تیسرا اور آخری حصہ
نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا اور جو کسی مسلمان کی کوئی مصیبت دور کرے گا تو خدا قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو اس سے دور فرمائے گا‘‘ (بخاری، مسلم)
اور آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ اپنے بندے کی مدد میں اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘ (ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کی حاجت پوری کرنے کا اجر و ثواب دس سال کے اعتکاف سے بھی زیادہ ہے‘‘ (طبرانی)
اور حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس خوشی اور مسرت کی بات لے کر پہنچا ہے اور اس بات سے اس کو خوش کردیتا ہے تو خدا قیامت کے دن اس بندے کو خوش کردے گا‘‘ (طبرانی)
-19 بہترین رازدار بنیے۔ دوست آپ پر اعتماد کرکے آپ سے دل کی بات کہہ دے تو اس کی حفاظت کیجیے، اور کبھی دوست کے اعتماد کو ٹھیس نہ لگایئے۔ اپنے سینے کو رازوں کا محفوظ دفینہ بنایئے تاکہ دوست بغیر کسی جھجھک کے ہر معاملہ میں مشورہ لے سکے۔ اور آپ دوست کو اچھے مشورے دے سکیں اور تعاون کرسکیں۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ حفصہؓ جب بیوہ ہوئیں تو میں عثمانؓ سے ملا اور کہاکہ اگر تم چاہو تو حفصہ کا نکاح تم سے کردوں، عثمانؓ نے جواب دیا میں اس معاملے پر غور کروں گا، میں نے کئی راتوں تک ان کا انتظار کیا پھر عثمانؓ مجھ سے ملے اور بولے میرا ابھی شادی کرنے کا خیال نہیں ہے، پھر میں ابوبکر کے پاس گیا اور کہا اگر آپ پسند فرمائیں تو حفصہؓ کو اپنی زوجیت میں لے سکتے ہیں۔ وہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا مجھے ان کی خاموشی بہت کھلی، عثمانؓ سے بھی زیادہ کھلی۔ اس طرح کئی دن گزر گئے پھر نبیؐ نے حفصہؓ کا پیغام بھیجا اور میں نے نبیؐ سے حفصہؓ کا نکاح کردیا۔ اس کے بعد ابوبکرؓ مجھ سے ملے اور فرمایا: تم نے مجھ سے حفصہؓ کا ذکر کیا تھا اور میں نے خاموشی اختیار کی تھی ہوسکتا ہے تمہیں میری خاموشی سے تکلیف ہوئی ہو۔ میں نے کہا ہاں تکلیف تو ہوئی تھی۔
فرمایا: مجھے معلوم تھا کہ رسولؐ اللہ کا خود ایسا خیال ہے اور یہ آپ کا ایک راز تھا جس کو میں ظاہر کرنا نہ چاہتا تھا۔ اگر نبیؐ ذکر نہ فرماتے تو میں ضرور قبول کرلیتا۔(بخاری)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں لڑکوں میں کھیل رہا تھا کہ اتنے میں نبیؐ تشریف لائے اور ہمیں سلام کیا پھر اپنی ایک ضرورت بتا کر مجھے بھیجا مجھے اس کام کے کرنے میں دیر لگی۔ کام سے فارغ ہوکر جب میں گھر گیا تو ماں نے پوچھا: اتنی دیر کہاں لگائی! میں نے کہا: نبیؐ نے اپنی ایک ضرورت سے بھیجا تھا۔ بولیں کیا ضرورت تھی؟ میں نے کہا وہ راز کی بات ہے۔ ماں نے کہا دیکھو رسولؐ اللہ کا راز کسی کو نہ بتانا۔ (مسلم)
-20 اجتماعی اخلاقی میں ایسی وسعت، ہمہ جہتی، تحمل اور سمائی پیدا کیجیے کہ ہر ذوق و طبیعت اور ہر فکر و رجحان رکھنے والا آپ کی ذات میں غیر معمولی کشش محسوس کرے اور آپ ہر ایک کے مخصوص ذوق و رجحان اور مخصوص افتاد طبع کی رعایت کرتے ہوئے ایسا حکیمانہ سلوک کیجیے کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے۔ ہر ایک کو اپنے مخصوص ذوق کے پیمانے سے ناپنے کی غیر حکیمانہ کوشش نہ کیجیے اور نہ ہر ایک کو اپنی افتاد طبع پر ڈھالنے کی ناکام اور مہمل کوشش کیجیے، ذوق و طبیعت کا اختلاف ایک فطری حسن ہے فطرت کے حسن کو مصنوعی حسن کی بیجا توقع میں مسخ نہ کیجیے۔ ہر دوست کو اس کے فطری مقام پر رکھتے ہوئے اس سے دلچسپی لیجیے اور اس کی قدر و عظمت کیجیے اور اپنے ہمہ گیر اخلاق کے ذریعہ اس کو اپنی ذات سے وابستہ رکھنے کی کوشش کیجیے۔
نبیؐ کی ہمہ جہتی عبقریب ہی کا یہ کمال تھا کہ ہر ذوق اور ہر طبیعت کا انسان آپ کی مجلس میں سکون پاتا اور اپنی افتاد طبع کی حکیمانہ رعایت پاتے ہوئے کوئی ادنیٰ اجنبیت بھی محسوس نہ کرتا۔ آپ کی مجلس میں ابوبکرؓ جیسے سراپا حلم و شفقت بھی تھے اور عمر فاروقؓ جیسے برہنہ شمشیر بھی، حسان بن ثابتؓ جیسے جنگ سے لرزنے والے بھی اور علیؓ جیسے فاتح خیبر بھی، ابوذر غفاری جیسے فقیر منش، غم پسند بھی اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ جیسے صاحب دولت و جمال بھی۔ لیکن نبیؐ کے وسعت اخلاق، اعلیٰ کردار اور حسن فکر و تدبیر کا کمال یہ تھا کہ یہ بھی سب نبیؐ کی ذات سے بے مثال والہانہ عشق رکھتے اور نبیؐ بھی ان کا اس قدر لحاظ رکھتے کہ ہر ایک یہ سمجھتا کہ شاید نبیؐ سب سے زیادہ مجھی کو چاہتے ہیں، اور اس وسعت اخلاق، حسن فکر و تدبیر اور غیر معمولی ایثار کی بدولت آپ نے صحابہ کرامؓ کا وہ مثالی جتھہ تیار کیا جن میں طبیعتوں کے باہمی اختلاف کے باوجود وہ بے مثال یکجہتی، غیر معمولی اتحاد و تعاون اور قابل رشک الفت و لگائو تھا کہ انسانی تاریخ اپنے ان صفحات کو بجاطور پر اپنی طویل عمر کا حاصل سمجھتی ہے۔
آپ کی دوستیاں درحقیقت اسی وقت کامیاب اور پائیدار ہوسکتی ہے جب آپ اجتماعی اخلاق میں حکیمانہ لچک اور غیر معمولی صبر و تحمل پیدا کریں اور دوستانہ تعلقات میں رواداری، عفوودر گزر، فیاضانہ برتائو، جذباتی ایثار، باہمی مراعات، کسر و انکسار، ایک دوسرے کے جذبات کا پاس و لحاظ اور خیر خواہی کا ضروری حد تک اہتمام کریں۔ نبیؐ کے چند واقعات سے اندازہ کیجیے کہ آپ کس عالی ظرفی، فراخ دلی، تحمل و بردباری اور رواداری کے ساتھ لوگوں کی فطری ضروریات، جذبات اور کمزوریوں کا لحاظ فرماتے تھے۔ ’’میں نماز کے لئے آتا ہوں اور جی چاہتا ہے کہ لمبی نماز پڑھائوں پھر کسی بچے کے رونے کی آواز کان میں آتی ہے تو میں نماز کو مختصر کردیتا ہوں کیونکہ مجھ پر یہ بات انتہائی گراں ہے کہ میں نماز کو طول دے کر بچے کی ماں کو زحمت میں مبتلا کروں‘‘ (بخاری)
حضرت مالک بن الحویرثؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم چند ہم عمر نوجوان دین کا علم حاصل کرنے کے لئے نبیؐ کے یہاں پہنچے۔ ہم نے بیس دن آپؐ کے یہاں قیام کیا، نبیؐ انتہائی رحیم و نرم معاملہ کرنے والے تھے۔ (جب آپؐ کے یہاں رہتے ہوئے ہمیں بیس دن ہوگئے تو) آپؐ نے محسوس کیا کہ ہم گھر جانے کے شوق میں ہیں تو آپؐ نے ہم سے پوچھا تم اپنے گھروں میں اپنے پیچھے کن کن لوگوں کو چھوڑ آئے ہو۔ ہم نے گھر کے حالات بتائے تو آپؐ نے فرمایا جائو اپنے بیوی بچوں میں واپس جائو اور ان کے درمیان رہ کر انہیں بھی وہ سکھائو جو تم نے سیکھا ہے۔ اور انہیں بھلے کاموں کی تلقین کرو اور فلاں فلاں نماز فلاں وقت پڑھو اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی اذان دے دے اور جو تم لوگوں میں علم و اخلاق کے لحاظ سے بڑھا ہوا ہو وہ نماز پڑھائے‘‘ (بخاری، مسلم)
حضرت معاویہ بن حکم سلمیؓ اپنا قصہ سناتے ہیں کہ ’’میں نبیؐ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں ایکآدمی کو چھینک آئی، نماز پڑھتے ہی میری زبان سے ’’یرحمک اللہ‘‘ نکل گیا تو لوگ مجھے گھورنے لگے میں نے کہا خدا تمہیں سلامت رکھے مجھے کیوں گھور رہے ہو! پھر جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے خاموش رہنے کو کہہ رہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا جب نبیؐ نماز سے فارغ ہوگئے… میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں میں نے نبیؐ سے زیادہ بہتر تعلیم و تربیت کرنے والا نہ تو پہلے دیکھا نہ بعد میں۔ آپؐ نے نہ تو مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ برا بھلا کہا، صرف اتنا کہا: ’’یہ نماز ہے، نماز میں بات چیت کرنا مناسب نہیں۔ نماز تو نام ہے اللہ کی پاکی بیان کرنے کا، اس کی بڑائی بیان کرنے اور قرآن پڑھنے کا‘‘(مسلم)
-21 دعا کا خصوصی اہتمام کیجیے خود بھی دوستوں کے لئے دعا کیجیے اور ان سے بھی دعا کی درخواست کیجیے۔ دعا دوستوں کے سامنے بھی کیجیے اور ان کی عدم موجودگی میں بھی، عدم موجودگی میں دوستوں کا خیال کرکے اور ان کا نام لے کر بھی دعا کیجیے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں: ’’میں نے نبیؐ سے عمرہ کی اجازت چاہی‘‘۔ آپؐ نے اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے میرے بھائی اپنی دعائوں میں ہمیں نہ بھولنا‘‘۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں: ’’مجھے اس بات سے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس کے بدلے مجھے پوری دنیا بھی ملتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی‘‘۔
نبیؐ کا ارشاد ہے کہ: ’’جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لئے غائبانہ دعا کرتا ہے تو اللہ اس کو قبول فرماتا ہے اور دعا کرنے والے کے سرہانے ایک فرشتہ مقرر رہتا ہے کہ جب وہ شخص اپنے بھائی کے لئے اچھی دعا کرتا ہے تو فرشتہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے تیرے لئے بھی وہی کچھ ہے جو تو اپنے بھائی کے لئے مانگ رہا ہے‘‘ (صحیح مسلم)
اپنی مخلصانہ دعائوں میں اللہ سے درخواست کرتے رہیے کہ الٰہی! ہمارے دلوں سے بغض و عناد اور کدورتوں کو غبار سے دھودے اور ہمارے سینوں کو خلوص و محبت سے جوڑ دے اور ہمارے تعلقات کو باہمی اتحاد و الفت کے ذریعے خوش گوار بنا۔
قرآن پاک کی اس دعا کا بھی اہتمام کیجیے:
’’اے ہمارے رب! ہماری اور ہمارے بھائیوں کی مغفرت فرما جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور کدورت نہ رہنے دے۔ اے ہمارے رب! تو بڑا ہی مہربان اور بہت ہی رحم فرمانے والا ہے‘‘۔