امریکہ کا اثرپاکستان میں ابھی کافی عرصہ رہے گا

288

نواز شریف کے ساتھ بہت سے سیاستدان تضاد میں گھرے ہوئے ہیں،سینٹر ایس ایم ظفر کا ایک یادگار انٹریو

(دوسری اور آخری قسط)

سوال: وردی اتارنے کا مشورہ دینے والوں سے جنرل صاحب ناراض ہوجایا کرتے ہیں، آپ سے کیا معاملہ رہا؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: مجھے حیرانی ہے اور آپ بھی حیران ہوں گے انہوں نے کئی بار مجھ سے گفتگو کی، کئی بار سنا۔ میں ان کی وسعتِ قلبی کا قائل ہوگیا ہوں۔ کبھی ایک روز بھی جسے باڈی لینگویج کہتے ہیں، نہ جسم کی حرکات سے کسی ناراضی یا اختلاف کا پہلو میں نے محسوس کیا۔ بلکہ مجھے ایسا لگا جیسے وہ جانتے ہیں کہ میں نیک نیتی سے ان کو مشورہ دے رہا ہوں۔ مشورے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں کرتے‘ یہ ان کے معاملات ہیں۔ اُن کو میرے مقابلے میں حالات کا زیادہ پتا ہے۔ لیکن ابھی تک انہوں نے ایک بار بھی میرے مشوروں پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا، اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب میرا بیلٹ باہر نکل آیا اور میں سینیٹر نہیں رہا تو مجھے دوبارہ سینیٹ کا ٹکٹ ملا، مجھے اطلاع دی گئی کہ اگر جنرل صاحب ہاں نہ کرتے تو مجھے ٹکٹ نہ ملتا۔ لیکن جنرل صاحب نے کہا کہ ان کو ٹکٹ دیجیے، ان کی اپنی رائے ہے، اختلافِ رائے ہے۔ تو ایسی شخصیت کو موقع ملنا چاہیے۔

سوال: 17 ویں آئینی ترمیم کی منظوری آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوئی، اور اس پورے عمل کا آپ اہم کردار ہیں۔ جنرل پرویزمشرف نے قوم سے وردی اتارنے کا وعدہ کیا تھا، اور وہ اس سے مکر بھی گئے۔

سینیٹر ایس ایم ظفر: جنرل صاحب کا کہنا ہے کہ جو میں نے ان سے تقاضا کیا ہے وہ پورا کریں گے تو میں وردی اتار دوں گا۔ وہ تقاضا انہوں نے پورا نہیں کیا۔ یہ سوال آپ زیادہ تفصیل سے معلوم کرسکتے ہیں لیاقت بلوچ صاحب سے جو اس موقع پر اُس محفل میں موجود تھے۔ میں یہ کہوں گا کہ بلاشک و شبہ اس پر بھی معاملہ طے ہوا تھا کہ 2004ء کے اختتام پر جنرل صاحب اپنا ایک عہدہ چھوڑ دیں گے۔ لیکن انہوں نے ایم ایم اے سے جو توقعات رکھی تھیں جس کی مجھے اطلاع نہیں ہے، وہ پوری نہیں ہوسکیں۔ اس لیے یہ تنازع ان دونوں کے درمیان ہے، میں اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔

سوال: آپ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ملکی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر پر پابندی کو نرم کردینا چاہیے، تو کیا یہ قوم کو خوش کرنے کے لیے بات تھی یا امریکیوں کو دھمکانے کے لیے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: میری نظر میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کا بڑا احترام ہے۔ یہ بیان میں نے نہ قوم کو خوش کرنے کے لیے دیا اور نہ ہی امریکیوں کو دھمکانے کے لیے۔ میں سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اب بہت وقت گزر چکا ہے، اب اس میں سہولتیں آنی چاہئیں اور بتدریج وہ تمام پابندیاں جو پہلے تھیں ان میں کمی ہونی چاہیے۔ مجھے اس چیز کا بھی احساس ہے کہ دراصل یہ بہت ساری پابندیاں ڈاکٹر صاحب کی حفاظت کے لیے ہیں، کیوں کہ باہر کی دنیا کے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو ڈاکٹر صاحب کے متعلق کچھ اور نقطۂ نظر رکھتے ہیں، ان سے بھی کسی حد تک حکومتِ وقت کو پابندیوں کی ضرورت پڑی ہے کیوں کہ وہ بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ اسی وجہ سے میں نے بہت بڑھ کر تقاضا نہیں کیا، لیکن وہ تقاضا کیا جو وقت کے گزر جانے کے بعد اب معقول دکھائی دیتا ہے۔ ان کو سہولتیں حاصل ہوں، انہیں دوستوں سے ملنے کی اجازت اور محفلوں میں گپ شپ مارنے کا موقع دیا جائے۔

سوال: ان پر پابندیاں ٹھیک لگائی گئی تھیں؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ان پر جو پابندیاں لگائی گئی تھیں، اُس وقت ایسی وجوہات تھیں کہ ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

سوال: چیف جسٹس پاکستان کا مسئلہ آپ کے سامنے ہے۔ ان کے خلاف ریفرنس داخل ہوا، ہر چند کہ اس معاملے کا فیصلہ ہوچکا ہے، لیکن ریفرنس کے بعد وکلا کی ایک ملک گیر تحریک برپا ہوئی جس میں سیاسی جماعتوں اور دیگر طبقوں نے بھی کردار ادا کیا، تاہم اس تحریک کے بارے میں اب بھی سوال موجود ہیکہ اس کے محرکات کیا تھے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: اس تحریک کے محرکات واضح ہیں۔ عدلیہ کی اہمیت وکلا سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، اور عدلیہ اپنی ماضی کی بدنامی میں دبی ہوئی تھی۔ انہیں باربار نظریۂ ضرورت کو اپنانا پڑا اور مختلف وقتوں میں بہت سارے فیصلے عدلیہ نے ایسے کیے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آئین کے تقاضے کچھ اور ہیں اور فیصلے سیاسی معلوم ہوتے تھے اور ان میں کمزوری دکھائی دیتی تھی۔ ان تمام چیزوں سے عدلیہ کی آزادی پر ایک دھبہ سا آگیا تھا اور اب سوچا یہ جارہا تھا کہ اس میں کوئی نہ کوئی تبدیلی آنی چاہیے۔ اس تبدیلی کا رجحان چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں شروع ہوا کہ انہوں نے عوامی نقطہ نظر سے مقدمات لینا شروع کیے اور بہت سارے ایسے اداروں کو ہلانا جُلانا شروع کیا جو پہلے منجمد اورلاپروا تھے۔ اس سے عدلیہ میں کچھ بہتری دکھائی دی، اور جب چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس ہوا تو اچانک ہی تمام وکلا صاحبان کے ذہن میں آیا کہ اس کی بنا پر کہیں ایسا نہ ہو کہ جو نئی لہر پیدا ہورہی ہے آزادی کی، وہ دب کر رہ جائے۔ چنانچہ وکلا صاحبان یک صف ہوکر میدان میں نکل آئے اور اس کی بنیاد پر سول سوسائٹی میں بھی ایک ارتعاش اور جان سی پیدا ہوگئی۔ بالفرض اگر آپ یہ کہیں کہ ریفرنس غلط تھا تو دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ غلطیوں سے بھی بعض اوقات قدرت بہتری کا راستہ دکھا دیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ جو کچھ ہوا، یہ مناسب ہے کہ وکلا صاحبان نے اپنی پارٹیوں سے بالاتر ہوکر ایک ہی نکتے پر اپنی تحریک چلائی، اور وہ نکتہ یہ تھاکہ عدلیہ کی آزادی کو مضبوط کیا جائے اور قائم رکھا جائے۔ اب کسی حد تک عدلیہ کے پاس ٹرننگ پوائنٹ آگیا ہے، دیکھتے ہیں عدلیہ اس کو کس طرح نبھاتی ہے۔ اگر اس میں انہوں نے احتیاط نہ برتی، اگر انہوں نے وہ انداز اختیار نہ کیا جو بہت سنجیدہ اور اچھے جج صاحبان کا ہوا کرتا ہے (امید کرتا ہوں وہ ضرور کریںگے) تو پھر خطرات پیدا ہوسکتے ہیں، لیکن اگر وہ بتدریج انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو آگے بڑھاتے چلے گئے تو یہ ملک کے لیے بہتر ہوگا۔ اس میں فکر کی کوئی بات نہیں ہے، مجھے خوشی یہ ہے کہ حکومت نے فیصلے کو مان لیا ہے۔

سوال: 1980ء کی دہائی میں جب الطاف گوہر مرحوم زندہ تھے‘ آپ کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا جس میں آپ نے کہا تھا کہ چھ نکات کا الطاف گوہر نے ڈرافٹ تیار کرکے شیخ مجیب کے حوالے کیا تھا، اُس وقت الطاف گوہر نوائے وقت میں کالم نگار تھے، انہوں نے کالم میں اس بات کی تردید کی تھی۔ آخر یہ کیا معاملہ تھا؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: جی ہاں ملک میں ماضی میں بھی اور آج بھی افواہوں کا بازار گرم ہے۔ افواہیں بڑی جلدی گردش کرتی ہیں، لیکن جہاں سے دھواں نکلتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی آگ ضرور ہوتی ہے۔ جب چھ نکات دیے گئے تھے اُس سے پہلے شیخ مجیب الرحمٰن اور الطاف گوہر کی خفیہ ملاقات، ڈائیلاگ ملاقات یا بیک چینل ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے باوجود چھ پوائنٹ آئے تھے، اور جب یہ چھ پوائنٹ آئے تو ہماری پراونشل منسٹری کی جانب سے اس کی بہت زیادہ پبلسٹی ہوئی جس کے وہ انچارج تھے۔ شہادت تو موجود نہیں لیکن اس کی بنا پر بعض تحریری، واقعاتی شہادتیں مع افواہوں کے یہ نشاندہی کررہی تھیں کہ شاید یہ چھ پوائنٹ ڈسکس ہوئے تھے یا دیے گئے تھے، اور ’’دیے گئے‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال ہورہا تھا کہ مجیب الرحمٰن پڑھے لکھے آدمی نہیں تھے، لیکن ان کے پاس ایک بہت بڑا بیک گرائونڈ ڈھاکہ میں پروفیسر صاحبان کا موجود تھا، ممکن ہے انہوں نے مدد کی ہو۔ الطاف گوہر صاحب نے یقینی طور پر اس کی تردید کی۔ اب کیوں کہ وہ (اِس دنیا میں) موجود نہیں ہیں میں ان کی تردید کا احترام کروں گا اور اس بات کو مزید آگے نہیں لے جاسکتا۔

سوال: بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے والا ہے اور پاک بھارت تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں، اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت وہی ہوگی جو امریکا اور کینیڈا کے درمیان ہے۔ اس صورتِ حال پر آپ اگر کچھ جانتے ہیں تو بتائیں۔

سینیٹر ایس ایم ظفر: میں ابھی اطمینان سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہی ہوگا، اگرچہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی سوچ میں فرق آیا ہے اور انہوں نے پہلی بار مسئلہ کشمیر پر گفتگو کرنے اور بحث کرنے(پر آمادگی) کا مظاہرہ کیا ہے۔ آیا اس کے نتیجے میں ہم اُس مقام تک پہنچ جائیں گے جو جناح نے فرمایا تھا کہ ہم امریکا اور کینیڈا والے تعلقات آپس میں بنا لیں۔ لیکن یہ درست ہے کہ اب عوامی رابطے کی بنا پر دشمنی کا عنصر ختم ہوتا جارہا ہے۔ وہاں بھی تیسری نسل آگئی ہے، پاکستان میں بھی تیسری نسل آگئی ہے جو ماضی کا بوجھ نہیں اٹھائے ہوئے ہے۔ تو راستہ تو امن کی جانب چل رہا ہے، اسے وہ بھی روکنا نہیں چاہیں گے۔ لیکن اگر اس کی رفتار بہت آہستہ ہوگی تو خطرات یقینی طور پر راستے میں بہت ہیں۔

سوال: نائن الیون کے بعد نئی صورتِ حال پید اہوئی ہے، امریکا اور یورپ کے طرزعمل کو دیکھ کر کمزور سے کمزور مسلمان اس بات کے قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ یہ صلیبی جنگ ہے، نوآبادیاتی دورکا تسلسل ہے اور تہذیبوںکا تصادم ہے، اور اس میں مغربی دنیا پوری حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آگئی ہے۔ آپ اس تجزیے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: امریکا جب سے واحد سپر پاور بنا ہے اُس کی رعونت اور غرور اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب اُس نے نیا قانون ترتیب دے دیا جو بین الاقوامی طور پر بالکل نہیں مانا جاسکتا کہ انہیں پیشگی حملے کا حق ہے۔ اور پیشگی حملے کے حق میں وہ یہ کہتے ہیں کہ انہیںکسی بھی جانب سے ذرا بھی خطرہ محسوس ہو تو وہ اُس ملک اور خطے پر حملہ کرسکتے ہیں۔ یہ جو اُن کی سوچ ہے اس نے امریکا کو تمام مسلمان ملکوں کے خلاف اس لیے کھڑا کردیا ہے کہ مسلمان ملکوں میں ہی ناانصافیاں ہورہی ہیں جس کے خلاف مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کو انصاف ملے۔ کشمیر ہوگیا، فلسطین ہوگیا، اب عراق میں وہ تیل کے لیے قابض ہوچکے ہیں تو ان کو خطرات محسوس ہوتے ہیں کہ یہاں سے مسلمان ان کے خلاف کارروائی کریںگے، اور اس کے لیے انہوں نے پیشگی حملے کا جو نیا اصول مرتب کیا ہے اس کو اب صلیبی جنگ کا نام دے دیجیے۔ اس کو کہہ دیجیے کہ یہ قانون جنگل ہے۔ یہ وہی ہے جو یزیدیت کی وجہ بنتی تھی۔ یہ وہی ہے جو فرعونیت کی وجہ بنتی تھی، یہ وہ ہے جس کو ہم کہتے ہیں طاقت کا نشہ۔ اس وقت امریکا کو طاقت کا نشہ ہے، امریکا جو کام کرنا چاہے گا وہی کرے گا، یہی ان کے اسلاف نے 1945ء کی جنگ کے بعد کیا تھا۔ 1945ء کی جنگ میں لاکھوں لوگ مر گئے تھے۔ نائن الیون میں تو صرف تین ہزار (افسوس ان کا بھی بڑا ہے) مارے گئے تھے، وہ لاکھوں لوگ جو مرے تھے ان کا طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ وہاں جا کر ری کنسٹرکشن کی، ماسٹر پلان دیے، ملکوں کی ترقی کی وجوہات بتائیں، یہاں تک کہ اب یورپ جو ہے ترقی یافتہ ملک امریکا کی امداد سے بنا۔ روسی Root Cause (اصل جڑ) کی طرف گئے اور وہاں جنگیں بند ہوگئیں۔ اگر مسلمان ملکوں کے ساتھ بھی وہ نائن الیون کے بعد اس قسم کا ڈائیلاگ اور اقتصادی ترقی کا اصول طے کرتے تو نہ یہ صورتِ حال پیدا ہوتی اور نہ ان جنگوں تک بات جاتی۔ اب بھی وقت ہے کہ امریکی سوچ تبدیل ہو، وہ سب سے پہلے جس کو Pre-emptive strike یعنی پیشگی حملہ کرنے کا حق کہتے ہیں‘ اس کو ترک کردیں اور ڈائیلاگ کے ذریعے وجوہات معلوم کریں کہ کیوں مسلمان ان سے ناراض ہیں، کیوں لوگ ان کے خلاف برہم ہوتے جا رہے ہیں تو یقینی طور پر کئی ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے ہو سکتے ہیں۔

سوال: کیا ملک مارشل لاء کی طرف بڑھ رہا ہے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: (زور دیتے ہوئے) مارشل لاء بالکل نہیں لگے گا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سوال: جنرل پرویزمشرف اور بے نظیر ڈیل حتمی مراحل میں داخل ہوگئی ہے، آپ اس پر کیا تبصرہ کریں گے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: کسی بھی دو سیاسی قوتوں کے درمیان کوئی بھی ایسا سلسلہ جو انتخابات کو ممکن بنائے اور جو اس بات میں مددگار ہو کہ جنرل پرویزمشرف کا انتخاب اپنے ایک عہدے کے ساتھ بخوبی ہوسکے، بجائے اس کے کہ اس مسئلے کو عدالتوں تک لے جایا جائے، اگر یہ صورت حال پیدا ہو تو میرے نزدیک یہ ملک کے لیے بہتر ہے۔ اس سے زیادہ جو مزید مسئلہ ہے آگے چل کر کیا ہوگا؟ وہ انتخابات پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ڈیل کا تعلق صرف اس حد تک رہنا چاہیے کہ وہ موجودہ انتخابات کو بہتر اور پُرامن بنانے میں مددگار ثابت ہو، کیوں کہ ملک میں بہت سارے ایسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جن میں دو یا تین طاقتوں کا اکٹھا ہوجانا اور انتخابات کے لیے راستہ ہموار کرنا ایک مناسب عمل ہوگا۔

سوال: کیا عوام اس ڈیل کا مطلب یہ نہ سمجھیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ایک طرح سے آئندہ ہونے والے انتخابات کے نتیجے کا اعلان کردیا ہے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: اعلان تو نہیں ہوسکے گا، کیوں کہ انتخابات ہر حالت میں صاف اور شفاف کروانے ہوں گے۔ انتخابات میں دھاندلی کی گنجائش تقریباً ختم ہونے کے قریب پہنچی ہوئی ہے اور ہمارا معاشرہ بھی اس وقت بہت حد تک بیدار اور پُراعتماد ہوچکاہے۔ عدلیہ میں بھی آزادی کی ایک لہر آچکی ہے، میڈیا بہت توانا ہے، بیرون ملک کے نمائندے بھی پاکستان کے انتخابات کو دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔ ملک میں انتخابات صاف اور شفاف ہوجائیں اس سے یہ کہنا کہ ڈیل کے نتیجے میں آئندہ کے انتخابات پہلے ہی طے ہوگئے ہیں، مناسب اصطلاح نہیں ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی بنا پر یہ قوتیں کیوں کہ اکٹھی ہورہی ہیں تو سیاسی طور پر زیادہ طاقت ور بن جائیں گی، لیکن یہ کہنا کہ انتخابات کے نتائج تبدیل ہوجائیں یا تبدیل کیے جاسکتے ہیں، یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ میرے اپنے اندازے کے مطابق اب کوئی قوت انتخابات کو اس انداز سے پیش نہیں کرسکے گی جیسا کہ پہلے انتخابات کے متعلق شک و شبہ ہے کہ وہ درست نہیں ہوا کرتے تھے۔ بہرحال ہمیں صحیح طریقے سے انتخابات کا انعقاد کرنا ہوگا۔

سوال:عدلیہ کے فیصلوں پر انتظامیہ عمل کرنے پر تیار نہیں ہے، ایک وزیر کو عدالتی فیصلے کے مطابق جیل کسٹڈی ہونے کے بعد پولیس ہتھکڑی کھول کر آزاد کردیتی ہے۔ کیا ایسے ماحول میں بھی انتخابات صاف اور شفاف ہونے کی امید کی جاسکتی ہے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: عدلیہ کے لیے بھی اس وقت مناسب ہوگا کہ وہ زیادہ بڑے بڑے معاملات کی جانب توجہ دے، اور ابھی جو ہر مسئلے کو اختیار میں لینے کا سلسلہ چل پڑا ہے اس میں تھوڑا احتیاط کرے۔ بہت بڑے بڑے مسائل ان کے سامنے آرہے ہیں، توجہ ان کی جانب دیں۔

سوال: موجودہ سیاسی صورت حال پر امریکا اور برطانیہ کی بھاگ دوڑ ہمارے سامنے ہے، اس تناظر میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ امریکا سے درآمد شدہ کنٹرولڈ جمہوریت کے نتیجے میں معاشرے کی حقیقی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ملک کے بنیادی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے میں کسی مثبت، دیرپا اور جوہری انقلابی تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: دیکھیں جی! ابھی تک امریکا کا اس ملک میں جو اثر ہے وہ ہماری فارن پالیسی کے جو ادوار ہیں ان سب کا نچوڑ ہے، اور یہ جو موجودہ صورتِ حال ہے حکومتوں کے تبدیل ہونے سے زیادہ تبدیل نہیں ہوگی اورامریکا کا اثر پاکستان میں ابھی بہت عرصے قائم رہے گا۔ امریکا کے اثر سے اگر ہم دو‘ تین فائدے اٹھا سکیں تو یہ ملک کی بہتری میں ہوسکتے ہیں۔ ہمیں جو موقع مل رہا ہے اس میں اگر ہم اپنی اقتصادی اور علمی حالت بہتر کریں اور اس دوران اپنے انتخابات کو اس نہج پر لے جائیں کہ ملک میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہوجائے تو اس سے قوم میں جو یکجہتی پیدا ہوگی وہ اس صورت حال سے ہمیں نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے کہ ہم امریکی اثر سے نکل کر امریکا سے اپنے معاملات کو برابری کی بنیاد پر طے کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوسکیں۔ کیوں کہ اس وقت یہ ایک یونی پولر ورلڈ، جیسے آپ کہتے ہیں کہ ایک سپر پاور کی دنیا بن چکی ہے اور اس وقت دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے امریکا کے اثر میں اور ماتحت نہ ہو، چاہے وہ برطانیہ ہو، جرمنی ہو، پوری یورپی یونین ہو، ہندوستان ہو… کسی نہ کسی انداز سے امریکا کا تسلط یا اثر موجود ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کے حالات کو درست کریں۔ اس مخمصے میں جانے کے بجائے کہ ان کی مداخلت کی وجہ سے تبدیلی آرہی ہے، اس چیز پر غور کرنا چاہیے اور نظر رکھنی چاہیے کہ دنیا میں تبدیلی جو آرہی ہے اس کو ہم اپنا فائدہ سمجھ سکتے ہیں اور اس سے اپنے ملک کی بہتری کر سکتے ہیں یا نہیں؟

سوال: ان حالات میں آپ کے ذاتی خیالات کیا ہیں؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: میرا حتمی خیال تو یہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف اپنی وردی اتارکر ایک عام شہری کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور ان کے عام شہری کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سیاسی جماعتیں اور سیاسی لوگ ان کی اعانت کرتے ہیں اور وہ بطور ایک شہری کے منتخب ہوکر صدر بن جاتے ہیں تو یہ ایک سنگِ میل ہوگا۔ فوجی بالادستی ختم ہو جتنی جلد ہوسکے، تاکہ سول حکومت کی بالادستی قائم ہو۔ اب تک کے ہمارے 60 سالہ دور میں اس کے برعکس کارروائی ہوتی رہی ہے۔ ہم ایک کو ہٹا کر دوسرے فوجی کو لاتے رہے ہیں۔

سوال: آپ حکمران مسلم لیگ کے سینیٹر بھی ہیں، اس ڈیل کے نتیجے میں قاف لیگ کا مستقبل کیا نظر آرہا ہے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: اس میں ہمارے لیے یقینی طور پر دقتیں پیدا ہوں گی، کیوں کہ ایک سیاسی جماعت اس میدان میں داخل ہورہی ہے جس میں ہماری بالادستی تھی۔ لیکن کیوں کہ ابھی پوری تفصیل نہیں آئی کہ کون کون سے معاملات طے ہوئے ہیں، اگر انتخابات کے معاملے میں بھی باتیں ہوںگی تو یقینی طور پر ہماری رائے لے کر کی جائیں گی۔ بہت جلد ہماری ورکنگ کمیٹی میٹنگ ہونے والی ہے، اس میں دیکھتے ہیں کہ کیا معاملات ہمارے سامنے آتے ہیں۔

سوال: نوازشریف نے 10 ستمبر کو پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے لیکن دوسری طرف بے نظیر بھٹو اور پرویزمشرف ڈیل کے ساتھ سعودی عرب کے ترجمان نے کہا ہے کہ نوازشریف پاکستان نہ جائیں اور سیاسی عمل میں حصہ نہ لینے کے وعدے پر قائم رہیں۔ اس صورت حال میں آپ کیا سمجھتے ہیں نوازشریف وطن واپس آئیں گے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: نوازشریف کو اس بات پر پہلے پوری طرح سوچ بچار کرلینی چاہیے تھی، اور ہمیں افسوس ہے کہ اب تک وہ یہی تاثر دیتے رہے کہ کوئی اس قسم کا مسئلہ انہوں نے سعودی حکومت کے ذریعے سے طے کروایا۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے، اس سے اُن کے سیاسی احترام میں بڑا فرق پڑ جائے گا۔ ہمارے سیاست دانوں کو غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ عوام ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ نوازشریف کے ساتھ بہت سارے سیاست دان اس قسم کے تضاد اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ خیر آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں۔ یہ نوازشریف ہی کو فیصلہ کرنا ہے کہ ان کے سعودی عربیہ کے ساتھ جو تعلقات تھے اور جن کی بنا پر وہ آٹھ سال ان کے مہمان بن کر رہے ہیں، وہ اس کا انہیںکیا جواب دیتے ہیں۔ اگر وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں تو خطرہ مول لینا ہوگا، اور اگر وہ احترام کی وجہ سے نہیں آتے تو ان کی سیاست یقینی طور پر مشکل ہوجائے گی۔

سوال:کیا اب بھی صدارتی انتخاب اپنے وقت پر ہوگا؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: صدارتی انتخاب 15 ستمبر سے 12 اکتوبر تک میں دیکھ رہا ہوں‘ ہوجائیں گے۔

سوال: ڈیل کے نتیجے میںکیا پہلے اسمبلیاں نہیں توڑ دی جائیں گی اور صدر اگلی اسمبلی سے اپنے آپ کو منتخب کروا سکیں گے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: میرا اپنا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔

سوال: یہ بات آپ آئینی اور قانونی لحاظ سے کہہ رہے ہیں یا آپ کی رائے ہے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: آئینی طور پر 15 ستمبر 2007ء سے لے کر 15 اکتوبر 2007ء تک انتخابات ہونے ہیں، اور اگر اس عرصے میں انتخابات نہ ہوئے تو بلاشک و شبہ اسمبلی توڑ دی جائے تو آئینی طور پر وہ انتخابات پھر بعد میں ہو جاتے ہیں۔ لیکن مجھے سیاسی طور پر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

سوال: ملک دھماکوں اور بحرانوں کی زد میں ہے، راولپنڈی بم دھماکہ تازہ ترین واقعہ ہے۔ اس سے قبل ڈھائی سو سے زائد فوجی اغوا ہوگئے ہیں۔ ان حالات سے کس طرح باہر آیا جاسکتا ہے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اور اگر کوئی بند گلی ہے تو اس سے نکلنے کے لیے ہمیں انتخابات سے گزرنا ہوگا۔

سوال: فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جنرل پرویزمشرف کو ہی آخر کیوں تمام بحرانوں کا حل سمجھ رکھا ہے؟ یہ اسٹیبلشمنٹ کی انا کا مسئلہ ہے یا کوئی اور رازکی بات ہے؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: یہ تو ہر قسم کے لوگ سوچا کرتے ہیں۔ نوازشریف ہی ملک کی ضرورت ہے، بے نظیر کے لوگ سوچتے ہیں بے نظیر ملک کی ضرورت ہیں۔ ہمارے علما کے خیال کے مطابق ایم ایم اے کی قیادت ملک کی ضرورت ہے۔ تو اسٹیبلشمنٹ کی بھی اپنی ایک سوچ ہوگی۔ ان کے نکتۂ نظر سے موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کون سی شخصیت ہے جو زیادہ بہترہے۔ لیکن فیصلے اب بہرحال دونوں انتخابات کے نتیجے میں ہی ہوں گے۔ ایک انتخاب اسمبلی میں صدر کا ہوگا اور یہ سیاسی لین دین اور سیاسی جماعتوں کے الائنس کی وجہ سے زیادہ نتیجہ خیز ہوگا۔ اس کے بعد جنرل اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔ آپ کی اور ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جیسے بھی ہو یہ انتخابات ہوں، اور ان میں جو منتخب ہوکر آجائیں وہ پھر آگے حکومت کو چلانے کی کوشش کریں۔

سوال: جنرل پرویزمشرف وردی اتارے بغیر صدارتی امیدوار ہوسکتے ہیں؟

سینیٹر ایس ایم ظفر: میرے مطابق نہیں ہوسکتے۔

حصہ