آج نذیر بھائی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں‘ انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی دِلی مراد پوری ہو گئی ہو۔ چہرے سے مطمئن‘ ہشاش بشاش نظر آتے۔ نذیر بھائی گنگناتے ہوئے جوں ہی میرے قریب سے گزرے‘ میں نے پوچھا ’’بڑے خوش نظر آرہے ہو؟‘‘
کہنے لگے ’’بات ہی خوشی کی ہے۔‘‘
’’کیسی خوشی… کیا لاٹری نکل آئی ہے؟‘‘
’’یہی سمجھ لو! ابھی میں جلدی میں ہوں پھر بتاؤں گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ میں مزید کھوج لگاتا‘ نذیر بھائی ہوا کے گھوڑے پر سوار ایسے نکلے جیسے ٹھہرے ہی نہ تھے۔
میری بھی عجیب عادت ہے‘ میں جس بات کی کھوج میں لگ جاؤں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہوں۔ ایسے مزاج کا مالک نذیر بھائی کی خوشی کا راز جانے بغیر بھلا کیسے چین سے بیٹھ سکتا تھا؟ بس اسی گتھی کو سلجھانے کے لیے میں اکبر بھائی کے پاس جا پہنچا۔
اکبر بھائی اور نذیر بھائی چوں کہ دہائیوں کے دوست ہیں اس لیے میں نے نذیر بھائی کی تمام کیفیت اُن کے سامنے رکھ دی۔
میری باتیں سن کر بلکہ یوں کہیے کہ میرا اتاولا پن دیکھ وہ مسکراتے ہوئے بولے’’وہ صرف خوش ہی نہیں‘ بلکہ خوشی میں لڈیاں ڈال رہا ہے۔‘‘
’’اسی لیے تو میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ جان سکوں کہ ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے؟‘‘ میں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے نہیں! ایسی کوئی خاص بات نہیں‘ اُن کے محلے کی سیوریج لائن بند تھی سیوریج کا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے سارا علاقہ تالاب کا منظر پیش کر رہا تھا۔ شدید تعفن کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار تھا‘ ہر طرف گندگی کی وجہ سے علاقہ مکین مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے تھے خاص طور پر چھوٹے بچوں میں دست اور الٹی کی شکایت کی عام تھی۔ کل چوں کہ بند سیوریج لائن کھول دی گئی ہے بس اسی لیے نذیر کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں۔‘‘
’’او ہو…! اچھا تو یہ چکر ہے۔ لیکن بند گٹر لائن کھلنے پر دھمال کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ ایک مسئلہ تھا حل ہوگیا اس پر یوں جشن منانا سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘
’’تم اپنے دماغ پر زور کیوں دے رہے ہو‘ جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ جو علاقہ تین ماہ سے سیوریج کے پانی میں گھرا ہو اور کوئی پرسان حال نہ ہو‘ ایسے علاقوں کے مکین ابتر صورت حال کی درستی کے لیے کی جانے والی کارروائی پر بھی خوشیاں منانے لگتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی جانب سے کیے جانے والے ایسے چھوٹے چھوٹے کام بھی ان کے لیے راحت کا باعث ہوا کرتے ہیں۔ مسئلہ وہ نہیں جو حل ہو گیا اور کتنے دن کے لیے ہوا یہ بھی ایک سوال اپنی جگہ ہے‘ مسئلہ تو یہ ہے کہ میرا دوست نذیر سیوریج لائن کی درستی پر آخر کس کس کا شکریہ ادا کرے؟ بند گٹر کھلوانے کا سہرا کس کے سر سجائیں؟ کل سے اب تک نہ جانے کتنے بھائی نہ جانے کتنے پارٹی ذمہ داران محض یہ بتانے یا باور کرانے کے لیے نذیر کے گھر کا طواف کر چکے ہیں کہ یہ کارنامہ اُن کا ہے۔ سیوریج لائن کی درستی انہی کی شب روز محنت کا نتیجہ ہے۔ کل جب سیوریج کی بند لائن کھولی جا رہی تھی تو اُس وقت اتفاق سے میں وہیں موجود تھا‘ یعنی یہ سارا تماشہ میرے سامنے کا ہی ہے۔ کوئی گندے پانی میں کھڑے ہوکر تصویریں بنانے میں مصروف تھا تو کوئی کام کرتے عملے کی وڈیو بنارہا تھا۔ ایک ٹولے نے تو پانی کھنچنے والی مشینوں پر اپنی جماعت کے جھنڈے تک لگا رکھے تھے۔ اس ساری گہما گہمی میں اہلِ محلہ کے لیے یہ سمجھنا‘ بلکہ اس کی شناخت کرنا انتہائی مشکل تھا کہ آخری یہ کام کروا کون رہا ہے؟ اور ویسے بھی اتنے بڑے پراجیکٹ پر کام کرنے والے ’’مسیحاؤں‘‘ میں سے ’’حقیقی مسیحا‘‘ کی تلاش ناممکن ہوتی ہے۔ اس وقت ان کی حرکتوں کو دیکھ کر میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا خیر اپنی اپنی پارٹیوں کی تشہیر کرتے افراد میں سے ایک شخص اسی دوران میرے قریب آیا اورمجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’بھائی صاحب! دیکھ رہے ہیں آپ یہ کوئی ایک دن کامسئلہ نہیں یہاں مہینوں سے گندا پانی بہہ رہا ہے یہ تو ہماری پارٹی کی کوشش ہے جس کی وجہ سے کام ہو رہا ہے ورنہ وہ جو اس وقت کریڈٹ لینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں ‘ اپنے دورِ اقتدار میں ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کیا‘ صرف پیسہ ہی کھایا ہے‘ سرکاری فنڈزکو اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتے تھے‘ دیکھو اب کس طرح علاقہ مکینوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے امنڈ آئے ہیں… کیسے عوام کے سامنے ہیرو بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ بے وقوف اتنا بھی نہیں جانتے کہ اب ان کا کوئی بازار نہیں‘ لوگ اب ان کی باتوں میں آنے والے نہیں کیوں کہ سب نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس بار ان کے جھانسے میں آنے کے بجائے ہمیں ووٹ دیں گے۔ عوام جان چکے ہیں کہ ہمارا لیڈر وہ واحد لیڈر ہے جس نے اپنی قوم کے بہترین مستقبل کی خاطر سب سے پہلے اُس وقت اس پارٹی کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا جب یہ انتہائی طاقت ور تصور کیے جاتے تھے۔ ان کی مرضی کے بغیر نہ صرف کراچی بلکہ پورے صوبہ سندھ میں ایک پتا تک نہیں ہل سکتا تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہمارے لیڈر نے صرف اپنی قوم ہی کی بات کی ہے۔‘‘
وہ شخص اپنی پارٹی کی محبت میں لمبا چوڑا بھاشن دے کر گیا ہی تھا کہ دوسرا مسلط ہو گیا ۔ اور آتے ہی وکھرے انداز میں کہنے لگا‘ بلکہ پوچھنے لگا ’’کیا کہہ رہا تھا یہ؟ اپنا منجن بیچ رہا ہوگا… گھر میں کوئی پوچھتا نہیں اور چلا سیاست دان بننے کو۔ یہ کام ہم کروا رہے ہیں ساری قوم جانتی ہے‘ ہم ہی اس شہر کے اسٹیک ہولڈر ہیں‘ ہمارا میئر اور یو سی چیئرمین چلے گئے تو کیا ہوا قومی و صوبائی انتخابات ہوتے ہی ایک مرتبہ پھر ہم ہی کامیاب ہوں گے کیوں کہ ہم ہی شہر کے مسائل کو جانتے ہیں اور ہمارے پاس ہی ان کا حل بھی ہے۔ تبھی تو سرکاری عملہ ہماری بتائی ہوئی جگہوں پر ہی کام کر رہا ہے… بے فکر رہیں آج یہ علاقہ بالکل صاف ہو جائے گا، بس اتنا خیال رکھیں‘ بلکہ سارے محلے کو بتا دیں کہ ووٹ صرف اور صرف ہمارے امیدوار کو ہی دیں۔ آپ کا ووٹ ہی آپ کی تقدیر بدل سکتا ہے… ہم آپ کے اپنے ہیں‘ غیروں کو ووٹ ڈالنے سے ووٹ ضائع ہوگا… لہٰذا 8 فروری کو ہمیں ہی کامیاب کرائیں۔‘‘
کتنے افسوس کی بات ہے کہ انتخابات کی تاریخ قریب آتے ہی ایک علاقے کے چند گٹروں کی صفائی پر اس قدر سیاست کی جارہی ہے اس پر ماتم کے سوا اور کیا‘ کیا جا سکتا ہے۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں‘ بلکہ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بعض پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنے کارکنان کے ذریعے پہلے خود ہی گٹروں میں ریتی سے بھری بوریاں ڈلواتے ہیں بعدازاں علاقوں میں بہتے سیوریج کے پانی کو ہدف بنا کر سیاسی دکان چمکانے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس شہر کے باسی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔
میرا دوست نذیر جس محلے میں رہائش پذیر ہے وہاں گندگی کے ڈھیرے اور تباہ حال سیوریج سسٹم صوبائی حکومت خصوصاً بلدیہ کراچی کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس محلے کے رہنے والے خوب جانتے ہیں کہ عارضی طور پر کیے جانے والے اقدامات عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں… وہ جان چکے ہیں کہ جنہوں نے اپنے پندرہ سالہ دور اقتدار میں بھرپور اختیارات کے باوجود کراچی کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا وہ کسی طرح بھی ان کے مسیحا نہیں ہو سکتے یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ ہونے والے انتخابات میں صرف نذیر کا علاقہ ہی نہیں بلکہ سارا کراچی ہی ایسے لوگ سے اعلانِ لاتعلقی کرتا دکھائی دیتا ہے… ان کا اعتماد ایک ایسی جماعت پر ہو رہا ہے جس کے نمائندے نہ صرف اپنے قول کے پکے ہیں بلکہ یہ وہ واحد جماعت ہے جس نے کراچی کی مظلومیت اور اس کو حقوق دلانے کا مقدمہ پورے پاکستان کے سامنے رکھ دیا ہے… کراچی والے یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ یہی جماعت اس شہرِ دل کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور اس کے حقوق کے لیے حقیقی جہدوجہد کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اس جماعت نے نہ صرف عوام کو ’’کے الیکٹرک‘‘ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی بلکہ پانی چوروں اور گیس کے بلوں پر لگانے جانے والے عوام دشمن ٹیکسوں پر بھی آواز بلند کی لہٰذا جماعت اسلامی ہی واحد جماعت ہے جو پاکستان کو ’’قائد کا پاکستان‘‘ بنا سکتی ہے۔