جماعت اسلامی مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے

635

جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی اور مذہبی جماعت ہے جو اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔ ہر سطح پر جماعت اسلامی میں آزادانہ رائے دہی کے ذریعے تنظیمی ذمہ داروں کاچنائو ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ خواتین کی سطح پر بھی باقاعدگی سے ہوتا ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی پنجاب خواتین کی ناظمہ محترمہ ربیعہ طارق ہیں۔ ہم نے ان سے کچھ گفتگو ریکارڈ کی جسے یہاں اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

جسارت میگزین: اپنے اور اپنے والدین کے بارے میں بتایئے۔

ربیعہ طارق: میرا آبائی شہر جھنگ ہے، شادی ہوکر فیصل آباد آئی، پھر شوہر کی ملازمت کے سلسلے میں لاہور سکونت اختیار کی۔ میرے چار بیٹے ہیں، تین کی شادی ہوچکی ہے۔ میرے نانا مولانا مودودیؒ کے جاں نثار ساتھی تھے۔ مولانا کے ابتدائی دور کے رفیق تھے چودھری علی احمد خان مرحوم، ان کا ذکر رودادِ جماعت اسلامی کی دوسری اور تیسری کتاب میں ملتا ہے۔

قیام پاکستان سے قبل وہ محکمہ پولیس میں تھے۔ جماعت اسلامی کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ظالم انگریز حکمرانوں کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکا اور جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کر لی۔ رزقِ حلال کے لیے مشقت برداشت کی۔ چائے کا چھوٹا سا ہوٹل کھول لیا جہاں چائے اور کھانے کے ساتھ گاہکوںکی تواضع جماعت اسلامی کے لٹریچر سے کرتے۔

میرے والدین کا نکاح مولانا مودودیؒ نے پڑھایا۔ ہمارے والدین کی زندگی مثالی تھی۔ ہم 9 بہن بھائی ہیں۔ والد نے پیار اور عزت کے ساتھ جماعت سے جوڑا۔ سارے بہن بھائی کسی نہ کسی سطح پر جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔

جسارت میگزین: آپ کے دن کے معمولات کیا ہیں؟

ربیعہ طارق: یہ جماعت نے ہی سکھایا ہے کہ روز کی بنیاد پر معاملات کی منصوبہ بندی کی جائے، لہٰذا ایک دن قبل اگلے دن کی تیاری کرتی ہوں۔ میں جامعۃ المحصنات منصورہ میں پڑھا رہی ہوں۔ ہر روز دو گھنٹے کی کلاس ہوتی ہے۔ صبح فجر کے بعد کھانے کی تیاری کرتی ہوں۔ میں ایک سالن خود بناتی ہوں، باقی دوسری بہوئیں۔ اگر کچھ دل چاہ رہا ہوتا ہے تو بنا لیتی ہیں۔ گھر کے کاموںکے لیے پرچی پر لکھ کر یاددہانی کرا دیتی ہوں، کیوں کہ میں صبح منصورہ اور محصنات کے لیے نکل جاتی ہوں۔ جامعہ کی کلاس لینے کے بعد جماعت کے آفس منصورہ میں ہوتی ہوں۔ جماعت کے کاموں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہیں سے گھر آجاتی ہوں اور اگلے دن کی تیاری کرتی ہوں۔

جسارت میگزین: پنجاب میں الیکشن کے سلسلے میں آپ کی کیا تیاری ہے؟

ربیعہ طارق: پنجاب میں عوام دین پسند ہیں لیکن یہاں الیکٹ ایبلز کی اجارہ داری ہے، وہ جس کے ساتھ جاتے ہیں وہ پارٹی مضبوط ہوجاتی ہے۔ زمیندار،۱ جاگیردار اور چودھری اپنا گہرا اثر رکھتے ہیں۔ لوگ اِس دفعہ معاملے کو سمجھ رہے ہیں کہ الیکٹ ایبلز کیسے انہیں استعمال کرتے ہیں۔

پنجاب میں کُل 20 اضلاع ہیں۔ ہم نے ہر سطح پر عوام سے رابطہ رکھا ہے۔ دعوتی پروگرام ہوتے ہیں۔ اقتدار میں رہنے والی تمام جماعتوں نے وعدے کیے کہ پنجاب میں دو صوبے بنائیں گے، لیکن وعدہ پورا نہیںکیا۔ جماعت نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پنجاب میں انتظامی سطح پر تین صوبے بنائے ہیں، اس سے کام میں آسانی بھی ہوئی اور بہتری بھی آئی۔ 2017ء کے مقابلے میں 2023ء کے اعداد و شمار دیکھیں تو جماعت کے کام میں نمایاں بہتری نظر آئے گی۔ پنجاب میں ارکان 1515، امیدواران 1129، کارکنان1004، دعوتی حلقے 3890 ہیں۔

جسارت میگزین: پنجاب میں خواتین سیاست میں آنے کا شوق رکھتی ہیں؟

ربیعہ طارق: پنجاب کی خواتین سیاست میں اپنے خاندان اور پارٹی کے ذریعے حصہ لیتی ہیں۔ یعنی خاندان میں اگر بیٹا قابل نہیں تو بیٹی یا بیوی کو کھڑا کردیتے ہیں۔ البتہ خواتین باشعور ہیں۔ جماعت کی خواتین خاص طور پر اسے سمجھتی ہیں، وقت پڑنے پر پیچھے نہیں ہٹتیں۔ گزشتہ دنوں کونسلر کے الیکشن میں ایک یو سی سے مرد کونسلر ہار گئے لیکن ہماری خاتون امیدوار جیت گئیں۔

سینٹرل پنجاب میں عورت بڑی مطمئن ہے، پورے پنجاب میں سینٹرل پنجاب سب سے خوش حال ہے۔ یہاں عورت کی عزت کی جاتی ہے، والدین بچیوں کی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں، گھریلو نظام انہی کے تحت چلتا ہے، لہٰذا عورت بے چین نہیں بلکہ پُرسکون ہے۔ جنوبی پنجاب میں عورت مسائل کا شکار ہے۔ جاگیردارانہ نظام ہے، البتہ روایتی مسائل، وراثت وغیرہ کا مسئلہ ہر جگہ ہے۔ ملکیت اگر عورت کی ہے تو مرد اپنے نام لگانا چاہتا ہے۔ عورت باصلاحیت ہے تو مرد کچھ اِن سیکیور محسوس کرتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا اہم بھی ہے اور ضروری بھی۔

جسارت میگزین: جماعت کے تربیتی نظام کو مؤثر بنانے کے لیے کیا تجاویز دیں گی؟

ربیعہ طارق: تربیت کا سب سے اہم ذریعہ مطالعہ ہے۔ قرآن اور لٹریچر سے گہرا تعلق قائم رکھیں، باقاعدہ عادت بنائیں، اگر دل نہ لگتا ہو تو بھی لازم کرلیں کہ روز ایک دو صفحے پڑھیں۔ اخلاقی معاملات پر خصوصی توجہ دیں۔ حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کی ادائی اخلاص کے ساتھ اپنے اوپر لازم رکھیں، اجتماعِ کارکنان تربیت اور اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے ایک اہم فورم ہے۔

ہم چھوٹے تھے تو جماعت نے اس بات کے لیے خصوصی طور پر ہدایت کی کہ اپنے گھروں میں ’’بزمِ ادب‘‘ رکھیں۔ ہمارے والد نے ہماری زبان اور الفاظ کی ادائی پر بہت توجہ دی۔ ٹھیٹھ پنجابی خاندان کے باوجود اردو بہت اچھی بولی جاتی ہے۔ ہمارے والد نے اقبال کی نظمیں یاد کروائیں، اس پر ٹیبلو کرواتے تھے۔ اُس زمانے میں اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا گیا۔ کارکنان کو اپنی قومی زبان اردو پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ لٹریچر کے علاوہ ادب، علامہ اقبال اور الطاف حسین حالی وغیرہ کی شاعری بھی پڑھنی چاہیے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنا اور اس میں مہارت بھی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے ہم اپنے کاموں کو زیادہ بہتر انداز سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یوں بھی آج کا دور میڈیا وار کا دور ہے۔ فلسطین اور غزہ کا معاملہ دنیا کو پتا ہی سوشل میڈیا کے ذریعے چلا، اس کے ذریعے یک دم ہزاروں لوگوں تک بات پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے کارکنان کی کمزوری ہے کہ سیکھنے پر توجہ نہیں دیتے۔ عمر کوئی بھی ہو ٹیکنالوجی کو اپنے ہاتھ میں لیں، سیکھیں، ورنہ ٹیکنالوجی آپ کے ساتھ ہاتھ کردے گی۔

جسارت میگزین: تحریکی والدین کے بچوں کو شادی کے سلسلے میں کوئی مشورہ دینا چاہیں گی؟

ربیعہ طارق: جی ہاں! والدین اس سلسلے میں رشتے نظریاتی بنیادوں پر طے کریں۔ اگر گھر والے ہی ہمارے مشن کو سمجھ نہ پائیں تو ہمیں اپنے کام میں بھی مشکل کا سامنا ہوگا اور خاندان میں بھی بے چینی ہوگی۔ گزشتہ دنوں رفاہ یونیورسٹی نے ایک کورس ڈیزائن کیا تھا ’’فیملی اِن 21 سینچری‘‘۔ یہ ساس اور بہو کے ساتھ سسر اور داماد کے لیے بھی ہے۔ میں نے اور میری بہو نے کیا، پھر میں نے اپنے بیٹوں کو بھی کروایا۔

والدین بچوں کو اگلے گھر کے لیے بہترین تربیت دیں۔ جب آپ اپنے مقصد کا واضح شعور رکھیں گے تو بچے بھی متوجہ ہوں گے۔ آپ یکسو ہوں گے تو بچے بھی یکسو ہوں گے۔ مائوں، خصوصاً تحریکی مائوں کو طے کرنا چاہیے کہ وہ زندگی میں کیا کرنا چاہتی ہیں، ہمیں حالات کے دھارے میں بہنا نہیں ہے بلکہ دھارے کا رُخ موڑنا ہے۔

جسارت میگزین: آپ کی پسندیدہ کتاب کون سی ہے؟

ربیعہ طارق: میری پسندیدہ کتاب’’اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘‘ ہے جو بہت دفعہ پڑھ چکی ہوں۔ ایک اور کتاب جو اپنے مطالعے میں رکھتی ہوں وہ میرے نانا پر لکھی ہوئی کتاب ہے جو ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے لکھی ہے۔ یہ مجھے اپنے آباء کے نقشِ قدم پر چلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔

جسارت میگزین: خواتین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

ربیعہ طارق: خواتین پر دین کی ذمہ داری مردوں کے برابر ہی ہے۔ آج دین مظلوم ہے، کمزور ہورہا ہے، اس کے لیے سوچنا چاہیے۔ خواتین اپنے اپنے دائرے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ ایک دین دار خاتون جتنا اچھا گھر بنا سکتی ہے، جتنا اچھا رشتے داروں کو جوڑ سکتی ہے، معاشرے کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتی ہے دین سے دور خاتون نہیں کرسکتی۔ میرا سب کو مشورہ بھی ہے اور نصیحت بھی کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کریں، عملی قدم اٹھائیں۔

اجتماعیت کے ساتھ جڑ کر رہنے سے ہمیں اپنے ہر طرح کے کاموں میں سہولت ملتی ہے اور آخرت کی تیاری کی یاددہانی بھی ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا خود بھی جماعت سے جڑیں اور اپنے بچوں اور خاندان کو بھی جوڑنے کے لیے اپنی سی کوششیں کرتے رہیں۔ دعائوں کے ذریعے رب سے مانگیں، وہ دعائیں سنتا ہے۔

جسارت میگزین: بہت شکریہ وقت دینے کے لیے۔

حصہ