امی بستر پر لیٹی تھیں۔ ان کو بہت تیز بخار تھا۔ رافع لاؤنج میں بیٹھا ناول پڑھ رہا تھا۔ دراصل سردیوں کی چھٹیاں تھیں اور چھٹیاں شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی رافع کے ششماہی امتحان ختم ہوئے تھے، اس وجہ سے چھٹیوں کا کام بھی نہیں تھا۔ لہٰذا راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی۔ امی آنکھیں موندے لیٹی تھیں، شاید اُن کی آنکھ لگ گئی تھی۔ رافع نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ ابو سامنے کھڑے تھے۔ دونوں ہاتھوں میں سامان لیے ابو باورچی خانے کی طرف بڑھ گئے۔ ماسی برتن دھو رہی تھی۔
’’بیٹا! یہ دودھ فریج میں رکھ دو۔‘‘ ابو نے دودھ کی تھیلی رافع کے ہاتھ میں دی۔ ’’تمھاری امی کی طبیعت کیسی ہے؟ بخار اترا؟‘‘
’’جی…‘‘ رافع نے سر ہلایا۔ ’’بخار تو اتر گیا لیکن امی کی آنکھ لگ گئی ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ ابو لاؤنج میں صوفے پر ہی بیٹھ گئے۔ وہ کچھ پریشان لگ رہے تھے۔
’’ابو! آپ پریشان نہ ہوں۔ امی کی طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘
’’ہاں ہاں، بیٹا ٹھیک ہے۔‘‘
اتنے میں ماسی باورچی خانے سے باہر نکلی۔
’’اچھا بیٹا‘‘، وہ رافع کی طرف دیکھ کر بولی ’’میں چلتی ہوں، امی سے کہنا کام ہوگیا ہے۔‘‘
رافع نے سر ہلایا۔
’’آپ سارا سامان لے آئے؟‘‘ امی اٹھ چکی تھیں۔ ابو اخبار پڑھ رہے تھے۔
’’یہ کون سی ماسی تھی جو برتن دھو رہی تھی؟‘‘ ابو نے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کردیا۔
رافع نے حیرت سے ابو کی طرف دیکھا۔
’’وہی سکینہ ماسی…‘‘ امی ہلکی آواز میں بولیں۔
’’تم نے اس کو گھر میں کیوں گھسایا؟ یاد نہیں جب پہلے ہمارے ہاں کام کرتی تھی تو ہر وقت چیزیں غائب ہوتی رہتی تھیں۔‘‘ ابو نے ناراضی سے کہا۔
’’یاد ہے‘‘۔ امی کے کہنے پر رافع نے بغور امی، ابو کو دیکھا۔ وہ بات سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’کیا کروں؟‘‘ امی کمزور سی آواز میں بولیں۔ ’’میری طبیعت خراب ہے۔ ا
تنا کام پڑا ہے۔ دو دن سے ماسی نہیں آرہی۔ یہ سکینہ ماسی آئی تھی اور بضد تھی کہ ا
س کو لگالوں۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ابو نے امی کی بات کاٹتے ہوئے قطعی لہجے میں کہا۔ ’’ایک بار دھوکہ کھا لیا، بس اور گنجائش نہیں۔ بے شک گھر صاف نہ ہو… اور کھانا باہر سے آجائے گا لیکن آئندہ ماسی سکینہ کو گھر میں گھسانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’ اچھا ٹھیک ہے، میں کل اس کو منع کردوں گی۔‘‘ امی نے کہا۔ ’’اچھا یہ بتائیں آپ سامان لے آئے؟ میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ رضی اسٹور سے مت لایئے گا… پچھلی دفعہ یاد ہے نا کتنا گھپلا کیا تھا۔ ایک تو وہ ٹھیک سے تولتے نہیں ہیں، اوپر سے اشیا کا معیار بھی ٹھیک نہیں ہے۔ دال میں کنکر بھرے ہوئے تھے، آٹے میں کیڑے نکلے، دوسری بات یہ ہے کہ ان کے ریٹ بھی زیادہ ہیں۔‘‘ امی کہتی چلی گئیں۔
’’ہاں ہاں یاد ہے بھئی… مزید بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں بہت دور سے لایا ہوں، اگلے چوک سے۔ وہاں اتنا رش تھا کہ سامان لینے کے بعد بل بنوانے میں اتنا وقت خرچ ہوگیا۔ ایک گھنٹے کا کام دو گھنٹے میں ہوا۔ اب مجھے کتنی دیر ہوگئی ہے۔‘‘ ابو نے خفگی سے کہا۔
’’چلیں کوئی بات نہیں، میں آپ کے لیے چائے بنا دیتی ہوں۔‘‘
’’امی! میں آپ کی مدد کردیتا ہوں، آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘رافع جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
رات تک امی کی طبیعت خاصی بہتر ہوگئی تھی۔ ابو کام سے واپس آچکے تھے۔
دروازے کی گھنٹی بجی۔
’’ابو! حامد انکل۔‘‘
ابو کے ماتھے پر بل نمودار ہوگئے۔ ’’اب ان کی تقریر سنو… بھئی ہماری مرضی ہے ہم جو چاہے کریں۔ آجاتے ہیں منہ اٹھا کر… نہ دن کو چین ہے نہ رات کو۔‘‘ابو غصے کی حالت میں بڑبڑاتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ رافع بھی ابو کے پیچھے پیچھے لپکا۔ وہ حیران تھا۔
’’ابو! تو بہت ملنسار اور مہمان نواز ہیں، یہ ان کو کیا ہوا! اور حامد انکل سے ابو کے دیرینہ تعلقات ہیں، ان کے آنے پر ناراض کیوں ہورہے ہیں؟‘‘ رافع نے تعجب سے سوچا۔
’’بیٹا! امی سے چائے کا کہہ دو۔‘‘ حامد انکل کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر ابو نے رافع سے کہا۔ رافع جب چائے کا کہہ کر ڈرائنگ روم میں پہنچا تو گرما گرم بحث جاری تھی۔ رافع ان کی گفتگو سننے لگا۔ گفتگو حالیہ الیکشن کے بارے میں ہورہی تھی۔
حامد انکل کہہ رہے تھے ’’ووٹ ایک امانت ہے۔ ایک گواہی ہے۔ جو شخص اپنا ووٹ کسی ایسی جماعت یا شخص کو جو اس کا مستحق نہ ہو، صرف اس بنا پر دیتا ہے کہ وہ اس کا عزیز یا رشتہ دار ہے تو وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔‘‘
خاصی دیر گفتگو جاری رہی اور رافع بغور سنتا رہا۔
’’دیکھیں حامد بھائی! آپ کی باتیں سولہ آنے درست ہیں، لیکن ہم بھی کیا کریں ہم اپنی قوم اور برادری کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ساری زندگی جن کا ساتھ دیا ہے، آج آپ کے کہنے پر کیسے چھوڑ دیں؟‘‘ گفتگو کے اختتام پر ابو کی یہ بات رافع کو حیرت زدہ کر گئی۔
…٭…
امی بستر بچھا رہی تھیں۔ ابو صوفے پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔
’’آپ نے فون کیا اقبال بھائی کو؟ کل اتوار ہے نا، آپ سے بات ہوئی تھی۔ سارے کام کروالیں گے۔ گیزر بھی خراب ہے اور دو نل بھی ٹپک رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں… ہاں…بات کروں گا۔‘‘ ابو اخبار پڑھتے ہوئے بے توجہی سے بولے۔
’’بات کروں گا؟‘‘ امی نے حیرت سے دہرایا۔ ’’ابھی کرلیجیے نا بات۔ وہ صبح آجائیں گے۔ ساری چیزیں ٹھیک کروانی ہیں۔‘‘
’’نہیں بھئی۔‘‘ ابو نے نفی میں سر ہلایا ’’میں اقبال سے کام نہیں کرواؤں گا۔ پیسے بھی زیادہ لیتا ہے اور کام بھی تسلی بخش نہیں کرتا۔ میرے ایک جاننے والے ہیں، انہوں نے ایک دوسرا پلمبر بتایا ہے، اس کو بلاؤں گا، کل بات کروں گا۔‘‘
ابو نے بات کرتے کرتے رافع کی طرف دیکھا۔ وہ ان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’ابو آج آپ نے مجھے حیران کردیا ہے۔‘‘ رافع بولا۔
’’ کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’ابو! ماسی نے دھوکہ دیا تو اس کو گھر میں گھسانے سے منع کردیا… دکان دار سے دھوکا کھایا، اس نے غلط سودا دیا تو آپ نے اگلے چوک سے خریداری کی، اقبال انکل اتنے عرصے سے ہمارے گھر پر کام کررہے ہیں لیکن آپ اُن کے کام سے مطمئن نہیں ہوئے تو دوسرے پلمبر کو بلارہے ہیں… اور وہ افراد جو برسوں سے آپ کے ساتھ فریب اور دھوکا دہی کے مرتکب ہورہے ہیں، جنہیں ملک و قوم کے مفادات کا ذرا بھی خیال نہیں، جنہوں نے وطن کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، آپ ابھی بھی اُن کے ساتھ ہیں… ابھی بھی آپ کا ووٹ اُن کے لیے… ایسا کیوں؟‘‘ رافع سراپا احتجاج تھا۔
لیکن ابو کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
’’کیا مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا جا سکتا ہے؟‘‘ رافع سوالیہ نشان بنا ابو کی طرف دیکھ رہا تھا۔