رجب عربی زبان کے لفظ ’’ترجیب‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی تعظیم کرنا ہے (یہ حرمت والا مہینہ ہے اور اس کی تعظیم کی جاتی ہے اس لیے اسے ’’رجب‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا)، اس کی جمع ’’ارجاب، رجاب اور رجبات‘‘ آتی ہے۔
بیعت عقبہ :یکم رجب نبوت کے گیارہویں سال ہوئی اور اس میں چھ آدمیوں نے بیعت کی تھی ۔
بیعت عقبی الاولیٰ : ماہِ رجب ہی میں نبوت کے بارہویں سال ہوئی‘ اس میں 12 افراد مسلمان ہوئے۔ ابو اسامہ اسعدؓ بن زرارہ ا لخز رجی نے انصار میں سب سے پہلے بیعت کی اور اسلام لائے۔ آپ ؓ عقبہ کے تینوں بیعتوں میں شریک ہوئے اور مصعبؓ بن عمیر کے ساتھ مدینہ منورہ میں سب سے پہلے جمعہ انہوں ہی نے پڑھا۔
معراج النبیؐ :27 رجب 12نبوت، ہفتہ یا پیر کی را ت دوسرے قول کے مطابق رمضان میں آنحضرتؐ کو معراج ہوئی۔ آپؐ کا سفر پہلے بیت المقدس پھر وہاں سے جہاں تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اور ’’آپؐ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘جیسا کے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے۔
فرض نمازیں :27 رجب 12 نبوت ہی کو یومیہ پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔
تحویل قبلہ: نصف رجب2ھ منگل کے دن آنحضورؐ کی مدینہ منور ہ تشریف آوری کے ٹھیک سترہ ماہ بعد کا واقعہ ہے تحویل قبلہ کا حکم عین اُس وقت نازل ہو ا جب آپؐ مسجد بنو سلمہ میں ظہر کی نما ز پڑھ رہے تھے دور کعتیں ہو چکی تھیں اور آپؐ کعبہ کی طرف گھوم گئے اس لیے اس مسجد کو ’’مسجد قبلتین‘‘ بھی کہتے ہیں۔
سریہ ابو عبیدہ ؓ بن جراح : 8 رجب میں حضرت ابو عبیدہ ؓ کو تین سو رفقا کی معیت میں قریش کے ایک قافلے سے تعرض اور بنو حنفیہ سے مقابلے کے لیے ساحل سمندر کی طرف بھیجا گیا جو مدینہ سے پانچ دن کی مسافت پر تھا اس سفر میں زادِ سفر ختم ہو گیا اور انہیں درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کرکھانے کی نوبت آئی۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کی خوراک کا انتظام فرمایا اور سمندر سے ایک بہت ہی بڑی ’’عنبر‘‘ نامی مچھلی کنارے پر پھینک دی۔ جسے ان تین سو افراد نے خوب سیر ہو کر کھائی اور اس کے باقی ماندہ ٹکڑے مدینہ منورہ بھی لے گئے۔ اس کو’’سریہ سیف الحجر‘‘ یعنی یہ سریہ سمندر کی جانب گیا تھا۔ دوسرے ’’سریہ بالخبط‘‘بھی کہتے ہیں۔ ’’خبط‘‘ درخت کے پتوں کو کہتے ہیں جو لاٹھی وغیرہ سے جھاڑے جائیں۔
سریہ خالدؓ بن ولید: رجب 9ھ چار سو سواروں کی معیت میں حضرت خالدؓ کا سریہ روانہ کیا گیا‘ اس وقت آنحضرتؐ تبوک میں تشریف رکھتے تھے۔ ہرقل کی جانب سے دوھتہ الجندل جو کہ بہ ذات خود بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا‘ اُس نے صلح کرلی۔ اس طرح اس کو اور اس کے بھائی کو آستانہ نبوت پر لایا گیا۔آنحضرتؐ نے ان کی جان و مال کی حفاظت فرمائی اور عزت و احترام سے واپس فرمایا۔ ان کے مسلمان ہونے میں اختلاف ہے۔
غزوہ تبوک:رجب9ھ بمطابق631ء میں اور بالاتفاق حجۃ الوداع سے پہلے ہوا۔ غزوہ موتہ کے بعد ہرقل نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اہلِ عرب سے بدلہ لے گا اسی لیے اس نے شام کے غسانی سردار کو ہدایات دیں کہ جنگ کی تیاریاں شروع کی جائیں۔ مدینہ منورہ میں جنگ کی افواہیں پھیلنے لگیں جس کی تصدیق مدینے میں آئے ہوئے شامی تاجروں نے بھی کیں۔ آنحضرتؐ نے کوچ کا ارادہ فرمایا اور تمام تر قحط سالی، شدید گرمی و مالی دشواریوں کے باوجود مسلما نوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے گھر کا تمام اثاثہ پیش کر دیا، حضرت عمر فاروقؓ نے نصف جائداد پیش کر دی، حضرت عثمان غنی ؓ نے ایک ہزار اونٹ اور دس ہزار سپاہیوں کے لیے رسد کا انتظام کیا۔ حضرت علیؓ کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر فرمایا اور خود تیس سواروں کا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کے اُن خبروں میں خاصا مبالغہ تھا اور شامی فوجوں کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ تبوک میں آپؐ نے بیس روز قیا م فرمایا لیکن جنگ کی نوبت نہ آئی البتہ آس پاس کے کئی حکمرانوں نے جزیہ دینا قبول کیا اور صلح کر لی۔ تبوک مدینہ منورہ سے 465 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
فتح دمشق : 20 رجب 13ھ بمطابق 635ء: دمشق (شام) جو کہ قیصر روم کا حصہ تھا‘ امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیقؓ کے زمانے میں مسلمانوںکو جنگی اقدامات پر مجبور کر دیا۔ حضرت ابی عبیدہ ؓ بن جراح اور حضرت خالد ؓ بن ولید نے دمشق کا 70دنوں تک ربیع الثانی سے محاصرہ کیا۔ ایک دن حضرت خالد ؓ موقع غنیمت جا ن کر چند جانبازوں کے ساتھ کمند لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے اور دروازہ کھول دیا ۔
دوسری طرف اہلِ دمشق نے حضرت ابی عبیدہ ؓسے مصالحت کر لی جس کی رُو سے ان کے مکانات اور امراء کوامان دے دی گئی۔
بیت المقدس کی مکمل واپسی: 27 رجب یوم الجمعہ 583ھ بمطابق 2 اکتوبر1187ء کو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی قیادت میں مسلم افواج بیت المقدس میں داخل ہوئیں۔ معرکہ حطین کی فتح کے بعد فلسطین کے تمام شہروں پر سلطان کا قبضہ ہو گیا‘ مسیحی نکل کر بیت المقدس میں جمع ہو گئے تھے لیکن سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے عقل مندی اور بہادری سے 91 سال بعد پھر سے اللہ کے اس گھر کو اس کے حقیقی پاسبانوں کے قبضے میں دے دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا یہ عظیم کارنامہ ہے جو اسلامی تاریخ کا اہم ترین حصہ ہے۔