ـ8فروری کے انتخابات کے لیے پوری فضا جماعت اسلامی کے حق میں بنی ہوئی ہے
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر… ایک شاندار ماضی کا حامل ہے۔ یہ شہر اپنے تاریخی مقامات، ثقافتی تنوع اور تجارتی اہمیت کے لیے مشہور ہے۔ کراچی کی اہمیت اس کی جغرافیائی حیثیت سے بھی ہے۔ یہ شہر بحیرہ عرب کے کنارے واقع ہے اور اس کا ساحلی خطہ بہت وسیع ہے۔کراچی… جہاں تعلیم ہے، شعور ہے، وسائل ہیں، ملک کی مجموعی آبادی کا 10 فیصد کراچی میں آباد ہے، اس شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں ہر خطے کے باشندے آباد ہیں، یہ قائداعظم کا شہر ہے، اس کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے، یہ ملک کے محصولات کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔
کراچی میں ملک کی 60 فیصد صنعتیں موجود ہیں۔کراچی کی تاریخ قدیم دور سے ملتی ہے۔ یہ شہر ایک زمانے میں اہم تجارتی مرکز تھا۔ یہاں سے مصالحے، اون، اور دیگر سامان دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا تھا۔کراچی کی ثقافت بہت متنوع ہے۔ یہاں مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کراچی کے ادیبوں اور شاعروں نے تحریکِ پاکستان میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے اپنی ادبی تخلیقات کے ذریعے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا۔ سندھ میں سیاسی سرگرمیوں کا سب سے پہلا مرکزکراچی رہا ہے۔ سب سے پہلے اخبارات بھی کراچی سے ہی جاری ہونا شروع ہوئے۔ ان اخبارات کا سندھ کے مسلمانوں میں آزادی کا شعور پیدا کرنے، اور علمی اور تعلیمی دنیا میں بھی ہندوئوں کے مقابلے میں شعور دینے میں اہم کردار رہا ہے۔ یہ مزاحمت کرنے والا اور تحریکیں پیدا کرنے والا شہر ہے۔ اس کی تاریخ سے مولانا محمد علی جوہر کا نام جڑا ہے۔ اُن پر 26 ستمبر 1921ء کو خالقدینا ہال میں بغاوت کا مقدمہ چلا جس کے بعدکراچی دنیا کی نظر میں آیا۔ اسی طرح تحریکِ خلافت نے کراچی کی ادبی زندگی میں بڑا حصہ ڈالا۔ اس وقت کراچی دنیا کے گنجان آباد شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی قیامِ پاکستان کے وقت صرف چند لاکھ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی شہری منصوبہ بندی ابتدائی طور پر 10 لاکھ کی آبادی کے لیے کی گئی تھی۔ پھر اُس کے بعد 1970ء کی دہائی میں جب پلاننگ ہوئی تو وہ 30لاکھ کی آبادی کے لیے تھی۔ آج کراچی کی آبادی کا تناسب وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی آبادی گوکہ مردم شماری میں کم ہے لیکن ساڑھے تین کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ماضی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ قائداعظم کے مزار کے قریب لوگ شکار کھیلنے آتے تھے اور گورا قبرستان کے بعد شہر کی آبادی ختم ہوجاتی تھی۔ لیکن آج کا کراچی مختلف ہے، اور یہ اب اتنی وسعت اختیار کر گیا ہے کہ اس کی حدود ایک طرف حب یعنی بلوچستان سے جا ملتی ہیں تو دوسری طرف ٹھٹہ اور نوری آبادکو چھو رہی ہیں۔ اور تو اور، اب مافیا نے ہمارے سمندر سے بھی زمین چھین لی ہے۔ کراچی میں تاریخی پہاڑیاں ہوا کرتی تھیں، انہیں بھی ان لوگوں نے بیچ ڈالا، اور لوگ اب یہاں رہائش پذیر ہیں۔ اگر یہ برقرار رہتیں تو آج کراچی کی خوبصورتی اور رعنائی پر رشک کیا جاسکتا تھا۔ اب یہ شہر Own نہ کیے جانے پر لاتعداد مسائل کا شکار ہے۔ کراچی آلودگی کے مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ گاڑیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے ہوا اور صوتی آلودگی ہوتی ہے۔ اس کی کئی صنعتیں ایسی ہیں جو آلودگی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اسی طرح فضلہ کے بہتر انتظام کے فقدان کی وجہ سے آلودگی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے شہریوں کو سفر کرنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ عوامی نقل و حمل کا نظام ناقص ہے۔ اس لیے شہریوں کو زیادہ تر سفر اپنی گاڑیوں پر کرنا پڑتا ہے۔ سڑکوں کی حالت خراب ہے۔ اس سے گاڑیوں کی رفتار کم ہوتی ہے اور سفر کا وقت بڑھتا ہے۔ ٹریفک جام کی وجہ سے شہریوں کے وقت اور پیسے کی بربادی ہوتی ہے، تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی میں رکاوٹ پیش آتی ہے۔
اس وقت ملک کا یہ سب سے اہم شہر پھر جرائم پیشہ افراد کے نشانے پر ہے، آئے دن لوگ اپنی قیمتی چیزو ں سے محروم ہوہے ہیں۔ اس وقت کراچی کے لوگ کے الیکٹرک کی اذیت کا شکار ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ بجلی کی طلب اس کی رسد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اب گیس کے مسائل بھی ہیں اور بل دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ یہاں پانی نہیں ہے، شہریوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل کرنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ شہر میں پانی کی فراہمی اس کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ پانی سے متعلق منصوبے تعطل کا شکار ہیں اور کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ شہری کریں تو کیا کریں؟ بجلی اور پانی بنیادی ضرورت ہیں اور یہ دونوں، ریاست دینے میں ناکام ہے جس کی اذیت سے شہریوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے 1980ء کی دہائی کے بعد اس شہر کی یہی تاریخ ہے۔ شہر اجڑا پڑا ہے اور کوئی پرسانِِ حال نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔ پیپلز پارٹی 15سال سے سندھ پر مسلط ہے، کراچی کی تباہی و بربادی میں سب سے زیادہ حصہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا ہی رہا ہے، اور افسوس کہ پی ٹی آئی نے بھی ساڑھے تین سال میں کراچی کے لیے نہ صرف عملاً کچھ نہیں کیا بلکہ ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کیا اور 2017ء میں نواز لیگ کے دور میں ہونے والی جعلی مردم شماری کو حتمی شکل دی جس میں کراچی کی آدھی آبادی کو غائب کردیا گیا۔ اس طرح اہلِ کراچی کی حق تلفی، مسائل اور تباہی و بربادی کی ذمہ داری پیپلز پارٹی، نواز لیگ، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے۔ اس پورے حکمران ٹولے اور مافیائوں سے نجات حاصل کیے بغیر اہلِ کراچی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں نہ حالات بدل سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن بار بار کراچی کے عوام میں شعور پیدا کررہے ہیں، اُن کے حقوق کے لیے لڑرہے ہیں۔ اب اس میں کوئی دو رائے نہیں اور سیاسی دانشوروں اور ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ کراچی کو بدلنا ہے، اگر لوگوں کو اپنے بچوں کو شاندار اور اجلا مستقبل دینا ہے تو خود کو بھی بدلنا ہوگا، صحیح اورغلط کو پہچاننا ہوگا، ظالم کو سامنے لانا ہوگا اور حق کا ساتھ دینا ہوگا۔ اور اس پس منظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ جماعت اسلامی شہر کراچی کے لیے امید اور حق کی آواز ہے۔ یہ پورے سماج کا قرض ہے جو جماعت اسلامی اور اس کے پُرعزم کارکنان ادا کررہے ہیں۔ اور وہ یہ سب کچھ اس شہر کی حالتِ زار کو درست کرنے، اس کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانے اور اس کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپنی اب تک کی جدوجہد سے ثابت کیا ہے کہ وہی اس شہر کو اس کا حق دلانے میں سنجیدہ ہے، اور شہر کو ’’اون‘‘ کرتی ہے۔ اسی لیے کراچی میں 8فروری کے انتخابات کے لیے پوری فضا جماعت اسلامی کے حق میں بنی ہوئی ہے، اور کراچی کے عوام کی کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی ہو ان میں سے اکثر کو بار بار یہ کہتے سنا جارہا ہے کہ کراچی کے لیے ووٹ جماعت اسلامی کو ہی دینا ہے کیونکہ کراچی کو دوبارہ چمکتا دمکتا کراچی جماعت اسلامی ہی بنا سکتی ہے اور حل جماعت اسلامی ہی ہے، اس نے ماضی میں یہ کرکے بھی دکھایا ہے۔ اور آج بھی اس کے بلدیاتی نمائندے جہاں بھی موجود ہیں محدود وسائل کے ساتھ پوری دلجمعی کے ساتھ کام کررہے ہیں اور لوگوںکے درمیان موجود ہیں۔ کراچی کے شہری اپنے اور کراچی کے حق کی اس جدوجہد میں گلی محلّوں کی سطح پر جماعت اسلامی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں، امیر جماعت اسلامی کراچی کا جگہ جگہ پُرتپاک استقبال ہورہا ہے، اورلوگ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو خاص طور پر پہچان چکے ہیں، بس اب یہاںکے نوجوانوں کو بھی صرف ووٹ دے کر نہیں بلکہ اِن کراچی دشمن قوتوںکے ہر ظلم کے خلاف مزاحمت کے ذریعے ہاتھ روکنے ہوں گے،گلی محلوں میں ان پر، ان کی جعل سازی پر نظر رکھنی ہوگی۔حقیقت یہ ہے کہ کراچی انتخابات سے بدلے گا،اور صرف اور صرف اسی طرح بدلے گا کہ کراچی کے لوگ 8فروری کو ترازو پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اعتماد کے ساتھ مہر لگائیں۔