دیپالی نے ادما کے ہاتھ سے خط لیا اور پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ ادما دیبی دریچے سے باہر دیکھنے لگیں۔ باغ پر جاڑوں کی دھند چھا چکی تھی۔ دیپالی نے خط ونڈو سیٹ پر رکھ دیا۔ اور چپکی بیٹھی رہی۔ ادما نے مڑ کر اس پر نظر ڈالی۔
’’مجھے خود تعجب ہے کہ ایک ناتجربہ کار اور کمسن لڑکی پر اتنی بڑی ذمہ داری ریحان نے کس طرح ڈال دی۔ ریحان کے اس خط سے ظاہر ہے کہ وہ تم کو اچھی طرح جانتا ہے اور اسے یقین ہے کہ صرف تم ہی یہ کام باآسانی کرسکتی ہو…‘‘
’’مگر ادما دی… ریحان دا مجھے بالکل نہیں جانتے… میں تو آج تک ان کی شکل کیا تصویر بھی نہیں دیکھی‘‘۔
’’تم کو مجھ سے جھوٹ بولنے کی قطعاً ضرورت نہیں‘‘۔
’’ادما دی۔ میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں۔ ریحان دا کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے‘‘۔
ادما پھر جھلا گئیں۔ ’’تم مجھے سکھلائو گی کہ انڈر گرائونڈ کا کام کس طرح کیا جائے…؟ یا ریحان کس طرح کی ہدایات کس کو دے؟ میں ریحان کو بہت قریب سے جانتی ہوں۔ یہ بھی مت سوچ بیٹھنا کہ وہ کوئی رومینٹک ہیرو ہے۔ گو میں جانتی ہوں کہ سارے بنگال میں کالج کی لڑکیاں بہت دنوں سے اس پر زہر کھا رہی ہیں… خیر… تو یاد رکھو کہ وہ رومینٹک نہیں ہے۔ بے حد پریکٹیکل اور انتہائی سمجھ دار انسان ہے۔ وہ کوئی ڈرامہ نہیں کھیل رہا ہے۔ دو مرتبہ اس کے عزیز دوست اس کو شدید دھوکا دے چکے ہیں۔ اس لئے وہ بے انتہائی محتاط ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود اس نے تم پر بھروسہ کیا ہے۔ سارے بنگال کی نوجوان لڑکیاں…‘‘ انہوں نے سپاٹ، مضبوط آواز میں دہرایا… ’’ریحان الدین احمد پر عاشق ہیں۔ مگر اس کو جانتی صرف میں ہوں۔ صرف میں اس کی رفیق اور دوست ہوں۔ مجھ سے زیادہ کوئی اسے نہیں جانتا۔ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں مجھ سے جونیئر تھا۔ مگر لندن میں بھی ہم دونوں ایک ہی کالج میں تھے۔ اکٹھے ہم نے وہاں کی تحریک میں کام کیا ہے۔ وہ رپورٹر کی حیثیت سے اسپین بھی گیا۔ مجھے یہی افسوس مرتے دم تک رہے گا کہ میں محاذ پر نہ جاسکی۔ خیر… تو اس نے لکھا ہے کہ تم سیدھی اور قابل اعتماد ہو۔ ریحان انسان کو خوب پہچانتا ہے۔ پہلی نظر میں آدمی کو پہچان لیتا ہے۔ امید ہے کہ اس نے تم کو پہچاننے میں بھی غلطی نہ کی ہوگی۔‘‘
’’مگر وہ تو مجھ سے کبھی…‘‘دیپالی نے کہنا شروع کیا اور پھر ڈر کر چپ ہوگئی۔
’’وہ تم کو پہچان سکتا ہے۔ مگر یاد رکھو کہ تمہارا اسے پہچاننا قطعی ضروری نہیں…‘‘ ادما دیبی نے بات ختم کی۔
کمرے کے ریشمی پردے آبشاروں کی طرح سرسرانے لگے۔ دفعتاً دیپالی کو بڑا بے تکا خیال اس وقت آیا۔ ادما دی کے پاس بھی بالوچر بوٹے دار ساریاں ہوں گی… ایک سے ایک نایاب…ذہن کیا کیا بھٹکتا ہے۔ اور میں ایک پُر خطر مہم پر جارہی ہوں۔
’’مجھے اپنے بارے میں تفصیل سے بتائو‘‘ ادما کی آواز دور سے اس کے کان میں آئی۔
’’کلاس کی بیک گرائونڈ…؟‘‘
’’ہاں…‘‘
’’مڈل کلاس…‘‘
’’ادما دیبی نے غور سے سننا شروع کیا۔ گویا اسپتال میں کیس ہسٹری سن رہی ہوں۔
’’تم نے کیا عمر بتائی تھی…؟‘‘
’’انیس سال اور اب تک سیکنڈ ایئر ہی میں ہوں‘‘۔ دیپالی نے تاسف سے کہا۔
’’وجہ…؟‘‘
’’میں بارہ سال کی تھی جب ماں مر گئیں… ان کو… کینسر ہوگیا تھا۔ بابا پٹنہ لے کر گئے۔ وہیں اسپتال میں مر گئیں۔ میں سب سے بڑی تھی۔ تینوں بھائی چھوٹے ہیں۔ اُن کی دیکھ بھال کے لئے میں نے اسکول چھوڑ دیا‘‘۔
’’…ہاں… ہاں کہے جائو…‘‘اُدما دیبی کُشنوں پر کہنیاں رکھ کر غور سے سنتی رہیں۔
’’بابا ماں پر عاشق تھے۔ ان کے مرنے کے بعد بجھ کر رہ گئے‘‘۔
’’پوئرمین‘‘
یک لخت دیپالی نے ادما پر نظر ڈالی۔ اور اسے خیال آیا۔ بابا کی بقیہ عمر بھی اسی طرح تنہا اور اُداس گزر جائے گی۔ کاش انہیں اُدما دی جیسی سمجھ دار اور درد مند عورت کی رفاقت میسر ہوسکتی۔ پھر اس نے بے ساختہ بڑے فخر اور پیار سے کہا۔ ’’میرے بابا بہت خوبصورت ہیں۔ دکھوں نے انہیں وقت سے بہت پہلے بوڑھا کردیا ہے۔ مگر اب بھی بہت اچھے لگتے ہیں… اور میرے کاکا… میرے کاکا تو بابا سے بھی زیادہ…‘‘ پھر اس کی آواز رندھ گئی۔
’’اتنی جذباتیت سے کام نہیں چلے گا۔ دیپالی سرکار…‘‘ ادما رائے نے درشتی سے کہا ’’تمہارے کاکا کو کیا ہوا…؟‘‘
’’پھانسی…‘‘دیپالی نے مضبوطی سے جواب دیا۔
’’اوہ… آئی ایم سوری…‘‘ ادما دیبی نے آہستہ سے کہا۔
’’کیا نام تھا تمہارے چاچا کا…؟‘‘
’’دنیش چندر سرکار…‘‘
’’گڈ گاڈ‘‘… اُدما دیبی سنبھل کر بیٹھ گئیں۔ ’’تم… تم دنیش چندر سرکار کی بھتیجی ہو؟‘‘
’’جی ہاں۔ وہ بابا کے اکلوتے چھوٹے بھائی تھے۔ جب 31ء میں ماں ریڈیم اسپتال میں تھیں تب کاکا کو دہشت پسندوں کے اس مشہور کیس میں پکڑ لیا گیا… بابا نے… بابانے پٹنے سے غفار گائوں جا کر ساری آبائی کھیتی باڑی بیچ کھونچ پٹنے کا ایک بڑا بیرسٹر کھڑا کیا (اسے یاد آیا بابا کہتے تھے کہ وہ شری پری توش کمار رائے کو کھڑا کرنا چاہتے تھے مگر ان کی فیس زیادہ تھی) مقدمہ چلتا رہا۔ مگر وہ بیرسٹر کاکا کو بچا نہ سکا۔ اور ان کو پھانسی ہوگئی۔ جس سال ماں مری ہیں، اس کے چھ مہینے بعد ہی کاکا کو پھانسی ہوگئی‘‘۔
’’تم کو یاد ہیں…؟‘‘
’’خوب اچھی طرح یاد ہیں۔ چھ سال پہلے ہی کی تو بات ہے‘‘۔ دیپالی کی آنکھوں میں آنسو اُمنڈ آئے۔ کمرے کا کلاک ٹک ٹک کرتا رہا۔ چند لمحوں بعد دیپالی نے کہا۔ ’’ادما دی بعض دفعہ صبح منہ اندھیرے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ جب ابھی پوری طرح اُجالا نہیں پھیلتا۔ اور پلنگ پر پڑے پڑے کھڑکی سے باہر اندھیرے آسمان کو دیکھ کر سوچتی رہتی ہوں، بالکل ایسے ہی وقت میں، پُو پھٹنے کے وقت میں، کاکا انقلاب اور ہندوستان کی آزادی کے نعرے لگاتے تختے پر چڑھ گئے تھے۔ اور میں خوب روتی ہوں اور سوچتی ہوں کاکا اور ان کے ہزاروں ساتھیوں کا خون رائیگاں نہ ہونے دوں گا…‘‘ وہ خاموش ہوگئی۔
سوئس کاٹج کی شکل کا کلاک ٹک ٹک کرتا رہا۔ اب رات کے پونے دس بج رہے تھے۔ دیپالی نے وقت پر نظر ڈالی اور جلدی جلدی کہنا شروع کیا۔ ’’کاکا کی شہادت کے بعد بابا کا دل دنیا سے بالکل اچاٹ ہوگیا۔ اگر ہم بچوں کا بکھیڑا نہ ہوتا تو وہ شاید سنیاس لے لیتے۔ مگر وہ مذہبی بھی نہیں ہیں۔ وہ کانگریس میں شامل تھے اور جیل بھی کاٹ چکے تھے، مگر لاڈلے بھائی کی موت کے بعد سے ان کو ایک عجیب طرح کاری ایکشن ہوگیا…‘‘
’’سیاست سے نفرت ہوگی؟‘‘
’’تقریباً… اب وہ دن بھر چپ چاپ کمرے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ غریبوں کا مفت علاج کرتے پھرتے ہیں۔ پریکٹس چلتی نہیں۔ بس اتنا کما لیتے ہیں کہ گھر چل جائے‘‘۔
’’تم ابھی کھیتی باڑی کی کیا بات کررہی تھیں؟‘‘
’’غفار گائوں کے نزدیک ہمارے یہاں مغلوں کی دی ہوئی زمینداری تھی۔ وہ بابا کے پرکھوں نے ناچ گانے اور شراب پینے میں اُرا دی۔ اس غصے میں کہ دولتے بنیوں کے آگے نہیں جھکیں گے…‘‘
’’فیوڈل ڈکیڈنس جو انیسویں صدی کے برطانوی بورژدانظام سے ٹکرا کر ہار گیا‘‘۔ ادما رائے نے سر ہلا کر کہا۔ دیپالی نے ذرا آنکھیں پھیلا کر انہیں دیکھا۔
’’اب تمہارے کنبے میں کون کون باقی ہے؟‘‘
’’تھوڑے سے رشتہ دار ہیں۔ وہ غفار گائوں میں چھوٹی موٹی سرکاری ملازمتیں کرتے ہیں۔ بابا کے ایک چچا زاد بھائی ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ چند سال ہوئے وہ ٹری نیڈاڈ ہجرت کر گئے۔ وہاں ہزاروں کما رہے ہیں۔ بس اور کوئی نہیں۔ ٹھاکر (دادی) ماں کا پچھلے سال انتقال ہوگیا۔ میری ماں کا میکہ سراج گنج میں ہے۔ وہ بھی ملازمت پیشہ لوگ ہیں۔ اور کیا بتائوں… ہاں۔ یہ ’’چندرکنج‘‘ ہماری کوٹھی کنبے کی خوشحالی کے زمانے میں ٹھاکر دا (دادا) نے بنوائی تھی۔ ٹھاکر دا کی زندگی ہی میں بابا اور کاکا قومی تحریک میں شامل ہو کر جیل یاترا کے لئے چلے گئے تھے۔ اس زمانے میں ہمارے یہاں ایسی غربت چھائی کہ بعض دفعہ رات کو مٹی کا تیل خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ صرف اسی امید نے ہم سب کو زندہ رکھا کہ انگریز سے چھٹکارا ملنے کے بعد دیس کے ان سارے اندھیرے گھروں میں اجالا ہوجائے گا‘‘۔
’’ایسا ضرور ہوگا… دیپالی… ایسا ضرور ہوگا…‘‘ اور اُدما رائے نے آہستہ سے کہا۔ ’’تم مایوسی کا شکار کبھی نہ ہونا‘‘
’’میں مایوس بالکل نہیں ہوں ادما دی…‘‘ دیپالی نے دفعتاً ہنس کر کہا۔
’’تم نے دوبارہ پڑھائی کیسے شروع کی؟‘‘
’’بابا کی ایک ہی سگی بہن ہیں۔ عمر میں ان سے بہت بڑی۔ چار سال ہوئے وہ بیوہ ہوگئیں۔ اُن کے شوہر فرید پور میں وکالت کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد پشی ماں ہمارے یہاں آگئیں۔ وہ لادلد ہیں۔ انہوں نے آن کر گھر سنبھال لیا۔ تو میں نے ہائی اسکول پاس کیا۔ اور کالج میں داخل ہوگئی۔ ساتھ ہی عباس الدین احمد کے ہاں جا کر سنگیت بھی سیکھتی رہی۔ میں بابا کی مدد کے لئے ڈاکٹری پڑھنا چاہتی تھی۔ لیکن بابا جانتے ہیں کہ ڈاکٹری کی تعلیم میں میرا جی بالکل نہیں لگے گا، اس لئے انہوں نے سائنس نہیں لینے دیا۔ اب اس جولائی میں وہ مجھے شانتی نکیتن بھیج رہے ہیں… ان کے دوست پروفیسر مرتضیٰ حسین کا بھی سخت اصرار ہے کہ میں شانتی نکیتن چلی جائوں…‘‘دیپالی نے پھر کلاک پر نظر ڈالی۔
’’تحریک میں کس طرح شامل ہوئیں؟‘‘ادما رائے کے سوالات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے۔
دیپالی پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’پھر وہ اسکول گرل گِگلز…‘‘ اُدما رائے نے غصے سے کہا۔
دیپالی نے گلے پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی۔ ’’اس کا قصہ بہت دلچسپ ہے اُدما دی۔ ایک روز ایک روز شام کے وقت‘‘۔
دفعتاً ادما رائے نے اس کی بات کاٹی۔ ’’تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے کاکا اگر زندہ رہ جاتے تو ہندوستان کے بہت بڑے مورخ بنتے؟‘‘
’’جی ہاں… میں نے ان کی کتاب کئی بار پڑھی ہے۔ مگر سمجھ میں نہیں آتی۔ بابا کہتے ہیں ابھی میرے سمجھنے کے لئے وہ موضوع ہی بہت ٹھوس ہے۔ بنگال کی اقتصادی تاریخ‘‘۔
’’تم تحریک میں کس طرح شامل ہوگئیں؟‘‘ اُدما دیبی نے سوال دہرایا۔
’’پچھلے سال میں ایک روز شام کو برآمدے میں اُکتائی ہوئی کھڑی اپنے بھائیوں کا انتظار کر رہی تھی، جو رات کے کھانے سے ذرا قبل فٹ بال کھیل کر لوٹتے ہیں۔ پشی ماں رسوئی میں تھیں اور بابا مطب بند کرکے نہانے کے لئے غسل خانے میں جا چکے تھے۔ اتنے میں برآمدے میں سے کیا دیکھتی ہوں کہ ایک مسلمان فقیر پھاٹک پر کھڑا ہے۔ ایک تارہ لئے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس نے جھن سے ایک تارہ چھیڑا اور بڑی دلدوز آواز میں بائول گانا شروع کردیا۔ پشی ماں فقیروں اور سنیاسیوں کو بڑی عقیدت سے دیتی دلاتی رہتی ہیں، اس لئے میں نے اُسے آواز دی کہ پچھواڑے آنگن کی ڈیوڑھی پر چلا جائے۔ مگر میری بات سن کر وہ جھپاک سے برآمدے میں آگیا اور کہنے لگا کہ ڈاکٹر سرکار سے ملنا چاہتا ہے۔ میں ابھی کوئی جواب بھی نہ دینے پائی تھی کہ اس کی نظر اندر بیٹھک خانے میں لگی کاکا کی بڑی تصویر پر پڑ گئی۔ اور اس نے جلدی سے کہا کہ اسے اس تصویر کی مدتوں سے تلاش تھی۔ اور میری گھبراہٹ اور احتجاج کی مطلق پروا کئے بغیر جھٹ سے کمرے میں گھس گیا۔ اور دیوار کے پاس جا کر بڑی محویت سے پورٹریٹ کو دیکھنے لگا۔ میں ہڑبڑا کر اندر گئی تو اس نے پوچھا اس تصویر کی ایک کاپی مل سکتی ہے؟ اور پھر اطمینان سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اپنے جھولے میں سے کچھ کاغذ نکالے اور چاروں طرف دیکھ کر بولا۔
’’تم کون ہو؟ دینیش بابو کی لڑکی ہو۔
’’میں ان کی بھتیجی ہوں، ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے کہا۔ تو کہنے لگا… اچھا اپنے بابا کو بلائو۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میں ایک دم ڈر گئی۔ اور پچھلے برآمدے میں جا کر بابا کو آواز دی… بابا جلدی آئیے، ایک عجیب سا فقیر آکر بیٹھک خانے میں بیٹھ گیا ہے۔ جلدی آئیے… بابا تولیہ کندھے پر ڈالے جلدی سے باہر نکلے اور کمرے میں گئے تو وہ فقیر فوراً کھڑا ہوگیا اور چپکے چپکے ان سے باتیں کرنے لگا۔ بابا اسے دیکھتے رہے پھر اداسی سے مسکرا دیئے۔ میں دروازے میں سے جھانک رہی تھی۔ انہوں نے مجھے آواز دی کہ چائے بنائوں۔ میں چائے بنا کر لے گئی۔ اب وہ اور بابا پرانے دوستوں کی طرح صوفے پر بیٹھے باتوں میں منہمک تھے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے تو اس نے اپنا نام نور الرحمن میاں بتلایا۔ اور کہنے لگا کہ باریسال میں اس کا تکیہ ہے۔ جب میں اس کا مطلب نہ سمجھی تو ہنس پڑا۔ اور کہنے لگا کہ وہ ایک بنگالی ویکلی کا ایڈیٹر ہے۔ کاکا کے نجی حالات، ان کے پرانے مسودے، جیل سے لکھے ہوئے خط، پرانی تصویریں، یہی سب۔ مجھے اس کی جھاڑ جھنکار داڑھی پر بڑی ہنسی آئی کہ ایڈیٹر لوگ تو بائول فقیروں کا حلیہ بنا کر ایک تارہ نہیں بجاتے پھرتے‘‘۔
(جاری ہے)