گزشتہ ہفتے بزمِ یارانِ سخن کراچی نے ایک بہاریہ مشاعرہ ترتیب دیا جس کی مجلس صدارت میں رفیع الدین راز اور جاوید صبا شامل تھے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی مہمانان خصوصی تھے۔ بشیر نازش مہمان اعزازی تھے۔ آئرن فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ بزمِ یاران سخن کراچی کے صدر سلمان صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ میںکہا کہ ان کی تنظیم طویل عرصے سے ہر ماہ پابندی کے ساتھ کتابوں کی تقریب اجرا و تقریب پزیرائی اور مشاعرے جیسے اہم پروگرام ترتیب دے رہی ہے۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے کہا کہ ہم جن لوگوں کو دعوتِ مشاعرہ دیتے ہیں ان میں سے بہت سوں کو یہ اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ ہم سے معذرت کر لیں کہ وہ مشاعرے میں نہیں آئیں گے۔ ان کا نام فیس بک پر بینر میں چل رہا ہوتا ہے۔ میری گزارش ہے کہ وہ اپنے روّیے میں تبدلی لائیں جو لوگ شاعروں کو اسٹیج فراہم کر رہے ہیں وہ قابل مبارک باد ہیں کہ ان کے اس اقدام سے شعرائے کرام کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع حاصل ہیں۔ جاوید صبا نے کہا کہ اب کراچی میں ادبی گروہ بندیوں سے ادب کو نقصان ہو رہا ہے۔ جینوئن شعرا کی حق تلفی ہو رہی ہے جب تک ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ شعرائے کرام اور ادبا ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو براہِ راست معاشرے کی عروج و زوال میں اپنا کرداراداکرتا ہے۔ جن معاشروں میں قلم کاروں کو اہمیت نہیں دی جاتی وہ قومیں آہستہ آہستہ اپنی روایات اور ثقافت کھو رہی ہے۔
افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاعری ہماری روحانی غذا ہے‘ شاعری کی پروموشن ہماری ذمہ داری ہے۔ کراچی میں جب سے امن وامان کے مسائل بہتر ہوئے ہیں ادبی تقریبات بڑے زور و شور سے ہو رہی ہیں۔ ایک ہی وقت میں کئی کئی مشاعرے ہو رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ شعرائے کرام اپنے زمانے کے سیاسی‘ معاشرتی اور اخلاقی مسائل لکھتے ہیں تاکہ معاشرہ بہتر ہو سکے وہ ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیںکہ یہ شاعری کا غیر تحریر شدہ مواد ہے۔ آیئے ہم آج عہد کریں کہ ہم اردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنا حصہ شامل کرتے رہیں گے۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعے انگریزوں کی غلامی سے آزادی کا درس دیا۔ انہوں نے مزاحمتی شاعری کے ساتھ ساتھ تصوف اور روحانیت کے مسائل بھی اجاگرکیے۔ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان قائم ہوگیا لیکن پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہ ملک ختم ہو جائے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی حفاظت کریں‘ پاکستان کی حفاظت کرنے والوں میں شعرائے کرام ایک اہم ادارہ ہے یہ اپنے اشعار کے ذریعے عوام الناس کو خوابِ غفلت سے جگاتے رہتے ہیں۔ بشیر نازش نے کہا کہ وہ بزمِ یاران سخن کے شکر گزار ہیں کہ اس تنظیم نے مجھے مہمان اعزازی بنایا۔ بات یہ ہے کہ میرا شمارنوجوان نسل شعرا میں ہوت اہے‘ میرے دیگر شعری مجموعی منظر عام پر آچکے ہیں جن میں زندگی کے مختلف شعبوں پر اشعار شامل ہیں۔ یہ زمانہ گل و بلبل کا زمانہ نہیں۔ کراچی کے دبستان میں نوجوان نسل شعرا اچھا شعر کہہ ہے ہیں‘ سینئر شعرا ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
رفیع الدین راز نے کہا کہ فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری ایک پاور فل صنف ہے۔ ہر زمانے میں شعرائے کرام نے اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کو ذہنی آسودگی کے ساتھ ساتھ بہترین معلومات فراہم کی ہیں۔ صنف سخن میں غزل اور نظم سب سے زیادہ رائج الوقت ہیں۔ ترقی پسند تحریک نے نظم گوئی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اس تحریک کے ذریعے نظم کہنے کے رجحان کو فروغ دیا گیا۔
اس موقع پر رفیع الدین راز نے اپنی غزلیں سنا کر خوب داد سمیٹی‘ ان کے علاوہ جاوید صبا‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ بشیر نازش‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ ڈاکٹر نثار‘ آئرن فرحت‘ احسن فرید پراچہ‘ کشور عروج‘ فخراللہ شاد‘ منصور سحر‘ کامران صدیقی‘ یاسر سعید صدیقی‘ تنویر سخن‘ سرور چوہان‘ عینی میر عینی‘ نادیہ نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ زیفرین صابر نے حمدیہ کلام پیش کیا جب کہ عابد شیروانی نے نعت رسولؐ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ سرور چوہان نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔