الیکشن کا موسم آگیا

238

جب بھی الیکشن کا موسم آتا ہے تو ہر سمت بازار سج جاتے ہیں، جہاں ہر کوئی اپنی اپنی مصنوعات کی دکان کھول لیتا ہے۔ جھوٹے وعدے اور بے بنیاد دعوے… بڑی بڑی باتیں!! دکان پکوڑوں کی اور باتیں کروڑوں کی۔ پھر طرح طرح کے خریدار آنے لگتے ہیں، ہر ایک کی قیمت لگائی جاتی ہے… کوئی تو گھی کے ایک ڈبے پر بک جاتا ہے اور کوئی بریانی کی ایک پلیٹ پر، مگر کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو نہ جھکتا ہے نہ بکتا ہے! کسی تیر کا شکار ہوتا ہے، نہ کوئی شیر اُسے ڈرا سکتا ہے، نہ ہی کسی کھیل کا حصہ بنتا ہے کہ کوئی کھلاڑی اسے رن آؤٹ کرسکے اور بلا گھما کے چکر لگا دے، نہ کسی کی ٹوپی اچھالتا ہے، نہ یہ نئی ڈور سے پتنگ اڑاتا ہے کہ جو چاہے ان رنگ برنگی پتنگوں کو خرید کر اپنی مرضی سے کاٹتا پھرے… بلکہ اس کے ہاتھ میں تو انصاف کا ترازو ہے اور وہ ہر ایک سے انصاف کرتا ہے اور انصاف کا تقاضا کرتا ہے، تبھی تو گیلپ سروے میں سراج الحق کی مقبولیت 37 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ گلی گلی، کوچہ کوچہ ایک ہی آواز گونج رہی ہے ’’اب صرف جماعت اسلامی، اب راج کرے گا ترازو، حل صرف جماعت اسلامی‘‘۔

آج ضلع گڈاپ کا خواتین ورکرز کنونشن ہے۔ ہر سمت سے لوگ جوق در جوق گلستانِ رضوان ہال کی طرف چلے آرہے ہیں۔ کوئی کوسٹر بھر بھر کر لا رہا ہے، کوئی چنگچی میں بیٹھ کر آرہا ہے، کوئی رکشے میں چلا آرہا ہے۔ ہر ایک اپنے ساتھ اپنی اور بہنوں کو بھی لا رہا ہے۔ کوئی گاڑی میں اور کوئی تو پیدل ہی چل پڑا ہے اپنے عزیز رہنماؤں کی باتیں سننے، اُن کے عزائمِ مصمم سے حوصلہ پانے۔

11 بجے سے ہال بھرنا شروع ہوگیا۔ بچے، بڑے سبھی رواں دواں ہیں… چھوٹے بچے گودوں میں ہیں۔ پروگرام شروع ہوچکا ہے۔ اناؤنسر کی آواز گونج رہی ہے… گاہے بگاہے ترانوں کی آوازیں دلوں کو گرما رہی ہیں۔ جامعۃ المحصنات کی ڈائریکٹر ثوبیہ سلام ووٹ کی اہمیت بتا رہی ہیں ’’یاد رکھیے! یہ ایک امانت ہے، امانت میں خیانت نہ کیجیے۔ حق داروں کو حق پہنچایئے۔‘‘

لیجیے ناظمہ کراچی جاوداں فہیم بھی آگئیں۔ اب وہ اپنی پیاری بہنوں سے مخاطب ہیں، سوچ دینے والا انداز… دلوں کو مہمیز دے رہا ہے: ’’اٹھیے! اپنے اردگرد رہنے والی ہر بہن تک حق کا پیغام پہنچا دیجیے۔ آج نکلنے کا وقت ہے… گھر بیٹھنے کا نہیں۔ لوگوں کو صحیح لوگوں کی پہچان کرایئے، حق کو حق کہیے، چپ نہ رہیے… خدا آپ کے ساتھ ہے۔‘‘

چھوٹے چھوٹے بچے پھولوں کی پتیاں لے کر کھڑے ہیں، اب ان کے نمائندوں کا استقبال ہورہا ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 244 کے لیے جماعت اسلامی کے امیدوار جناب عرفان احمد، صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 116 کے لیے جناب ابو ضیا پرویز صاحب اور حلقہ پی ایس 97کے لیے خالدصدیقی کا پُرجوش استقبال ہورہا ہے۔ یہ عوامی نمائندے ہیں، عوام کے درمیان رہنے والے، لوگوں کے دکھ درد میں کام آنے والے۔ تن، من، دھن سے سب کی مشکلات دور کرنے والے۔ ابھی عرفان صاحب خطاب کررہے ہیں کہ نعرے بلند ہونے لگے… نگاہیں اُس جانب اُٹھ گئیں… پھولوں کی پتیوں کی بارش میں… کراچی کے دکھ کو اپنا غم بنانے والے، سردیوں کی سرد راتوں میں، بارش میں دھرنے دینے والے، K الیکٹرک کو للکارنے والے… جی ہاں صحیح کہا آپ نے، ہمارے لیڈر، آپ کے لیڈر حافظ نعیم الرحمن صاحب!! خواتین جن کا خطاب سننے کے لیے بے چین تھیں۔ ایسے لیڈر ہوتے ہیں جو بولتے ہیں تو ہر ایک پکار اُٹھتا ہے… میں نے یہ جانا کہ جیسے یہ بھی میرے دل میں ہے۔ مسائل کی باتیں، پریشانیوں کے حل کی باتیں، میئر کی سیٹ زبردستی چھن جانے کے باوجود ہمارے چیئرمینوں نے کم وسائل کے ساتھ جی جان سے کام شروع کیا۔ 38 گاڑیاں سڑکوں پر لے آئے، جو ایک عرصے سے خراب کھڑی تھیں۔ وہ کہہ رہے تھے ’’کراچی کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی ہے، تنخواہ دار طبقے سے 157 ارب روپے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، مگر جاگیردار طبقے سے ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا۔

ہم نے بنو قابل پروگرام شروع کیا، 25 ہزار طلبہ و طالبات نے تین ماہ میں فری I.T کا کورس مکمل کیا ہے۔ اب ہم ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کررہے ہیں۔ 312 ارب روپے کا تعلیم کا بجٹ ہمارے ٹیکسوں سے ادا ہوتا ہے، بلکہ جو قرض اشرافیہ لے کر کھا جاتی ہے اُس کا سود بھی ہمارے ٹیکسوں کی رقم سے ادا ہوتا ہے۔‘‘

وہ بول رہے تھے اور خواتین حیران ہورہی تھیں۔ ’’گیس کے کنویں موجود ہیں مگر کنوؤں سے گیس نکالی نہیں جارہی… آپ کے چولہے ٹھنڈے ہیں، ہم آپ کو گیس فراہم کریں گے، آپ ہمیں موقع تو دیں۔‘‘ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ کوئی تو تھا جو ہمارا دکھ سمجھ رہا تھا۔ اب سبھی کا فیصلہ ’’ترازو‘‘ تھا، انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حق دار کو حق دیا جائے تاکہ وہ ہمارا دکھ درد دور کرسکے۔ خواتین کنونشن پکار رہا ہو جیسے کہ کسی طرح دیانت دار قیادت آجائے۔
آخر میں خواتین میں لنچ باکس تقسیم کیے گئے۔ 500 سے زائد کی تعداد میں موجود خواتین نہایت نظم و ضبط سے رخصت ہوئیں۔

حصہ