شاہدالوری کی یاد میںتعزیتی اجلاس اور مشاعرہ

221

کراچی میں بزمِ یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام ممتاز شاعر‘ صحافی اور ادیب ڈاکٹر شاہد الوری کی یاد میں تعزیتی اجلاس اور مشاعرہ منعقد ہوا۔ مجلس صدارت میں رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی اور خالد عرفان شامل تھے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ مہمانان خصوصی تھے۔ نسیم شیخ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ حافظ جاوید اقبال ایڈووکیٹ نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ نظر فاطمی نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔ ڈاکٹر نثار نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ کراچی کی ادبی تنظیموں نے بزمِ یارانِ سخن ایک معتبر نام ہے جو کہ اپنی مدد آپ کے تحت طویل عرصے سے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مشغول ہے۔ بے شمار شان دار تقریبات اس تنظیم کے کریڈٹ پر ہیں‘ آج اس ادارے کے تحت ادبی دنیا کے نامور طنز و مزاح نگار ڈاکٹر شاہدالوری کے اعزاز میں ادبی ریفرنس ترتیب دیا گیا ہے۔ یادرفتگاں کے سلسلے میں اس قسم کے پروگرام قابل ستائش ہیں شاہدالوری ایک قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ معتبر صحافی بھی تھے۔ انہوں نے اقبال و غالب کے مصرعوں پر تضمین کی اور نام کمایا۔ انہوں نے ہر صنف سخن میں کلام کیا لیکن ان کی وجہ شہرت طنز و مزاح قرار پائی۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب سخن در سخن‘ دوسری حمد و ثنا‘ تیسری چراغ سے چراغ اور چوتھا شعری مجموعہ ففٹی ففٹی تھا۔ وہ اپنی کلیات شائع کرنے کی تیاری میں مصروف تھے کہ زندگی نے وفا نہ کی اور 14 ستمبر 2004کو انتقال کر گئے۔
ڈاکٹر شاہدالوری کے سب سے چھوٹے صاحبزادے صغیر انصاری نے کہا کہ ان کے والد نے انہیں زندگی گزارنے کے لیے طور طریقے سکھائے‘ وہ بہت مہربان اور شفیق انسان تھے۔ ہمارے گھر پر ادبی محفلیں منعقد ہوتی تھیں جس میں ادبی دنیا کے اہم شعرا و شاعرات حصہ لیتے تھے۔
عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاہدالوری طنز و مزاح کا ایک بڑا نام ہے جو کہ اپنی وفات تک ادبی منظر نامے کا اہم حصہ رہے۔ انہوں نے غم زدہ لوگوں میں مسکراہٹیں تقسیم کیں۔ ان کا صحافت میں بھی عمل دخل تھا‘ کئی اخبارات میں ان کے کالم شائع ہوتے تھے۔ انہوں نے غالب اور علامہ اقبال کے مصرعوں میں جو تضمین کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ تضمین کا فن بہت مشکل ہے لیکن شاہدالوری کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔ انہوں نے نعت نگاری بھی کی اور اولیائے کرام کی شان میں اشعار بھی کہے۔ وہ اسلامی نظریات کے آدمی تھے‘ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہو‘ معاشرے میں امن و امان قائم ہو‘ ہر آدمی کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔
خالد عرفان نے کہا کہ انہوں نے شاہدالوری سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ میرے پسندیدہ شاعروں میں شامل تھے‘ وہ طنز و مزاح کے بادشاہ تھے‘ ان کے یہاں جدید لفظیات اور زندگی کے جڑے استعارے استعمال ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان سے شعرائے کرام کو لے کر بھارت کے مشاعروں میں جایا کرتے تھے‘ اس کے علاوہ وہ پاکستان کے مختلف شہروں کی ادبی تنظیموں سے جڑے ہوئے تھے‘ ان کو طوطی بولتا تھا وہ اپنے عہد کے سیاسی‘ سماجی اور تاریخ مسائل بھی اپنے اشعار میں بیان کرتے تھے۔ وہ وسیع المطالعہ آدمی تھے‘ انہوں نے تضمین نگاری میں قابل قدر خدمات انجام دیں‘ ان کی ایک کتاب حمد و ثنا میں مذہبی شاعری ہے جس کو پڑھ کر ہمارا ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔
رانا خالد محمود نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کراچی میں ہماری تنظیم کے مشاعرے کے علاوہ مزید تین پروگرام ہو رہے ہیں لیکن ہمارے یہاں بھی ایک اچھی گیدرنگ ہے‘ میں تمام سامعین اور شعرائے کرام کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمارا مشاعرہ کامیاب بنایا۔
پروگرام میں رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی‘ خالد عرفان‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ حجاب عباسی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ اختر ہاشمی‘ یوسف چشتی‘ حامد علی سید‘ نسیم شیخ‘ مقبول زیدی‘ رانا خالد محمود‘ شائستہ سحر‘ کشور عدیل جعفری‘ نظر فاطمی‘ صفدر علی انشا‘ شبیر نازش‘ خیام حیدر زیدی‘ افضل ہزاروی‘ تنویر سخن‘ منصور ساحر‘ شجاع الزماں شاد‘ یاسر سعید صدیقی‘ فخراللہ شاد‘ کامران صدیقی‘ خالد خاک‘ فرح کلثوم‘ کشور عروج‘ جاوید اقبال‘ مظہر مہدی‘ شہزیل فراز اور شبانہ نثار تار نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ