کسی بھی ملک کی ترقی، آزادی اور سلامتی قومی وحدت اور نظریاتی بنیاد پر قائم رہنے سے مشروط ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی 57 آزاد ریاستوں کے باوجود معدودے چند ایک کے، تمام مسلم ممالک عالمی طاغوت یعنی یہود ونصاریٰ اور اہلِ ہنود کے اتحادِ خبیثہ کے زیر نگیں اس لیے ہیں کہ ان ممالک کے حکمران ان کے کاسہ لیس ہیں۔ تفصیل سے بات کرنے سے پہلے تمام مسلم ممالک کی جغرافیائی اور علاقائی اہمیت کے ساتھ ساتھ وہاں ریاستی ڈھانچے کا جائزہ پیش نظر ہونا ضروری ہے۔
عرب و عجم میں مسلمان ممالک کی اکثریت ایشیا، افریقہ اور مشرق بعید میں انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی ہے۔ عرب دنیا میں ایشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک ہیں۔ عرب کے تمام ممالک معاشی اعتبار سے آج امریکا اور یورپ کی معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ مصر، سوڈان، لیبیا، الجزائر، تیونس، مراکش افریقی براعظم میں ہونے کے باوجود عرب ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وسطی اور مشرقی افریقی مسلم ممالک ہیں۔ برصغیر میں پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں، مگر ان دونوں ملکوں کے مقابلے میں ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ملائشیا اور انڈونیشیا میں تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج دنیا کے آٹھ ارب انسانوں میں ہر تیسرا آدمی مسلمان ہے، اور دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں مسلمان موجود نہ ہوں۔
لیکن 1947ء سے پہلے ترکی اور افغانستان کے سوا تمام مسلم ممالک برطانیہ اور یورپی سامراج کے غلام تھے اور وسط ایشیا کی تمام مسلم ریاستیں روس کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھیں جو جہادِ افغانستان کی برکت اور روس کی پسپائی کے بعد جغرافیائی طور پر آزاد ہوئیں۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی اور یورپی سامراج اس لائق نہیں رہ گیا تھا کہ ان ممالک پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکتا۔ حتیٰ کہ چین اور برما کو بھی 1947ء میں ہی برطانیہ سے آزادی ملی۔
اب مسلم ممالک میں حکومتی ڈھانچے کا جائزہ لیتے ہیں۔ عرب دنیا میں جابرانہ اور ظالمانہ بادشاہت ہے اور عوام کو مالی خوش حالی ملنے کے باوجود انسانی حقوق کا الف بھی حاصل نہیں ہے، اور مذہبی عقائد بھی بادشاہ کے عقائد کے ساتھ منسوب ہیں۔ اختلافِ رائے کا مطلب موت اور زندانوں کی کال کوٹھری ہے۔ مصر میں کئی دہائیوں سے بدترین فوجی آمریت ہے اور اخوان المسلمون جیسی عوامی مقبولیت رکھنے والی خدا ترس اور باصلاحیت جماعت زیر عتاب ہے جس کے کئی مرشد تختۂ دار پر لٹکائے جا چکے ہیں اور ہزاروں کارکن پابندِ سلاسل ہیں۔ یہی حال تمام عرب ممالک میں ہے۔ عرب کے پڑوس میں ایران خمینی انقلاب کے بعد مکمل طور پر شیعہ ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے، اور انقلاب کے بعد مسلسل دیگر مسلم اقلیتیں بالخصوص سنی مسلمان زیر عتاب ہیں اور ان کو اپنے مذہبی عقائد کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے وہاں مسلسل شورش برپا ہے۔ سوڈان اپنی آزادی سے لے کر آج تک فوجی آمریت، پے در پے بغاوتوں، شورش اور خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ لیبیا کرنل قذافی کی آمرانہ مگر مستحکم حکومت کے خاتمے کے بعد خانہ جنگی کا شکار ہے۔ عراق امریکی جارحیت اور حملے کے بعد مکمل تباہ و برباد ہوچکا ہے، پورا ملک کرد، شیعہ اور سنی کے درمیان خانہ جنگی اور اجتماعی ہلاکتوں کا شکار ہے اور یہاں کی تیل کی دولت پر امریکا اور برطانیہ قابض ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شام بشار الاسد کی سنّی اکثریت کے خلاف اجتماعی قتل و غارت گری کا شکار ہوکر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، اور یہ قتل و غارت گری روس اور ایران کی حمایت سے جاری ہے۔ لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں یورپ اور ترکی میں جان بچانے کے لیے ہجرت کر گئے ہیں۔ لبنان شیعہ، سنی، دروز اور عیسائی آبادیوں کی خانہ جنگی کا مسلسل شکار ہے، جہاں ایران کی پشت پناہی سے حزب اللہ طاقتور جنگی مشین میں بدل گئی ہے جس کا ہدف صرف اور صرف اپنے عقیدے کی بالادستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مراکش میں بادشاہت موجود ہے جو مکمل طور پر یورپ کے زیر نگیں ہے۔ یہ وہی مراکش ہے جہاں سے یوسف بن تاشفین نے 400 سال بعد دوبارہ اندلس کو اسپین کے حملے سے بچایا تھا۔ بادشاہ کے خلاف بولنا قابلِ گردن زدنی جرم ہے۔
الجزائر فرانس سے آزادی کے بعد مسلسل فوجی آمریت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اسلامک فرنٹ کی انتخابات میں کامیابی کے بعد فوجی بغاوت ہوئی اور اسلام پسندوں اور فوج کے درمیان گزشتہ 20 سال سے خانہ جنگی کی وجہ سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد قتل کیے جا چکے ہیں۔ تیونس میں عرب بہار کے بعد کئی دہائیوں سے قائم لادین حکمرانی کا خاتمہ تو ہوا مگر آج بھی حالات وہی ہیں جو کل تھے۔
افریقہ کے تمام مسلم ممالک معدنی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود فوجی آمریت کی وجہ سے بدامنی اور معاشی زبوں حالی کا شکار ہوکر مستقل افراتفری کی لپیٹ میں ہیں اور حکمرانوں کی لادینی کی وجہ سے شدت پسند اسلامی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں اور ’بوکو حرام‘ جیسی شدت پسند تنظیم کی طرح القاعدہ بھی اپنا مضبوط وجود رکھتی ہے اور مسلسل ملکی تنصیبات پر حملہ آور ہے جس کا فائدہ عالمی استعماری قوتیں اٹھارہی ہیں۔
1917ء کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد وسط ایشیا کی تمام مسلم ریاستیں روسی جارحیت کا شکار ہوئیں اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمان تہہ تیغ کیے گئے اور ان کی شناخت تک چھین لی گئی، مسجدوں پر تالے ڈال دیے گئے، مدارس ڈانس کلبوں اور تھیٹر میں تبدیل کردیے گئے، قرآن پڑھنا قابلِ سزا جرم ٹھیرا۔ شکور ’’شکوروف‘‘ اور غفور ’’غفوروف‘‘ ہوگیا۔ صحاح ستہ کی سرزمین اور مسلمانوں کی علمی دنیا اجڑ گئی۔ روس کے بکھرنے کے بعد ان ریاستوں کو جغرافیائی آزادی ملی تو کچھ دینی آزادی بھی ملی، مگر آج بھی ان ممالک میں کمیونسٹوں کی ہی حکومت ہے۔ لہٰذا قازقستان اور دیگر ملکوں میں مسلح جدوجہد ہورہی ہے۔ یہ تمام ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور بہتر تعلیمی اور قابلِ قبول عوامی سہولیات بھی میسر ہیں۔
مشرق بعید میں انڈونیشیا آبادی اور جزائر کی وسعت کے اعتبار سے مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ کمیونسٹوں کی بیخ کنی کے بعد سہارتو سے لے کر اب تک یہ ملک مختلف ادوار میں مسلسل ترقی کرتا رہا، مگر عالمی سیاست میں یہ کوئی خاص کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ جمہوری ملک ہونے کے باوجود اب تک عوام کی خواہش کے برعکس اسلامی سمت میں آگے نہیں بڑھ سکا اس وجہ سے یہاں اکثر عوامی بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں بدھ مت اور ہندو تہذیب کے گہرے اثرات ہیں مگر یہاں کے مسلمان دینی رجحان پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور حج و عمرہ کرنا تو ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے۔ 18 ہزار جزائر پر مشتمل یہ ملک بحری تجارت کا بھی مرکز ہے۔ یہاں پرتگال اور دیگر مغربی اقوام کی ریشہ دوانیاں جاری رہتی ہیں۔
ملائشیا مشرق بعید کا ایک خوش حال اور ترقی یافتہ ملک ہے، یہاں امن و امان اور سیاسی استحکام بھی ہے۔ یہ مختلف بادشاہوں کی کنفیڈریشن ہے۔ یہ ملک اسلامی اقدار کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، نیز اسلامی تحریکیں اور پارٹیاں انتخابات میں قابلِ قدر کامیابیاں حاصل کرتی ہیں۔
عالم اسلام کا دھڑکتا ہوا دل ترکی جس سے آج بھی عام مسلمانوں کو امیدیں وابستہ ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد چھ صدیوں پر محیط، تین براعظموں میں پھیلی ہوئی ترک خلافت کا خاتمہ ایک دردناک سانحہ تھا۔ اس کے کیا عوامل تھے یہ خونچکاں داستان ہے۔ کوئی بھی شخص جو امت کا درد رکھتا ہے‘ خون کے آنسو روتا ہے۔ خلافت کے خاتمے کا درد برصغیر کے مسلمانوں نے شدت سے محسوس کیا اور برطانیہ کی غلامی میں رہنے کے باوجود ہندوستان میں مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں بحالیِ خلافتِ عثمانیہ تحریک چلی اور ہزاروں مسلمان ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے، اس حقیقت کے باوجود کہ مصطفی کمال پاشا نے ترک فوج کی سالاری کرکے ترکی کی حفاظت کی مگر اُس نے ایک مسلمان ملک کو نہ صرف یہ کہ سیکولر بنایا بلکہ اسلام کی بیخ کنی کی اور ہزاروں علما کو تختۂ دار پر لٹکایا، اسے مادر پدر آزاد ملک بناکر عربی زبان میں اذان دینے پر پابندی عائد کی، پردے پر پابندی لگائی جو کہ موجودہ اردوان حکومت کے آنے پر ختم ہوئی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت پر عمل پیرا رہنے والی ترک قوم کو یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں تبدیل کردیا گیا۔ آج بھی ترکی کا آئین سیکولر ہی ہے۔ ترکی میں فوج کی بالادستی قائم تھی جو گزشتہ برسوں میں فوجی بغاوت کے بعد عوام کی مزاحمت سے نہ صرف یہ کہ ختم ہوئی بلکہ مستقبل میں اس کا خطرہ بھی باقی نہ رہا۔ آج وہاں جمہوریت ہے اور ترکی تیزی سے اپنی عظمتِ رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی سمت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سو سالہ ذلت آمیز معاہدۂ لوازن جو 2023ء میں ختم ہوا‘ اب ترکی مکمل طور پر آزاد ہوچکا ہے، وہ اب نہ صرف بحری گزرگاہ سے گزرنے والے جہازوں سے ٹیکس لے گا بلکہ اپنی سمندری حدود میں تیل و گیس کے جو ذخائر موجود ہیں، ان کو استعمال کرنے کا مکمل اختیار بھی حاصل کرچکا ہے۔ طیب اردان ملت ِ اسلامیہ کا وہ بطلِ جلیل ہے جس سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ ترکی‘ جو اب ’’ترکیہ‘‘ ہو چکا ہے‘ عسکری اعتبار سے بھی عالم ِکفر کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ ترکیہ ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کر رہا ہے اور امریکا واسرائیل ششدر ہیں۔
برصغیر ہی نہیں، عالم اسلام کی امیدوں کا محور پاکستان جوکلمے کی بنیاد پر 14 اگست 1947ء کو وجود میں آیا، جس کے دو بازو مشرق اور مغرب میں تھے، جو اوّل دن سے انگریزوں کے پروردہ کالے انگریزوں کے تسلط میں تھا، استحصال اور حقوق سے محرومی کے باعث اس کا مشرقی بازو16 دسمبر 1971ء کو الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان اور بھارت اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوں ممالک اسلحہ کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالت شودروں سے بدتر ہے، یہ جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ میں شائع ہوچکا ہے۔ اب مودی سرکار میں ہندوتوا کے ایجنڈے کی تکمیل میں مسلمانانِ ہند اوّل ہدف ہیں۔ ان کی مساجد، مزارات اور شناخت کو پے در پے ریاستی جبر کے ساتھ ختم کیا جارہا ہے۔
پاکستان شروع دن سے جرنیلوں کی طالع آزمائی اور کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے معاشی بحران کا شکار ہو کر I.M.F کے چنگل میں جکڑا ہوا ہے۔ عوام آئے دن سیاسی عدم استحکام اور غیر شفاف انتخابات سے نالاں ہے۔ حالیہ 8 فروری کے انتخابات نے گزشتہ تمام انتخابی دھاندلیوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں شدید بے چینی اور غیر یقینی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔
بنگلہ دیش میں بھی رواں سال جنوری میں انتخابات ہوئے اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ گزشتہ دو انتخابات کی طرح اِس انتخاب میں بھی تمام اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے عوامی لیگ کو واک آؤٹ وکٹری مل گئی۔ اپوزیشن جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں کو پابندِ سلاسل کردیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی معیشت زوال کا شکار ہے، بے چینی موجود ہے مگر ہندوستان اور چین کے علاقائی مفادات کے درمیان بنگلہ دیش سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ حسینہ واجد کی جابرانہ پالیسی کی وجہ سے کسی وقت بھی سابقہ ادوار کی طرح ناخوش گوار حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
مسلم دنیا کے حکمران اپنی ذاتی اغراض، اور اپنے ملکوں کے عوام کی خواہشات کے برعکس مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اکثر حکمرانوں کی حرام کی دولت امریکا ، یورپ اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کے خفیہ اکائونٹ میں جمع ہے یا آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری ہے۔ لہٰذا مسلم ممالک میں تہذبی، ثقافتی، سماجی اور علمی زوال کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ عزم شاکری کا شعر ہے:
اپنی تہذیب کی لاش پہ رونے والا بھی کوئی نہیں
سب کے ہونٹوں پہ ہے یہ صدا اب یہ میت اٹھائے گا کون
ایک اور جگہ شاعر شکوہ کناں ہے:
بھلا کر نصِ قرآنی، یہودی و نصرانی
شیاطینِ زمانہ کا یہ پیروکار ہے آقاؐ
بھلا کر آپؐ کی بخشی ہوئی تیغ ہلالی کو
یہ دشمنوں سے مانگتا تلوار ہے آقاؐ