’’یا اللہ! میری باری آخر کب آئے گی؟‘‘ وہ باربار موبائل نکال کر دیکھ رہی تھی کہ کوئی کال تو نہیں آئی! اس کے شوہر باہر گاڑی میں بیٹھے تھے، کیوں کہ ساڑھے بارہ کے بعد اسپتال کے باہر گاڑیوں کا اتنا ہجوم ہوجاتا تھا کہ پارکنگ نہیں ملتی تھی۔
اسکول بسوں کا بے ڈھنگا رش، ساتھ اسپتال کے باہر کھڑے رکشوں کا ہنگامہ اور چنگچیوں میں تیز آواز میں بجتے گانے۔ وہ کمرہ نمبر 9 کے دروازے کے اوپر لگی گھڑی کو بار بار دیکھ رہی تھی۔ اسے اس بے ڈھنگی سی کرسی پر بیٹھے پینتیس منٹ ہوچکے تھے۔ بس بیٹھی اسپتال کی گہما گہمی ہی دیکھ رہی تھی۔ ابھی سامنے سے اسٹریچر پر ایک ضعیف بڑے میاں کو لے جایا جارہا تھا۔
’’اُف… زندگی اتنی مجبور ہوجاتی ہے…‘‘ اس نے جھرجھری لی۔ ’’شکر ہے میں خود چل کر آئی ہوں۔‘‘
ایک بچہ بار بار ڈسٹ بن کے پاس بیٹھا منہ کھولے جا رہا تھا، اس کی ماں اس کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔ اسٹاف کی دوڑ بھاگ… کمرہ نمبر نو کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر کی معاون باہر آئی۔ وہ خوش ہوگئی کہ اب اس کا نام پکارے گی، مگر وہ سامنے والی خاتون کے پاس گئی اور بولی ’’مریم! ابھی سیٹ خالی نہیں ہے ذرا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
مریم نے کہا ’’اچھا کوئی بات نہیں…‘‘ پھر مریم نے اپنی ساس کی طرف فخر سے دیکھا اور ڈاکٹر سے اپنے گہرے تعلق کا اظہار کرنے لگی۔ دروازے کے پاس ہی ایکوریم تھا، بچے اس کے شیشے سے ناک لگائے رنگ برنگی مچھلیاں دیکھ رہے تھے اور وقت گزاری کے لیے بڑے بھی۔ دائیں جانب پرچی بنوانے کے لیے لیڈیز اور جینٹس کاؤنٹر تھے، جہاں پر لگتا تھا کہ پرچی بنوانے والوں کی قطار کبھی ختم ہی نہ ہوگی۔ ایک پکی عمر کی تجربہ کار خاتون جنہوں نے گہری لپ اِسٹک لگا رکھی تھی‘ تیزی سے داخل ہوئیں۔ ان کے ساتھ ان کے شوہر تھے۔ کالی چپل میں گرد آلود سے کالے کالے پاؤں، شکنوں بھرا لباس، گہری سانولی رنگت۔ انہوں نے پرچی بنوانے کے لیے آگے بڑھنا چاہا تو خاتون نے عجیب طرح سے انہیں گھورا، گویا کہہ رہی ہوں ’’رہنے دو، میں کرلوں گی، مجھے سب آتا ہے‘‘۔ اور آگے بڑھ گئیں۔
اچانک شور سا اٹھا۔ چار نقاب پوش ڈاکو اندر داخل ہوئے اور سیدھا پیسوں کے کاؤنٹر پر جا دھمکے۔ خاتون کیشیر چیخنے لگی۔ ایک ڈاکونے غرا کر اسے خاموش کردیا۔ کھڑکی کے باہر کھڑی خواتین بھاگنے لگیں۔ دوسرا ڈاکو چلاّیا ’’کوئی نہ ہلے ورنہ‘‘… یہ کہہ کر ایک فائر جھونک دیا جو دیوار پر لگی گھڑی پر جا لگا اور وہ زمین پر آرہی۔گویا اب ڈاکوؤں نے وقت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہو۔ اس کا دل حلق میں آگیا۔
تمام خواتین اپنے مردوں کے پیچھے چھپ رہی تھیں، پر وہ کیا کرتی! اس کے میاں تو باہر گاڑی میں تھے۔ خواتین بھی خوب ہوتی ہیں۔ یوں تو مردوں کے برابر بلکہ ان سے آگے ہی قدم بڑھاتی ہیں مگر اونچ نیچ ہوجائے تو مرد یاد آجاتے ہیں۔ ڈاکوؤں نے پوزیشن سنبھال لی اور عورتوں کے پرس خالی کرانے اور موبائل چھیننے لگے۔ وہ آیت الکرسی پڑھنے لگی۔ سب کی طرح اس نے بھی اپنا موبائل ڈاکو کی طرف بڑھا دیا۔ ایک ساتھ سارے موبائل پکڑنے کے چکر میں کچھ گر بھی گئے تو ساتھ کھڑے بچے نے دو موبائلوں پر پاؤں رکھ دیے۔
اب انگوٹھیوں اور بالیوں کی باری تھی۔ وہ بھی ساتھ لائے بیگ میں جمع کرلی گئیں۔ ایک ڈاکو نے دیکھا ایک عورت کا پرس اس کے پاس ہی رہ گیا تھا، وہ اس کی طرف بڑھا۔ خاتون نے مضبوطی سے پکڑلیا ’’نہیں دوں گی… اس میں میری بی سی ہے، بقرعید کے لیے ڈالی تھی۔‘‘
ڈاکو نے ہاتھ مروڑ دیا۔ وہ چلاّئی۔ یہ دیکھ کر اچانک کالے ہاتھوں والے آدمی نے ڈاکو کو پوری قوت سے دھکا دے دیا۔ ڈاکو کا پستول دور جاگرا۔ ایک عورت نے جلدی سے پاؤں سے گھسیٹ کر عبائے سے چھپا لیا۔ ادھر ڈاکو ماحول بدلتا دیکھ کر بھاگنے کی تیاری کرنے لگے۔ باہر پولیس وین سائرن بجاتی گزر رہی تھی۔ ڈاکو گھبرا گئے۔ پستول ڈھونڈنے کا وقت نہ تھا، گرتے پڑتے باہر نکلے اور بائیکوں پہ بیٹھ کر پستول لہراتے بھاگ گئے۔
ان کے جانے کے بعد کمرہ نمبر نو کھلا۔ وہی اسسٹنٹ جھانکی ’’شکر ہے چلے گئے‘‘۔ پھر جیسے سب کو ہوش آگیا۔ عورتیں رونے لگیں، کوئی پانی سے حلق تر کرنے لگا۔
’’ارے میری تولے بھر کی بالیاں تھیں…‘‘کوئی بولی ’’بچوں کی فیس کے پیسے تھے‘‘۔ سب ایک دوسرے کو اپنا اپنا نقصان بتانے لگے۔ مگر ایک اٹھائیس تیس سالہ سانولی رنگت کی لڑکی ساکت بیٹھی تھی، اس کی ساتھی نے کندھا ہلایا ’’نمرہ! کیا ہوا، کچھ تو بولو۔‘‘
بس پھر نمرہ سسک سسک کر ایسا روئی کہ سب اپنا دکھ بھول گئے۔ ایک عمر رسیدہ خاتون پوچھنے لگیں ’’ایسا کیا لے گیا ظالم، جو تم یوں تڑپ رہی ہو؟‘‘
اس کی ساتھی نے کہا ’’آنٹی! وہ…وہ ڈاکو اس کی انگوٹھی لے گیا ہے۔‘‘
خاتون نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ’’ارے بیٹا! ایک انگوٹھی ہی تو تھی، میری بچی! اللہ اور دے دے گا۔‘‘
اچانک نمرہ چپ ہوگئی۔ خلا میں دیکھتے ہوئے بولی ’’نہیں مجھے وہی چاہیے۔‘‘ وہ مستقل کانپ رہی تھی۔
’’اے بیٹا! ایک انگوٹھی کے لیے جان دے دو گی!‘‘خاتون نے کہا تواس کی ساتھی نے بتایا ’’آنٹی! نمرہ کی منگنی کی انگوٹھی تھی۔ اصل میں یہ اس کی تیسری منگنی تھی اور اب…‘‘ وہ جملہ پورا نہ کرسکی۔ روتی ہوئی نمرہ کا ہاتھ پکڑ کر ڈاکٹر کو دکھائے بغیر ہال سے باہر چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعدکمرہ نمبر نو کا دروازہ کھلا۔ اب تو اسی کا نام پکارا جارہا تھا مگر آواز جیسے بڑی دور سے آرہی تھی۔ وہ بہ مشکل کرسی سے اٹھی اور بوجھل دل کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
nn