گداگری مجبوری یا پیشہ؟

350

اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کا رزق مقرر کر دیا ہے۔ جب تک وہ اپنے رزق کا آخری دانا نہیں کھا لے گا‘ اُس وقت تک اسے موت نہیں آئے گی۔ انسان کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق اپنے جیسے ہم جنس کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ ایک انسان کے لیے سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ اپنے جیسے آدمی کے سامنے ہاتھ پھیلائے جب کہ وہ اپنا رزق کمانے کے لائق ہو۔ اللہ نے یتیموں، ناداروں، غربا و مساکین کی داد رسی کا حکم دیا ہے بلکہ سورہ الماعون میں تو یہ فرمایا ’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو آخرت کو جھٹلاتا ہے یہ وہی تو ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتا۔‘‘

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم در یتیم تھے‘ آپؐ سے زیادہ کون اس مظلوم طبقے کا بہی خواہ ہو سکتا ہے۔

قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے یتیم و بے کسوں کی سرپرستی اور داد رسی کا حکم دیا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات اور خیرات میں غربا و مساکین کا حق مقرر کیا گیا ہے۔ یہ انفرادی خیر کا کام خدمتِ خلق خدا ہے اور نیکیوں میں اس کا افضل مقام ہے۔ لیکن ایک منظم ریاست کی موجودگی میں یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کے لیے روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم و صحت اور انصاف کی فراہمی کا احسن انتظام و ذرائع مہیا کرے۔

مدینے میں ابتدائی دور مسلمانوں کے لیے معاشی دقتوں اور پریشانی کا زمانہ تھا‘ جنگ خندق کے وقت تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اسی دور میں ایک صحابیؓ جب دستِ سوال لے کر آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے اُن سے پوچھا کہ ’’تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’میرے پاس مٹی کا ایک پیالہ ہے۔‘‘ آپؐ نے اُن سے وہ پیالہ منگوایا اور صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوئے کہ ’’تم میں سے کون اس کو خریدے گا؟‘‘ ایک صحابیؓ نے دو درہم میں اسے خرید لیا۔ آپؐ نے ان صحابیؓ کو ایک درہم دیا اور کہا جاؤ بازار سے کلہاڑی خرید کر جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچو اور ایک درہم سے کھانے پینے کی اشیاخریدنا۔

صحابیؓ نے بازار سے لکڑیاں خریدیں بیچا اور رزق کمانا شروع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کو بھیک میں مچھلی نہ دو بلکہ مچھلی پکڑنا سکھا دو۔ صاحبِ صحت آدمی کے لیے گدا گری لعنت ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اس پر پابندی ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص صاحبِ صحت ہونے کے باوجود بھیک مانگتا ہے وہ قیامت میں اللہ کے حضور ایسے پیش ہوگا کہ اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا۔‘‘

اسلامی فلاحی ریاست میں گداگری قابلِ جرم عمل ہے وہ اس لیے کہ ریاست کا بیت المال اپنے ہر شہری کے روزگار اور صحت و انصاف کا ذمے دار ہوتا ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو بچے کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ہی اس کا روزینہ بیت المال سے اس وقت تک کے لیے مقرر کر دیا کرتے تھے جب تک کہ وہ برسر روزگار نہیں ہو جاتا۔ آج بھی دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں employment UN وظیفے مقرر ہیں۔ سوئیڈن میں تو ’’عمرؓ لا‘‘ نافذ ہے اور سوئیڈن کی حکومت پیدائش سے لے کر موت تک ہر شہری کو روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ صحت‘ تعلیم اور انصاف فراہم کرنے کا ذرائع مہیا کرتی ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں گداگری ایک منظم پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ بے شمار لوگوں نے گداگری کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔ اس میں مافیا کے گروہ بڑے سفاکانہ طریقے سے بچوں کو اغوا کرکے ان کو معذور کرتے ہیں اور پھر شہر کے مختلف علاقوں میں بیٹھا کر بھیک منگواتے ہیں۔ یہ شہر کے چوکوں‘ چوراہوں پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں اس میں علاقے کی پولیس بھی ملوث ہوتی ہے۔

آج سوشل میڈیا کا دور ہے لہٰذا اب بہت سے گدا گر اس کو استعمال کرتے ہیں اور مخیر حضرات سے کثیر رقم وصول کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس کو ’’جدیدیت‘‘ کا رنگ دے کر جعلی خدمت کے ادارے بنا کر سوشل میڈیا کے ذریعے کروڑوں روپے حاصل کر رہے ہیں۔ جعلی یتیم خانوں کے نام پر مائیک لگا کر قرآن وسنت کا واسطہ دے کر گلی محلے میں مانگتے چلتے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘

سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ایمان والے مال دار ہوں یا غریب‘ ہر حال میں انفاق کرتے ہیں۔‘‘

قرآن وسنت کی روشنی میں گداگری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب کہ سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’وہ سفید پوش لوگ تمہاری مدد کے مستحق ہیں جو اللہ کے دین کے کام میں لگے رہنے کی وجہ سے مالی تنگی کا شکار ہونے کے باوجود کسی کے سامنے خود داری کی وجہ سے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔‘‘

اکبر بادشاہ کے نورتن رحیم خان خانا نے کہا۔

ماگن سے مرنا بھلا جے کیہو ماگن جائے
اس سے پہلے وہ مرے ہے جن مکھ نکست نائے

یعنی ’’مانگنے سے مر جانا بہتر ہے جو کوئی مانگتا ہے۔ مگر اس سے پہلے وہ مر جاتا ہے جو مانگنے والے کو نہیں دیتا ہے۔‘‘

آج سوشل میڈیا کا دور ہے لہٰذا کئی ایسے کروڑ پتی بھکاریوں کے انٹرویو بھی شائع ہو رہے ہیں جو بھیک مانگ کر کروڑ پتی بنے ہیں۔

فی الحال کراچی سے ایک نوجوان خوبرو لڑکی کا انٹرویو سوشل میڈیا کی زینت بنا جو اندھی بن کر پوش علاقوں میں بھیک مانگتی تھی جو کہ گدا گری سے کروڑوں روپے کما کر ملیشیا میں کئی فلیٹس اور ریسٹورنٹ کی مالک بن چکی ہے۔ آج تمام بڑے شہروں‘ مسجد کے دروازے، بازاروں، ہوٹلوں چوکوں چوراہوں، بس اڈوں اور بسوں کے اندر پیشہ ور بھکاریوں کی بھیڑ نظر آتی ہے۔ حد تو یہ کہ عید‘ بقرعید کے موقع پر تمام بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں گاؤں دیہات سے بھکاریوں کا ریوڑ آ جاتا ہے جس میں اکثر مصنوعی طور پر اپاہج بنے رہتے ہیں تاکہ لوگ ترس کھا کر زیادہ پیسے دیں۔

اب تو منظم طریقے سے ہندوستان اور پاکستان کے گداگری کے مافیا کے ٹھیکیداروں نے سیکڑوں کی تعداد میں بھکاریوں کو حج اور عمرہ کے نام پر سعودی عرب بھیج رہے ہیں جہاں سے وہ لاکھوں ریال بھیک مانگ کر لاتے ہیں جس میں سے کچھ ان کو بھی ملتا ہے باقی ٹھیکے داروں کا ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے ایسے سیکڑوں بھکاریوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک قابل ذکر تعداد اُن بھکاریوں کی بھی ہے جو نشے کے عادی ہوکر فٹ پاتھ کے باسی ہو جاتے ہیں‘ یہ بھیک بھی مانگتے ہیں اور چوریاں بھی کرتے ہیں۔ اس لعنت میں مبتلا تیسری دنیا کے غریب ممالک کے لوگ ہیں جہاں کے حکمران بد عنوانیوں میں مبتلا ہو کر اپنی جیبوں کو بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ تعداد ہندوستان، پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔

ایک فلاحی ریاست میں ہی اس لعنت کا خاتمہ ممکن ہے۔حیرت انگیز صورت حال یہ بھی کہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور جاپان جیسے G10 کے ممالک نے غریب اور تیسری دنیا کے ممالک کو قومی سطح پر I.M.F اور دیگر مالیاتی اداروں سے مل کر ان کو بھکاری بنا دیا ہے۔ پاکستان کا نمبر سر فہرست ہے آج پاکستان کی پہچان بھکاری ملک کے طور پر کی جاتی ہے اور اس ملک کو بھکاری بنانے میں ریاست پر حکمرانی کرنے والے وہ تمام عناصر ملوث ہیں جن میں سیاست دان، بیوروکریٹ اور پنڈی کے پنڈتوں کا کردار بنیادی ہے۔ یہ سب مل کر ملک کو کنگال بنا چکے ہیں۔ عام آدمی کا بھیک مانگنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر جب کوئی قوم بھیک مانگنے لگے تو یہ المیہ سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے ملکوں کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔ اس عمل کو حکمران غیرت اور خود داری کے منافی بھی نہیں سمجھتے بلکہ اس کو ’’ہنر‘‘ بنا لیا گیا ہے۔

حصہ