حسرتؔ موہانی
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے
بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا
اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
جگر مراد آبادی
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانا ہے
یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانا ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانا ہے
دل سنگِ ملامت کا ہر چند نشانا ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانا ہے
ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے
وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانا ہے
شاعر ہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانا ہے
فطرت مرا آئینہ قدرت مرا شانا ہے
احمد فراز
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پا بجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
ََصبا اکبرآبادی
منزل پہ پہنچنے کا مجھے شوق ہوا تیز
رستہ ملا دشوار تو میں اور چلا تیز
ہاتھوں کو ڈبو آئے ہو تم کس کے لہو میں
پہلے تو کبھی اتنا نہ تھا رنگِ حنا تیز
مجھ کو یہ ندامت ہے کہ میں سخت گلو تھا
تجھ سے یہ شکایت ہے کہ خنجر نہ کیا تیز
چل میں تجھے رفتار کا انداز سکھا دوں
ہمراہ مرے سست قدم مجھ سے جدا تیز
افسردگئ گل پہ بھریں کس نے یہ آہیں
چلتی ہے سرِ صحن چمن آج ہوا تیز
اب مجھ کو نظر پھیر کے اک جام دے ساقی
پھر کون سنبھالے گا اگر نشہ ہوا تیز
انسان کے ہر غم پہ صباؔ چوٹ لگی ہے
شیشے کے چٹخنے کی بھی تھی کتنی صدا تیز
دلاور فگار
میں شہرِ کراچی سے کہاں بہرِ سفر جاؤں
جی چاہتا ہے اب میں اسی شہر میں مر جاؤں
اس شہر نگاراں کو جو چھوڑوں تو کدھر جاؤں
صحرا مرے پیچھے ہے تو دریا مرے آگے
اس شہر میں کچھ حسن کا معیار نہیں ہے
بیوٹی کی ضرورت سرِ بازار نہیں ہے
یوسف کا یہاں کوئی خریدار نہیں ہے
شو کیس میں بیٹھی ہے زلیخا مرے آگے
اس باغ میں کچھ قدر نہیں نغمہ گری کی
الٹی ہے یہاں چال نسیم سحری کی
حد ہو گئی کج فہمی و آشفتہ سری کی
بلبل کو برا کہتا ہے کوّا مرے آگے
رشوت بھی یہاں ایک مرض ہے متعدی
اپنا تو یہی پیشہ ہے آبائی و جدّی
لا بیچوں گا منسوخ شدہ نوٹوں کی ردی
جو میں نے کیا تھا وہی آیا مرے آگے
اک چیز ہے اس شہر کراچی کا گدھا بھی
ہشیار بھی احمق بھی پرانا بھی نیا بھی
کم بخت کو آتی نہیں تہذیب ذرا بھی
کرتا ہے سرِ بزم وہ غمزہ مرے آگے
ہوٹل میں یہاں جاؤ تو آواز یہی آئے
اس بھائی کا دو آنا ادھر ایک کڑک چائے
اس سیٹھ کا اک گردہ چچا جان کے دو پائے
مرغی کا جو آرڈر ہے اسے چولھے میں ڈالو
اس سیٹھ کا بھیجا ذرا جلدی سے نکالو
اک میٹ فرائی کرو اک انڈا ابالو
یہ سیٹھ جو بیٹھا ہے اسے قیمہ بناؤ
صاحب کی سری ٹھنڈی ہے کچھ آنچ دکھاؤ
چائے میں شکر مارو اسے لمبا پکاؤ
میرے نے جو بولا ہے وہی میرے کو لاؤ
اردو میں یہ فرماتا ہے بیرا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
سید محمد جعفری
کراچی کے مچھر
اے کراچی تیری رونق اور شہروں میں کہاں
مچھروں کی بین الاقوامی نمائش ہے یہاں
کس قدر آباد ہیں تیری نواحی بستیاں
ان میں مچھر مہمان ہیں اور مچھر میزباں
مچھروں کا شہر ہے حفظان صحت کا نظام
کر رہا ہے پوری پوری تندہی سے اپنا کام
اور شہروں کے بھی مچھر ہیں کراچی میں مقیم
کیونکہ اب چلتی نہیں اس شہر میں بحرِ نسیم
کر دیا کرتا تھا پسپا مچھروں کو یہ غنیم
ترک کر دی ہے ہواؤں نے بھی اب رسمِ قدیم
مچھروں نے باندھ رکھی ہے کراچی میں ہوا
ان کے اوپر کارگر ہوتی نہیں کوئی دوا
اے کراچی غیر ملکوں سے جو مچھر آئے ہیں
کیسے کیسے تو نے ان کے داد رے سنوائے ہیں
رات کو سوتے میں وہ کانوں پہ جب منڈلائے ہیں
اپنے ہی ہاتھوں سے تھپڑ اپنے منہ پر کھائے ہیں
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
(مرزا غالب)
…٭…
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
(اکبر الہ آبادی)
…٭…
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
(فیض احمد فیض)
…٭…
زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
(جون ایلیا)
…٭…
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
(ندا فاضلی)
…٭…
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
(راحت اندوری)
…٭…
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
(بشیر بدر)
…٭…
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
(عبید اللہ علیم)
…٭…
ملنا تھا اتفاق بچھڑنا نصیب تھا
وہ اتنی دور ہوگیا جتنا قریب تھا
(انجم رہبر)