ صحابیؓ نے کہا یا رسولؐ اللہ! صرف دو چیزیں ہیں، ایک ٹاٹ کا بچھونا ہے جس کو ہم اوڑھتے بھی ہیں اور بچھاتے بھی ہیں اور ایک پانی کا پیالہ، آپؐ نے فرمایا یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آئو! صحابیؓ دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوگئے۔ آپؐ نے وہ دونوں چیزیں دو درہم میں نیلام کردیں اور دونوں درہم ان کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا، جائو ایک درہم میں تو کچھ کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر والو کو دے آئو۔ ایک درہم میں کلہاڑی خرید کر لائو۔پھر کلہاڑی میں آپؐ نے اپنے دست مبارک سے دستہ لگایا اور فرمایا جائو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لائو اور بازار میں بیچو۔ پندرہ دن کے بعد ہمارے پاس آکر روداد سنانا۔ پندرہ روز کے بعد جب وہ صحابیؓ حاضر ہوئے تو انہوں نے دس درہم جمع کرلئے تھے۔ آپؐ خوش ہوئے اور فرمایا، یہ محنت کی کمائی تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم لوگوں سے مانگتے پھرو اور قیامت کے روز تمہارے چہرے پر بھیک مانگنے کا داغ ہو۔

-2 جم کے کاروبار کیجیے اور خوب کمائے تاکہ آپ لوگوں کے محتاج نہ رہیں۔ نبیؐ سے لوگوں نے ایک بار پوچھا یا رسولؐ اللہ! سب سے بہتر کمائی کون سی ہے؟ فرمایا ’’اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر وہ کاروبار جس میں جھوٹ اور خیانت نہ ہو‘‘۔ حضرت ابو قلابہؓ فرمایا کرتے تھے، بازار میں جم کر کاروبار کرو۔ تم دین پر مضبوطی کے ساتھ جم سکوگے اور لوگوں سے بے نیاز ہوگے۔

-3کاروبار کو فروغ دینے کے لئے سچائی اختیار کیجیے، جھوٹی قسموں سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے۔ نبیؐ نے فرمایا:

’’قیامت کے روز اللہ تعالیٰ نہ اس شخص سے بات کرے گا نہ اس کی طرف منہ اٹھا کر دیکھے گا اور نہ اس کو پاک صاف کرکے جنت میں داخل کرے گا جو جھوٹی قسمیں کھاکھا کر اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے‘‘ (مسلم)

اور آپؐ نے فرمایاکہ ’’اپنا مال بیچنے کے لئے اکثرت سے جھوٹی قسمیں کھانے سے بچو! یہ چیز وقتی طور پر تو فروغ کی معلوم ہوتی ہے لیکن آخر کار کاروبار سے برکت ختم ہوجاتی ہے‘‘ (مسلم)

-4کاروبار میں ہمیشہ دیانت و امانت اختیار کیجیے اور کبھی کسی کو خراب مال دے کر یا معروف نفع سے زیادہ غیر معمولی نفع لے کر اپنی حلال کمائی کو حرام نہ بنایئے، اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’سچا اور امانت دار تاجر قیامت میں نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ساتھ ہوگا‘‘ (ترمذی)

-5 خریداروں کو اچھے سے اچھا مال فراہم کرنے کی کوشش کیجیے جس مال پر آپ کو اطمینان نہ ہو وہ ہرگز کسی خریدار کو نہ دیجیے اور اگر کوئی خریدار آپ سے مشورہ طلب کرے تو اس کو مناسب مشورہ دیجیے۔

-6خریداروں کو اپنے اعتماد میں لینے کی کوشش کیجیے کہ وہ آپ کو اپنا خیرخواہ سمجھیں، آپ پر بھروسہ کریں اور ان کو پورا پورا اطمینان ہو کہ وہ آپ کے یہاں کبھی دھوکہ نہ دکھائیں گے، نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے:

’’جس نے پاک کمائی پر گزارا کیا، میری سنت پر عمل اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھا تو یہ شخص جنتی ہے، بہشت میں داخل ہوگا‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! اس زمانے میں تو ایسے لوگ کثرت سے ہیں آپؐ نے فرمایا: ’’میرے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے‘‘(ترمذی)

-7وقت کی پابندی کا پورا پورا خیال رکھیے۔ وقت پر دکان پر پہنچ جایئے اور جم کر صبر کے ساتھ بیٹھیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’رزق کی تلاش اور حلال کمائی کے لئے صبح سویرے ہی چلے جایا کرو کیونکہ صبح کے کاموں میں برکت اور کشادگی ہوتی ہے‘‘۔

-8 خود بھی محنت کیجیے اور ملازمین کو بھی محنت کا عادی بنایئے، البتہ ملازمین کے حقوق فیاضی اور ایثار کے ساتھ ادا کیجیے اور ہمیشہ ان کے ساتھ نرمی اور کشادگی کا سلوک کیجیے، بات بات پر غصہ کرنے اور شبہ کرنے سے پرہیز کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ اس امت کو پاکیزگی سے نہیں نوازتا جس کے ماحول میں کمزوروں کو ان کا حق نہ دلوایا جائے‘‘۔

-9خریداروں کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا معاملہ کیجیے اور قرض مانگنے والوں کے ساتھ نہ سختی کیجیے نہ انہیں مایوس کیجیے اور نہ ان سے تقاضے میں شدت کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو خرید و فروخت اور تقاضا کرنے میں نرمی اور خوش اخلاقی سے کام لیتا ہے‘‘ (بخاری) اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ: ’’جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اللہ اس کو روز قیامت کے غم و گھٹن سے بچائے تو اسے چاہیے کہ تنگ دست قرض دار کو مہلت دے یا قرض کا بوجھ اس کے اوپر سے اتار دے‘‘ (مسلم)

-10 مال کا عیب چھپانے اور خریدار کو فریب دینے سے پرہیز کیجیے۔ مال کی خرابی اور عیب خریدار پر واضح کردیجیے۔ نبیؐ غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے، آپؐ نے اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں ڈالا تو انگلیوں میں کچھ تری محسوس ہوئی۔ آپؐ نے غلے والے سے پوچھا: ’’یہ کیا؟‘‘ دکاندار نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ اس ڈھیر پر بارش ہوگئی تھی‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’پھر تم نے بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھ دیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جو شخص دھوکا دے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔

-11 قیمتیں چڑھنے کے انتظار میں کھانے پینے کی چیزیں روک کر اللہ کی مخلوق کو پریشان کرنے سے سختی کے ساتھ بچیے۔ نبیؐ نے فرمایا:
’’ذخیرہ اندوزی کرنے والا گناہ گار ہے‘‘۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’ذخیرہ اندوزی کرنے والا کیسا برا آدمی ہے۔ جب خدا چیزوں کو سستا فرما دیتا ہے تو وہ غم میں گھلتا ہے اور جب قیمتیں چڑھ جاتی ہیں تو اس کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے‘‘ (مشکوٰۃ)

-12خریدار کو اس کا حق پورا پورا دیجیے۔ ناپ تول میں دیانت داری کا اہتمام کیجیے۔ لینے اور دینے کا پیمانہ ایک رکھیے۔ نبیؐ نے ناپ، تول والے تاجروں کو خطاب کرتے ہوئے آگاہ کیا:
’’ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ ایک بڑے ہی سخت دن میں جس دن تمام انسان رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے‘‘ (مطففین: 6-1)

-13 تجارتی کوتاہیوں کا کفارہ ضرور ادا کرتے رہیے اور اللہ کی راہ میں دل کھول کر صدقہ و خیرات کرتے رہا کیجیے۔ نبیؐ نے تاجروں کو ہدایت فرمائی کہ: ’’اے کاروبار کرنے والو! مال کے بیچنے میں لغویات کرنے اور جھوٹی قسم کھا جانے کا بہت امکان رہتا ہے تو تم لوگ اپنے مالوں میں سے صدقہ ضرور کیا کرو‘‘ (ابودائود)

-14 اور اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجیے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا منافع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کی کامرانی اور لازوال عیش ہے۔
قرآن میں ہے:
’’اے مومنو! میں تمہیں ایسی تجارت کیوں نہ بتائوں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلائے (یہ کہ) تم اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔ یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔ اگر تم علم سے کام لو‘‘ (الصف: 10)