ادراک

150

’’عافیہ! رمضان میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں۔‘‘ ہادی نے الماری میں مصروف عافیہ کو متوجہ کیا۔
’’ہاں، بچوں کے کپڑے وغیرہ کی تو ساری تیاری ہے، گھر کی بھی تمام صفائی ستھرائی تقریباً مکمل ہے۔‘‘ وہ الماری میں کپڑے جماتے ہوئے بے فکری سے بولی۔
’’باجی اور زونی کو کھجلہ پھینی وغیرہ بھی دینے ہیں، ایسا کرتے ہیں راشن لے آتے ہیں تاکہ میں چھولے بھی اُبال کر رکھ لوں اور دونوں کو رمضان کا سامان بھجوا دوں۔‘‘ وہ الماری کا ہینڈل پکڑ کر کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
’’وہ… وہ میں کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا۔‘‘ وہ ہکلا گیا۔
’’پلیز، میں نے کہا ہے نا کہ اس کے متعلق کوئی بات نہیں۔‘‘ وہ یہ کہتی باہر نکل گئی۔
’’آ…آہا۔‘‘ وہ سرد آہ کھینچ کر بیڈ پر لیٹ گیا۔
عافیہ اور ہادی کی شادی کو پندرہ سال ہوگئے تھے۔ ساس، سسر جب تک حیات رہے اُن کے ہی ساتھ رہے۔ زونی کی شادی بھی والدین کی زندگی میں انجام پائی تھی۔ ہادی، باری آپا اور زونی… وہ چار بہن بھائی تھے۔
عافیہ بہت سمجھ دار اور سلجھی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے ساس سسر کی بہت خدمت کی… اور اب بھی دونوں بہنوں کو میکے کا مان دیتی۔ دونوں کو والدین کے انتقال کے بعد یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ ان کے والدین اس دنیا میں نہیں رہے۔
رمضان اور عید میں دینا دلانا بالکل ویسے ہی کرتی جیسے اُس کی ساس کرتی تھیں۔ بس ساری بدمزگی اس بات کو لے کر ہی ہوتی۔
عافیہ شاید باورچی خانے میں تھی۔ گھنٹی بجی، عافیہ نے دروازہ کھولا۔
ایک لڑکی تھی، انجانی سی۔
’’جی بیٹا!‘‘ عافیہ نے شائستگی سے پوچھا۔
’’خالہ جان! میں پہلی منزل سے آئی ہوں… ہم لوگ نئے شفٹ ہوئے ہیں، کل ہمارے گھر یٰسین شریف کا ختم ہے۔ پلیز آپ آئیے گا، امی نے کہا ہے۔‘‘
اسے ’’آنٹی‘‘ کے دور میں ’’خالہ‘‘ جان سننا بہت بھلا محسوس ہوا۔
’’جی بیٹا ضرور آؤں گی۔‘‘ عافیہ نے کہا۔
عافیہ دروازہ بند کرکے پلٹی تو ہادی کمرے سے باہر آیا۔
’’چائے لے آؤں؟‘‘ وہ بولی۔
’’میں رافعہ، شافعیہ کو لے آئوں کوچنگ سے، ان کی کال آئی تھی۔‘‘ اس نے دونوں بچیوں کے نام لیے۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘
اگلے دن وہ ختم میں گئی۔ ختم کے بعد خاتونِ خانہ نے قرآن کا کچھ حصہ تلاوت کیا۔ پھر اس کا ترجمہ اور تفسیر بیان کی اور اعلان کیا کہ رمضان میں روزانہ قرآن ترجمے سے پڑھیں گے۔
رات میں کھانے کے لیے بیٹھے تو ہادی نے نئے پڑوسیوں کے بارے میں استفسار کیا۔
’’بہت اچھی خاتون ہیں۔ میں نے تو زندگی میں پہلی مرتبہ قرآن کا ترجمہ سنا ہے… اور انہوں نے اتنی پیاری تفسیر بتائی کہ سب سمجھ میں آگیا، اور اب رمضان المبارک میں پورا قرآن ترجمے سے پڑھیں گے۔‘‘ عافیہ خوشی سے بولی۔
’’ہاں… ہاں تو چلی جانا صبح، رمضان میں ویسے بھی فارغ ہوتی ہو۔‘‘ ہادی خوش دلی سے بولا۔
رمضان کے چاند کے ساتھ ہی عقیلہ آپا کا یاددہانی کا میسج آگیا۔
عافیہ کی کیفیت بہت عجیب سی تھی، اپنے آپ پر نفرین بھیجتی کہ اتنی زندگی گزر گئی اور قرآن کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی!
جب روزوں کی فرضیت کی آیات آئیں تو مقبول روزہ حاصل کرنے کے لیے چند باتیں سمجھائیں، قطع رحمی کا بتایا۔
’’قطع رحمی کیا ہے؟‘‘ عافیہ نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
عقیلہ آنٹی نے سب کو تفصیل سے سمجھایا۔
’’چاہے زیادتی سامنے والے کی طرف سے ہو؟‘‘ عافیہ نے پوچھا۔
’’جی، اگر کسی نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہو اور آپ پہل کریں تو رب انعام سے نوازتا ہے۔‘‘عقیلہ آنٹی نے جواب دیا۔
افطار کی تیاری کے وقت بھی وہ استغفار کرتی رہی۔ اس سال عافیہ کو رمضان کا مقصود سمجھ میں آیا تھا۔
افطاری بنا کر عافیہ قرآن کھول کر بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں بہانے بہانے بھیگ رہی تھیں۔ دونوں بہنوں نے مل کر ٹیبل لگائی۔
’’آجائیں بابا، مما! اذان ہونے ہی والی ہے۔‘‘شافعیہ نے آواز لگائی اور وہ چہرے کے گرد دوپٹہ لپیٹے متورم آنکھوں کے ساتھ میز پر آگئی۔
’’کیا ہوا، طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ ہادی نے فکرمندی سے پوچھا۔
’’جی!‘‘ اتنا بول کر وہ خاموش ہوگئی۔
بہت سے ادراک تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
ہادی نماز پڑھ کر آیا تو عافیہ چائے کا کپ پکڑاتے ہوئے ہادی سے بولی ’’ہادی! تراویح کے بعد بھائی صاحب کے گھر چلیں؟‘‘
’’کیا…؟‘‘ ہادی نے استعجابیہ نظروں سے عافیہ کو دیکھا۔
تین برس ہوگئے تھے بھائی صاحب سے ملے، اور ان بھتیجا بھتیجی سے ملے جنہیں اس نے اپنی گود میں کھلایا تھا۔
’’میں نے دل سے انہیں معاف کردیا۔‘‘
’’نہیں امی ہم نہیں جائیں گے۔‘‘ انہوں نے بابا کے ساتھ زیادتی کی جائداد میں، بہن بھائی کا حق کھا گئے۔‘‘ شافعیہ غصے سے بولی۔
’’نہیں بیٹا! یہ بچوں کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ تایا، ان کی بہنوں اور آپ کے بابا کا مسئلہ ہے۔ تمھارے بابا اپنے بھائی سے ملنا چاہتے ہیں اور قرآن میں بھی قطع رحمی کے بارے میں سخت احکامات ہیں۔ ہمیں اپنے روزے مقبول کروانے ہیں نا۔‘‘اس نے پیار سے شافعیہ کو سمجھایا۔
’’اس لیے بس تراویح کے بعد تایا ابو کے گھر جارہے ہیں۔‘‘ وہ یہ کہتی کمرے سے نکل گئی۔
ہادی طمانیت سے مسکرا دیا۔

حصہ