ڈاکٹر معین قریشی (مرحوم) کی رہائش گاہ پر 40 واں یکجہتی مشاعرہ منعقد ہوا۔ یہ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے دور میں ایک بجے دن مشاعرے کا آغاز ہوا جس کی صدارت محمود شام نے کی۔ مہمانوں میں یونس حسنی اور سحر انصاری شامل تھے۔ عنبرین حسیب عنبر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ حافظ ممتاز عباسی نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے شبیر بھٹی نے نعتیہ کلام پیش کیا۔ ڈاکٹر معین قریشی کے صاحب زادے فہیم قریشی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ان کے والد ادیب‘ صحافی اور تنقید نگار تھے‘ ان کی متعدد کتابیں اردو ادب کا حصہ ہیں۔ وہ زندگی بھر زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ انہوں نے آج سے چالیس برس قبل اپنے گھر پر یکجہتی مشاعرے کا آغاز کیا تھا جس میں زندگی کے مختلف شعبوں کے اہم افراد شریک ہوتے تھے اس تقریب میں مہمانوں کی تواضع کے لیے وہ پائے پکواتے تھے۔ ہم نے ان کی روایت برقرار رکھی ہے۔ محمود شام نے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کی بھرپور شعری نشست کسی بھی عالمی مشاعرے سے کم نہیں۔ ڈاکٹر مبین قریشی کے اہل خانہ قابل مبارک باد ہیں کہ وہ ڈاکٹر معین قریشی کے انداز میں ادبی تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے بھی گیٹ ٹو گیدر کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ یہ تہذیب ہے کہ ہم مشاعرے ترتیب دیتے ہیں کیوں کہ شاعری ہماری ذہنی غذا ہے ہر شاعر اپنے معاشرے کے عروج و زوال لکھتا ہے۔ مشاعروں کا انعقاد ایک مستحکم ادارہ ہے جو تنظیمیں یا جو لوگ مشاعرے کرا رہے ہیں وہ شعر و سخن کی خدمت کر رہے ہیں۔ مشاعروں میں سنائی جانے والی شاعری زیادہ دیر زندہ نہیں رہتی لیکن کتابی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی اور وہ شاعری بھی زندہ رہتی ہے جس میں معاشرے کے زخم بولتے ہیں جو شاعر زمینی حقائق لکھ رہے ہیں وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ اس مشاعرے میں محمود شام‘ پروفیسر سحر انصاری‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ فراست رضوی‘ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ نسیم نازش‘ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری‘ ریحانہ روحی‘ اختر سعیدی‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ خالد میر‘ شاعر علی شاعر‘ مرزا عاصی اختر‘ صفدر علی انشا اور خالد پرویز نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس پروگرام میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی جو ہر اچھے شعر پر داد و تحسین سے نواز رہی تھی۔ مشاعرے کے بعد یکجہتی مذاکرے کی صدارت لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر(ر) نے کی انہوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر معین قریشی کے دوست ہیں‘ انہوں نے ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا ہے‘ میں ان کی ہر کتاب کی تقریب پزیرائی میں شامل ہوا ہوں۔ وہ زندہ دل انسان تھے اور بلند قامت قلم کار تھے۔ انہوں نے زندگی بھر جہالت کے اندھیروں میں چراغِ علم و فن روشن کیے۔ ان کی تحریروں سے معاشرتی اصلاح کا پہلو نکلتا ہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین میں سیاسی اور معاشرتی مسائل پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے وہ اس انداز میں طنز و مزاح لکھتے تھے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا ملک پاکستان اپنے قیام کے وقت کے آج تک بے شمار مشکلات و مسائل سے نبرد آزما ہے‘ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیں لیکن ہم ان کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم جب تک متحد رہیں گے ہمارا بھرم قائم رہے گا جس دن ہم اختلافات کا شکار ہو گئے ہم تباہ ہو جائیں گے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنے ملک اور قوم کی خدمت کرتے رہیں۔
بزمِ نشاط الادب کے زیر اہتمام مشاعرہ اور تقریب پزیرائی
بزمِ نشاط الادب کراچی کے زیر اہتمام عابد شیروانی ایڈووکیٹ کی رہائش گاہ گلستان جوہر کراچی میں قائم شدہ علامہ اقبال اسٹوڈیو میں فیروز ناطق خسرو کی 2023ء میں شائع ہونے والی چار کتب ’’برگر کی جڑیں‘‘ (افسانے) ’’گئے سال کی ڈائری‘‘ (نظمیں)‘ ’’دل کے بند دریچے‘‘ (نظمیں) اور ’’میری معصوم شاہ بانو‘‘ (نظمیں) کی تعارفی تقریب اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا اس پروگرام کے دو حصے تھے جن کی صدارت فیروز ناطق خسرو نے کی۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار اور زیب اذکار حسین مہمانانِ خوصی تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں زاہد حسین جوہری اور حمیرہ گل تشنہ شامل تھے۔ عابد شیروانی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ رانا خالد محمود نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی جب کہ رفیق مغل ایڈووکیٹ نے نعت رسولؐ پیش کی۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیروز ناطق خسرور 1962ء سے شاعری کر رہے ہیں۔ ان کی اب تک دس کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں 6 شعری مجموعے ہیں۔ انہیں شاعری ورثے میں ملی ہے ان کے والد بھی قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا دیوان فیروز ناطق خسرو نے شائع کرایا ہے۔ عابد شیروانی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ نشاط الادب کے تحت ہم ادبی پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔ ہماری تنظیم کا منشور یہ ہے کہ ہم شعر و سخن کی خدمت کریں‘ جہالت کے اندھیروں میں علم کے چراغ روشن کریں۔ ہم نے علامہ اقبال کی شخصیت اور فن پر مطالعاتی اور تنقیدی کام کرنے کے لیے علامہ اقبال اسٹوڈیو قائم کیا ہے جس میں ہم نے علامہ اقبال کی مختلف جہتوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیروز ناطق خسرو کی شاعری میں مختلف پھولوں کی خوشبو شامل ہے‘ ان کے اشعار حالتِ سفر میں ہیں‘ ان کے افسانے بہت شان دار ہیں۔ ان کی شاعری میں زمانے بھر کے مسائل کے ساتھ غم جاناں بھی نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں عصری حسیت بھی بہ درجہ اتم موجود ہے وہ جدید لفظوں کا استعمال کرتی ہں ان کی نظمیں زندگی کے مختلف روّیوں کی عکاس ہیں۔ زیب اذکار حسین نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو جیسے فن کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ ان کی نثر میں بھی زندگی رواں دواں ہے‘ ان کے افسانوں میں پاکستان سے محبت نمایاں ہے۔ زاہد حسین جوہری نے کہا کہ فیروز ناطق کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا ہے‘ ان کا شعری وجدان ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے اشعار میں تنوع پسندی اور انفرادیت ملتی ہے۔ فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ وہ بزم نشاط الادب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میری کتابوں کی تعارفی تقریب منعقد کی انہی کتابوں کی تعارفی تقریب بزم یارانِ سخن کراچی بھی منعقد کر چکی ہے۔ قلم کاروں کی پزیرائی سے حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ زیادہ توانائی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس موقع پر فیروز خسرو نے اپنا کلام پیش کیا ان کے بعد راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ زیب اذکار حسین‘ زاہد حسین جوہری‘ حمیرہ گل تشنہ‘ حنیف عابد‘ دلشاد احسن ایڈووکیٹ‘ مقبول زیدی‘ رانا خالد محمود‘ ساجد سلطانہ‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ شاہین برلاس ‘ رمزی آثم‘ رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ شرزین فراز‘ حنا ایڈوانی ایڈووکیٹ‘ فرح کلثوم ایڈووکیٹ‘ کاوش فاطمی‘ کشور عروج‘ سرور چوہان‘ نادیہ خان اور ہما ساریہ نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔