تعلیم کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے سماجی اورسیاسی استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ تعلیمی نظام ملک کے طے کردہ اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیم لوگوں میں ذمہ داری کے احساسات پیدا کرتی ہے، اور یہ شعور پیدا کرتی ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے حقوق پہچانیں اور مفید شہری بنیں۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی اپنے عروج پر ہے۔ اسی وجہ سے تعلیمی نظام بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہورہا ہے۔ تعلیمی پالیساں، نصاب اور تعلیمی ادارے بھی ان اثرات کی زد میں ہیں۔ فنڈز کی عدم دستیابی کم زور تعلیمی شعبے کو مزید کم زور کررہی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی 2021-22ء کی تعلیمی شماریات رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ، خیبر پختون خوا میں 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ اور وفاقی دارالحکومت میں 80 ہزار بچے اسکولوں نہیں جارہے ہیں۔
اس تعداد کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کچھ اہم اور دلچسپ حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہ تعداد فی صدی میں دیکھی جائے تو اسکول جانے والے بچے کی کل تعداد کا یہ 39 فی صد بنتی ہے۔ صوبوں کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو فی صدی تعداد بلوچستان کی سب سے زیادہ بنتی ہے جو کہ 65 فی صد ہے۔ سب سے کم تعداد خیبر پختون خوا کی ہے جو کہ 30 فی صد ہے۔ 2016-17ء میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 44 فی صد تھی، جوکہ 2021-22ء میں کم ہوکر 39 فی صد ہوگئی ہے۔ فی صد کے ہیر پھیر سے نکل کر دیکھا جائے تو یہ تعداد 42 لاکھ تک بڑھ چکی ہے جسے رپورٹ میں آبادی بڑھنے سے منسوب کردیا گیا ہے۔
اسکول کے تدریجی درجوں کو مدنظر رکھا جائے تو پرائمری سطح پر 36 فی صد، مڈل کی سطح پر 30 فی صد، ہائی اسکول کی سطح پر 44 فی صد، اور ہائر سیکنڈری اسکول کی سطح پر 60 فی صد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسکول سے باہر رہنے کی وجہ بچوں کے معاشی حالات ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسکول سے باہر رہنے والے بچوں کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے پانچ سرفہرست ممالک میں سے ایک ہیں۔
کسی بھی ملک میں ناخواندگی کا غربت، جرائم اور صحت جیسے مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ یہ ملک کی مجموعی معاشی اور سیاسی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ناخواندہ معاشروں کی اکثریت جدید ترقی اور اس کی رفتار سے بے خبر رہتی ہے۔ ایسے معاشروں میں جہالت کی کارفرمائی ہوتی ہے، بے سروپا رسومات کی پابندی کی جاتی ہے۔ ایلیٹ طبقہ ان کا سیاسی استحصال کرتا ہے اور معاشرے میںکوئی بھی پائیدار تبدیلی ممکن نہیں ہو پاتی۔ پوری قوم دائروں کے سفر پر گامزن رہتی ہے۔ ان کا سماجی اور سیاسی شعور جامد رہتا ہے، تازہ خیالات کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
دنیا اس وقت خواندگی کے بنیادی تصور (لکھنے، پڑھنے وغیرہ کی مہارت) سے آگے ڈیجیٹل خواندگی کی طرف بڑھ چکی ہے جہاں معلومات اور ابلاغی ٹیکنالوجی کی مدد سے تخلیقی عمل پر زور دیا جارہا ہے۔ ایسی دنیا میں آپ تصور کریں کہ ملکِ خداداد میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جو خواندگی کے بنیادی تصور کے دائرے میں بھی نہیں آتے، یعنی جنھیں پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ اندازہ کریں کہ اتنی بڑی ناخواندہ تعداد کے حامل ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہی بچے کچھ سال کے بعد بطور شہری کہاں کھڑیں ہوں گے؟ ان کے ہاتھوں کس طرح کے معاشرے کی تارو پود بنی جائے گی؟ پاکستان جیسے جمہوری ملک میں یہ سیاسی عمل میں حصہ لیتے ہوئے امکانات کی کون سی دنیائیں تعمیر کریں گے؟ یہ سوچ کر ہی ہول اٹھنے لگتے ہیں۔
پاکستان میں ناخواندگی کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
(الف)پاکستان میں ناخواندگی کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کے کمزور مالی حالات ہیں۔ پاکستان میں پچاس فی صد سے زائد افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک بڑی آبادی بہت کم کماتی ہے۔ بچے اسکول جانے کے بجائے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے محنت مزدوری میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
(ب)پاکستان کے بہت سے دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات دستیاب نہیں۔ بچوں کو اسکول جانے کے لیے دور دراز کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ بہت سے والدین کو تعلیم کا حصول ایک مشکل امر لگتا ہے، اور یوں وہ اپنے بچوں کو اسکولوں میں نہیں بھیجتے۔
(ج) حکومت کی طرف سے تعلیمی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ یہ بجٹ اسکول سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے میں تو کیا کردار ادا کرے، موجودہ تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔ کئی جگہ برائے نام اسکول موجود ہیں جن میں اسٹاف ہے، نہ تعلیمی عمارات کا وجود، اور نہ ہی بنیادی تعلیمی سہولیات کی دستیابی۔ ایسے اسکولوں میں تعلیم و تعلم کا معنی خیز بندوبست نہیں۔ ایسے اسکولوں کا عدم اور وجود برابر ہے۔
(د) معاشرے میں ناخواندگی کی خوف ناک صورتِ حال اور اس کے مضر اثرات سے متعلق آگاہی کی انتہائی کمی ہے۔ اجتماعی اور قومی سطح پر ناخواندگی سے متعلق نتیجہ خیز بات چیت اور غوروفکر کرنے کا کوئی اہتمام نہیں۔ قوم کی طرف سے اربابِ حل و عقد پر ناخواندگی ختم کرنے کے لیے دبائو ہے نہ معاشرے ہی کی طرف سے اس ضمن میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں ناخواندگی کی صورتِ حال ایمرجنسی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈھائی کروڑ ناخواندہ بچے… یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ ان بچوں کو اسکولوں میں لانا اس وقت پوری قوم کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ اس کے لیے تمام توانائیاں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ فوری اور طویل المدتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ فی الفور درج ذیل اقدامات وقت کی پکار ہیں:
(الف) اسکول سے باہر بچوں کے لیے ایک ’’جامع پالیسی‘‘ بنائی جائے اور اس پر سو فی صد عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
(ب)’’جامع پالیسی‘‘ کا سلوگن ”No child left behind” ہو۔
(ج) شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے غیر رسمی تعلیم اہم کردار ادا کرسکتی ہے، اسے فروغ دیا جائے۔ غیر رسمی تعلیم سے منسلک اداروں کو فعال بنایا جائے اور ان کی استعداد کو بہتر کیا جائے۔
(د) دور دراز دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ ان علاقوں میں Private Public Partnership کے تحت غیر رسمی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔
(ہ) چائلڈ لیبر سے منسلک بچوں کو اسکولوں میں داخل کرایا جائے اور غریب طلبہ کے لیے معقول وظائف کا بندوبست کیا جائے۔
(و)اسکول سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے کے لیے بالعموم مین اسٹریم میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر مؤثر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ صرف حکومت نہیں، پورے معاشرے کو فعال بنانا ہوگا۔ ہر فرد کو اس اہم ترین کام کا ادراک کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔