سوشل میڈیا پر ایرانی جنگ

308

غزہ کی بھی خبر لیں:
غزہ پر اہلِ فلسطین پر قیامت خیز 105 دن گزر گئے۔ عجیب بے حسی کا سکوت طاری ہے۔ لاشوں کے ڈھیر لگے ہیں‘ تباہی ہے، قحط ہے۔ سوشل میڈیا سے معلوم ہوا کہ یہودی ملعون تو اب لاشوں کو بھی نہیں چھوڑ رہے۔ قبرستانوں سے لاشیں نکال کر لے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی فوجی کمانڈر نے صاف کہا کہ ہمیں نسل کشی کے احکامات ہیں۔ 25 ہزار تو وہ لاشیں ہیں جو غزہ کی وزارت صحت بتا رہی ہے جو ملبوں تلے ہیں وہ کوئی نہیں گن سکا۔ پوری دْنیا اس ظلم کو دیکھ رہی ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جنگ 2025 تک چل سکتی ہے۔ عالمی عدالت میں بھی کیس جنوبی افریقہ لے کر گیا۔ دو دن وہاں کی کارروائی بھی سوشل میڈیا پر جگہ لیتی رہی۔ ٹرینڈ پر ٹرینڈ بنتے رہے، مگر جن کو نہیں سننا ان کو نہیںسننا۔

اسلامی جمعیت طالبات نے بھی حکومت پاکستان کو جنوبی افریقہ کے ساتھ کیس میں فریق بننے کا مطالبہ decleration ofintervention ٹرینڈ کی صورت کیا۔ لوگ امید رکھتے تھے کہ پاکستا ن غزہ کے لیے کچھ کرے گا، مگر پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک سے زیادہ ہمت سائوتھ افریقہ نے کرلی۔ عدالتی کارروائی سوشل میڈیا پر بھی نشر ہوتی رہی۔ عدالتی فیصلہ تادم تحریر نہیں آیا مگر لوگ جانتے ہیں کہ یہ عالمی عدالت اقوام متحدہ کا ہی ادارہ ہے۔ جنگ روکنے کے لیے اقوام متحدہ اور اس کی سیکورٹی کونسل کی قراردادیں ردی میں جا چکی ہیں تو اس فیصلے کی اوقات سمجھی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر غزہ کے مسلما ن بچوں، خواتین و مرد حضرات کی ایمان افروز وڈیوز وائرل رہیں جن میں وہ اپنے پیاروں کی لاشوں پر صبر کی آیات تلاوت کرکے، اللہ سے مدد طلب کرتے نظر آئے۔ اس کے علاوہ پاکستان سے جو بیانات مقبول ہوئے اِن میں مفتی تقی عثمانی کاکراچی میں ’حرمت اقصیٰ کانفرنس‘ میں اعلان کہ کسی نفلی عمرے سے بہتر اہل غزہ کی مالی مدد ہے۔

ایرانی ایکشن :
ایرانی تیل، ایرانی پیٹرول، ایرانی چاکلیٹ، ایرانی بسکٹ، ایرانی شیمپو، ایرانی پنیر، ایرانی جوسز، ایرانی صابن سمیت کئی مصنوعات گزشتہ کئی سال سے ہمارے شہر کے اتوار بازاروں میں ٹھیلوں پر فروخت ہو رہی ہیں۔ لوگ سرحد پار سے ایرانی مال لا کر یہاں کروڑ پتی بن گئے۔ اَب اتنا کچھ لے ہی رہے ہیں تو بغیر بتائے ایک دو ایرانی میزائل اضافی آگئے تو کیا یہ پریشانی کی بات ہے؟ حالات کو سمجھیں ، ایک طرف یوکرین‘ روس کی جنگ ڈیڑ ھ سال سے جاری ہے۔ دوسری طرف غزہ پر اسرائیل جنگ چوتھے مہینے میں جا چکی ہے۔ کسی ایک ملک میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اسرائیل پرکوئی پتھر ہی مار دے، مگر یہاں معاملہ ہی الٹ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے سائے پھیل چکے ہیں اور یمن، لبنان، شام، عراق سمیت سارے خطے حساس ہو چکے ہیں۔ یمن پر تو اس ہفتے چار حملے ہو چکے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ایک جانب امریکی کیمپ ہے تو دوسری جانب اینٹی امریکہ کیمپ۔ بس یہی اِس وقت کی سب سے بڑی تقسیم ہے۔

سوشل میڈیاپر لڑی گئی جنگ:
سوشل میڈیا اس وقت اندھا دھند ا ستعمال کی مثال بنا ہوا ہے۔ جس کو جو ایجنڈا دیا گیا اْس نے وہی کام کیا۔ ایسی وڈیوز، ایسے تجزیے و تبصرے کہ اگلے دن سفیر بلانا کافی نہیں تھا کہ پاکستان کو بھی عسکری جواب دینا پڑگیا۔ مرگ برایران، بلوچستان، پاکستان کاجوابی وار، تہران ، BLA،ISPR، ,Missileattack,NationstandswithArmy,Retaliate جیسے ہیش ٹیگ بھرپور ٹرینڈ کرتے نظر آئے۔سوشل میڈیا پوسٹوں میں دیکھیں تو پوری شدت سے ایران کو مسلم دشمن، امریکی ایجنٹ ،منافق، بنا کر پیش کیا جا رہاتھا۔ائر فورس کی فوٹجز ڈال کر ’ابھی نندن‘ یاد دلایا جاتا رہا۔ ترکی، چین کی جانب سے کشیدگی ختم کرنے کی بات کی گئی۔ پاکستان کے کیس میں دیکھیں تو اس کے نتیجے میں شیعہ سنی تفریق مزید بڑھے گی۔ پاکستان 3 ماہ سے شیعہ سنی کشیدگی کے بدترین واقعات جھیل رہا ہے۔ ایسے میں یہ ساری صورت حال سوشل میڈیا پر تو اصولاً ڈسکس ہونی ہی نہیں چاہیے لیکن بہرحال ہو رہی ہے۔ اب ذرا دونوں جانب کے بیانیے دیکھ لیں، کیوں کہ سوشل میڈیا پر تو جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔

بیانیے کیا ہیں؟
اس ہیڈنگ میں ہم کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کریںگے، واقعات بتائیں گے، سوشل میڈیا رپورٹ کریں گے۔ قارئین خود اپنی رائے قائم کریں۔

ایران کا کہنا تھا کہ ایک ماہ قبل اْس کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے 11 افراد جنہوں نے مارے تھے، اْن کو ہی ٹارگٹ کیا تھا۔ پانچ دن قبل ایران نے اپنے ملک میں اْس ’عدل کی فوج‘ کے بندے پکڑے، وہیں سے مبینہ طور پر اُن کے ٹھکانوں کی معلومات لے کر یہ حملہ کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے ان حملوں میں 2 بچوں کی ہلاکت اور 3 بچیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔ وڈیو دیکھی تو معلوم ہوا کہ حیرت انگیز طور پر وہ پورا گھر تباہ ہو گیا میزائل سے مگر کیا بچوں کے علاوہ کوئی اور حملے میں نہیں مارا گیا؟ حکومت بلوچستان نے جاں بحق افراد اور زخمیوں کے لیے معاوضے کا اعلان بھی کردیا۔ وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا مزے دار بیان بھی آیاکہ ’’پاک ایران تعلقات میں اچھے برے معاملات آتے رہتے ہیں۔‘‘ پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کیا جب کہ پاکستان میں ایرانی سفیر کو ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی۔ یہ حملہ اْس دن ہوا جب ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کے وزیر اعظم اور ایران کے وزیر خارجہ کی ملاقات بھی ہوئی۔ دوسری جانب بندر عباس کے قریب ایران اور پاکستان کی بحریہ نے خلیج میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی کیں۔

اتفاق سے عراق، شام اور ہمارے بلوچستان میں ’امریکی ایجنٹوں‘ کی موجودگی کوئی عجیب بات نہیں۔ بھارتی ایجنٹوں کی موجودگی اور خوشی تو سوشل میڈیا پر پوسٹوں سے نظر آرہی تھی جو پاکستان کو جوابی کارروائی پر اکسا رہی تھی۔ ایک رائے یہ بھی چلتی رہی کہ بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے کیمپ ایران میں موجود ہیں اور کلبھوشن یادیو بھی ایران سے آپریٹ کرتا رہا ہے۔ اس لیے اگلے ہی دن پاکستان نے ایک فوجی آپریشن ایران میں کر ڈالا اور بی ایل اے اور بی ایل ایف کے مبینہ کیمپوں پر حملے ظاہرکیے۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق دوران آپریشن چھ سے آٹھ دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جب کہ بیشتر زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ایران نے یہ کہا کہ پاکستانی حملے میں 4 بچے اور 3 خواتین ماری گئیں۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ دونوں طرف سے کن بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ NationstandswithArmy کے ٹاپ ٹرینڈ میں جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بی ایل اے نے اپنے اہم جانی نقصان کی تصدیق کی ہے۔

مزید حقائق:
ایران کی طرف سے یہ ہفتہ بھر میں عراق، شام کے بعد پاکستان پر تیسرا حملہ تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ’جیش العدل‘ کا معاملہ سنی شیعہ معاملے پر کھڑا ہے۔ (مطلب ایران میں سنی آبادی کو انصاف /حقوق وغیرہ دلوانے کے لیے ) ایسے علیحدگی پسند گروپوں کو کھڑا کرنا، فنڈز دینا یا کسی بھی قسم کی مدد کرنا حیرت انگیز بات نہیں۔ یہ ایران فنڈڈ گروپ بھی ہوسکتا ہے، یہ بھارتی یا امریکی معاونت کا بھی ایجنڈا ہو سکتا ہے کیوں کہ ایران کو نقصان پہنچانا امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ گو کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ غزہ جنگ کے تناظر میں امریکہ اور اسرائیل مستقل ایران کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یمن کی حوثی افواج، لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کی پشت پناہی میں ’ایران‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس لیے اس موقع پر ایران کو مختلف طریقوں سے نقصان پہنچایا جا نا امریکی و اسرائیلی مفادکا حصہ کہا جا سکتا ہے۔ خصوصاً جب دونوں فوجیں (پاکستان اور ایران) مشترکہ جنگی مشقیں کر رہی ہوں۔ تاہم اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ایران ’’نورا کشتی‘‘ لڑتا ہے،تادمِ تحریر امید تو یہی ہے کہ معاملہ آگے نہیں بڑھے گا، کیوں کہ اس وقت پاک ایران تنائو یا کسی قسم کی جنگ صرف بھارت، امریکہ، اسرائیل کو ہی فائدہ دے گی۔ ایران تو پھر امریکہ و اسرائیل کا کھلے عام مخالف ہے مگر پاکستان تو غلطی سے بھی ایسا کچھ نہیں کرتا۔ امریکہ نے 2 مئی 2011 کو جس طرح پاکستان کے سرحدی نہیں بلکہ ایبٹ آباد میں داخل ہوکر جو کچھ کیا ، اس کے بعد تو امریکہ کی بینڈ بجا دینی چاہیے تھی مگر یقین مانیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ کام امریکہ نے ایک نہیںکئی بار کیا ہے۔ اِس طرح کے کیسز میں متفقہ اور معقول اصول یہ ہے کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ کسی ملک میں کوئی ایسی سرگرمی ہو رہی ہے تو آپ اپنے تعلقات کی بنیاد پر اْس سرگرمی کو، ان مجرموں کو پکڑتے اور کسی ملک کی سرحد کو پار نہ کرتے۔ ایران نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ جواب میں پاکستان نے بھی ایسا ہی کیا۔

ٹرمپ کی مقبولیت اور واشنگٹن پوسٹ کی خبر:
عدالتی پابندیوں کا شکار 77 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی امیدوار کے طور پر مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ سارا ( امریکی) سوشل میڈیا چیخ چیخ کر ٹرمپ کی مقبولیت کے ایسے قصیدے بیان کر رہا تھا کہ مجھے بھی متوجہ کرلیا۔ امسال پاکستان ہی میں نہیں، دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات ہونے ہیں۔ بنگلہ دیش کے تو ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ ایک اکیلی پارٹی کیسے جیت گئی، باقی سب جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ پھر تائیوان میں ہوئے۔ اب پاکستان میں ہونے ہیں اور امریکہ میں بھی اسی سال صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ اِس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ امریکی ریاست ایووا میں ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ سب سے مقبول امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ امریکہ میں 2024 کے صدارتی الیکشن میں جو اہم ایشوز ہیں اْن میں یوکرین جنگ، غزہ جنگ، اسقاط حمل، ڈیموکریسی، امیگریشن قوانین، معاشی مسائل، تعلیمی قرض، صحت پالیسی اور ہم جنس پرستی شامل ہیں۔

77 سالہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2 ریاستوں کولوراڈو اور مین ہیٹن میں عدالتی حکم پر نا اہل ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ پر بھی امریکی ریاست واشنگٹن کے اہم مقام وائٹ ہل پر حملے کے لیے اکسانے اور غیر اخلاقی حرکات کے الزام ثابت ہوئے تھے۔ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے امریکی صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا بھی الزام سامنے آیا۔ ٹرمپ اپیلوں میں جا کر اپنے لیے رستہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم صدارتی الیکشن مہم دونوں طرف سے زور و شور سے جاری ہے۔ امریکہ میں براہ راست 4 سال کی مدت کے لیے ایک با اختیار صد ر اور نائب صدر کے لیے عوام ووٹ ڈالتے ہیں۔ امریکہ میں صرف 2 ہی پارٹیاں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک مدمقابل ہوتی ہیں۔ جوبائیڈن ڈیموکریٹک کی جانب سے گزشتہ الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔ نومبر 2024 میں 60 واں الیکشن ہونے ہونے جا رہا ہے۔ امریکی صدر کی تبدیلی سے اْس کی اسلام دشمنی اور سامراجی پالیسیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آتی البتہ اس کے جمہوری ڈراموں کے تضادات ضرور سامنے آتے رہتے ہیں۔ ٹرمپ کا معاملہ یوں بھی خطرناک ہے کہ ان کا ’سنکی پن‘ بہت خطرناک ہے، اس حوالے سے ٹرمپ کی ایک تازہ مثال بتا دیتا ہوں۔ بات ایران کی ہو رہی تھی اور ٹرمپ آگئے تو لگے ہاتھوں ان کے ایک انٹرویو کی واشنگٹن پوسٹ میں ’فیکٹ چیک ‘خبر ضرور شیئر کرنا چاہوںگا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ جنرل قاسم کا بدلہ لینے کے چکر میں ایران نے خود فون کرکے حملہ کرنے اور بدلہ لینے کی ایسی اجازت مانگی کہ ہم جان بوجھ کر حملہ مس کریں گے۔ ٹرمپ نے کہاکہ ’ایران نے 18 ڈرون بھیجے۔ ان میں سے 5 نے خود کو تباہ کر دیا۔ باقی نے جان بوجھ کر ملٹری بیس کے ہدف پر نشانہ خطاکیا۔ ان حملوں میںکوئی بھی نہیں مارا گیا تھا۔ یہ ایران ہے جس کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کا بہت بڑا دشمن ہے۔ مگر وہ ہماری عزت کرتے ہیں اور میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس انٹرویو کے متن کی جانچ کرکے یہ بتایا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ نے غلط بیانی کی ہے۔

حصہ