رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے مبارک ادوار کو پیش نظر رکھ کر بادشاہت پر جتنی تنقید کی جائے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور اکرمؐ کا زمانۂ مبارک انسانیت کی معراج ہے اور خلافت ِراشدہ اس معراج کا تسلسل اور اس کی تفصیل ہے۔ لیکن فی زمانہ مسلم دنیا میں بادشاہت کی تنقید سیرت ِسرورِ عالمؐ اور خلافت ِراشدہ سے برآمد نہیں ہوتی۔ اس کا پس منظر جمہوری ہوتا ہے۔ تاہم بادشاہت پر جمہوریت کی تنقید اس لائق نہیں کہ اس کی جانب نظر بھر کر بھی دیکھا جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بادشاہت پر جمہوریت کی تنقید ردعمل کی تنقید ہے۔ جمہوریت نے بادشاہت کے ادارے سے لڑکر خود کو منوایا ہے، چنانچہ وہ نہ بادشاہت کے بعض اچھے پہلوئوں کی تعریف کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کی تنقید کا حق ادا کرسکتی ہے۔ ردعمل کی تنقید ویسے بھی یک رخی، یک طرفہ اور سرسری ہوتی ہے۔ لیکن بادشاہت پر جمہوریت کی تنقید کی ایک اور بڑی خامی یہ ہے کہ جمہوریت ایک مقداری نظام یا Quantitative System ہے اور بادشاہت ایک معیاری یا Qualitative نظام ہے۔ غور کیا جائے تو مقداری نظام معیاری بندوبست پر تنقید کر ہی نہیں سکتا، اس لیے کہ ان کے معیارات اور پیمانے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جمہوریت کا تنقیدی معیار ہی غلط ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دودھ کو گز سے ناپنا شروع کردیا جائے اور ناپنے میں ناکامی پر کہہ دیا جائے کہ دودھ ایک نہایت ہی خراب چیز ہے۔ جمہوری تنقید جب کہتی ہے کہ بادشاہت ایک برا نظام ہے تو وہ صحیح پیمانے کا استعمال کرکے ایسا نہیں کہہ رہی ہوتی، بلکہ وہ اپنے مقداری پیمانے کا اطلاق معیاری بندوبست پر کررہی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ غلط پیمانے کے استعمال سے کبھی بھی درست تنقید پیدا نہیں ہوسکتی۔
مسلم دنیا کے لیے اس گفتگو کی اہمیت یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ جمہوریت کی تنقید لے کر اس کا اطلاق اپنی تاریخ کے اُس حصے پر کردیتے ہیں جو بادشاہت پر مشتمل ہے۔ اس کے دو نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس کا پہلا نتیجہ ’’جمہوری شرمندگی‘‘ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ یعنی ہم جمہوری تناظر میں اپنی بادشاہت کی تاریخ پر شرمندہ ہوجاتے ہیں۔ اس سے انفرادی اور اجتماعی طور پر اتھلی جذباتیت اور بے حوصلگی پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔
جمہوریت کی تنقید کے مسلم تاریخ پر اطلاق کا دوسرا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ مسلمان جگہ جگہ تاریخی خلا سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ مسلم تاریخ میں کہیں کہیں بادشاہت کے ادارے کی عمر ایک ہزار سال ہے۔ جمہوریت کی تنقید یا جمہوری تنقید کی زد میں آتے ہی ایک ہزار سال کی تاریخ اچانک غائب ہوجاتی ہے، اور یہ ایک بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے کہ قوموں اور ملکوں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت یہ ہے کہ ایک جانب وہ شعور کے تسلسل کی علامت ہے اور دوسری جانب ماضی کی روشنی میں حال اور مستقبل کو سمجھنے کا وسیلہ ہے۔ چنانچہ جب کوئی قوم تاریخ کے شعور سے محروم ہوتی ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کے لیے شعور کا تسلسل رک جاتا ہے بلکہ وہ اپنے ماضی کی روشنی میں اپنے حال اور مستقبل کو سمجھنے سے قاصر ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ مسلم دنیا میں کہنے والوں نے کہا ہے کہ بادشاہت کی طویل تاریخ میں بادشاہت کے سوا کچھ ہوا ہی نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بادشاہت کی تاریخ میں بادشاہت کے سوا بہت کچھ ہوا ہے۔
تاریخ سے متعلق مذکورہ بالا حقائق کی اہمیت کا ادراک ’’جمہوری‘‘ معاشروں میں بھی عام ہے۔ برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے لیکن وہاں بادشاہت کے ادارے کو غیرمؤثر بناکر باقی رکھا گیا ہے۔ برطانوی مدبرین یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بادشاہت نہ صرف یہ کہ شعور کے تسلسل کی علامت اور ماضی کے آئینے میں حال اور مستقبل کو دیکھنے کا ذریعہ ہے بلکہ ان کی قوم بادشاہت کے ادارے کے ساتھ جذباتی طور پر بھی وابستہ ہے، چنانچہ انہیں بادشاہت سے مکمل طور پر کاٹ کر وہ اپنی قوم کے ساتھ اچھا نہیں کریں گے۔ اور یہ صرف برطانیہ کی بات نہیں، یورپ کے اکثر ملکوں میں بادشاہت کو ایک قیمتی تاریخی یادگار کے طور پر باقی رکھا گیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بادشاہت کے ساتھ یورپ کے لوگ بیک وقت محبت اور نفرت کا تعلق رکھتے ہیں، مگر ہمارے یہاں بادشاہت کے حصے میں صرف نفرت آتی ہے۔ یہ نفرت اُس وقت اور بھی خطرناک ہوجاتی ہے جب یہ منقلب ہوکر مجرد معنوں میں ماضی سے نفرت بن جاتی ہے، اور یوں ہمارا پورا ماضی مسترد شدہ شے بن جاتا ہے۔ یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کا اندازہ بھی دشوار ہے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں بادشاہت کی جو تنقید مشہور ہوگئی ہے وہ کیا ہے اور اس میں کتنی صداقت ہے؟
ہمارے یہاں بادشاہت کے ادارے پر سب سے بڑی تنقید یہ کی گئی ہے کہ بادشاہ فضول خرچ بہت تھے۔ انہیں عمارتیں، باغات اور قلعے بنانے کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ بادشاہوں نے تعمیرات میں سب سے زیادہ مساجد بنوائی ہیں اور مسجد اسلامی تہذیب کی مرکزی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ مسلمان بستی آباد کرتے ہیں تو انہیں اس بستی میں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی فکر ہوتی ہے۔ یہ مسجد نہ صرف یہ کہ عبادت گاہ کا کام انجام دیتی ہے بلکہ اس سے اس بستی کا تشخص بھی متعین ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ دلّی کا تشخص دلّی کی شاہی مسجد تھی۔ ایک وقت تھا کہ لاہور کا مرکزی حوالہ لاہور کی بادشاہی مسجد تھی۔ بلاشبہ ان مساجد کی تعمیر پر خطیر رقم خرچ ہوئی، لیکن اس کا مقصد یہ تھا کہ مساجد سے اسلام کا جلال اور جمال ظاہر ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مساجد کی تعمیر پر ان ہی لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے جنہیں اسلام اور اس کی تہذیبی نشوونما سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔
مغل بادشاہوں نے برصغیر میں باغ بھی بہت لگائے ہیں، لیکن اس کی بنیادی، اساسی اور کلیدی وجہ بھی مذہبی ہے۔ مسلم تہذیب میں باغ جنت کی علامت ہے، بلکہ جنت کے معنی ہی باغ کے ہیں۔ اور یہ علامت مسلمانوں کے شعور میں اتنی گہری اتری ہوئی ہے کہ مسلمان زمین پر رہ کر بھی جنت کی محبت میں مبتلا رہے ہیں۔ انہوں نے چاہا ہے کہ وہ زمین پر ایسے قطعے آباد کریں جنہیں دیکھ کر اُنہیں اور دیگر اہلِ ایمان کو جنت یاد آتی رہے۔
جہاں تک قلعوں کی تعمیر کا تعلق ہے تو قلعہ کم و بیش ہر تہذیبی روایت میں دفاعی حصار کی علامت سمجھا گیا ہے، اور دفاعی حصار کی تعمیر پر اعتراض سلامتی کے تصور پر اعتراض ہے۔
آپ کہیں گے کہ مسلم بادشاہوں نے محل بھی بہت بنائے ہیں اور محل عیش کی علامت ہیں۔ بالکل ٹھیک۔ مسلم بادشاہ اگر محل تعمیر نہ کراتے تو انہیں ’’بادشاہ‘‘ کون کہتا؟ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا جمہوری حکمران جھونپڑیوں میں رہتے ہیں؟