انسان محفوظ ہونے کی آرزو میں غیر محفوظ ہونا محسوس کرتا ہے، اور اس احساس کو مقابلے کے میدان میں لے جاکر اپنی زندگی برباد کرتا رہا ہے۔ وہ پستول کو اپنی جان کا محافظ سمجھتا ہے اور خود پستول کی حفاظت کرتا رہتا ہے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کا محافظ ہے۔
وہ دولت اکٹھی کرتا ہے تاکہ غریبی سے بچ سکے، اور پھر اس دولت کو خرچ نہیں کرتا کہ غریب نہ ہوجائے، اور اس طرح دولت کی موجودگی میں غریبانہ زندگی بسر کرتا ہوا آخرکار ہلاک ہوجاتا ہے۔ غریبی کا مقابلہ کرتا ہے اور غریبی ہی میں زندگی بسرکرتا ہے۔ اپنے حال کے خود ہی مقابل ہے اور خود ہی خود کو ہلاک کرتا ہے۔
وہ امن چاہتا ہے اور اس کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے جنگ کی تیاری کرتا ہے۔ امن کی خاطر جنگ… مقابلے کا کرشمہ ہے۔
انسان ترقی کرنا چاہتا ہے، فیکٹریاں لگاتا ہے، مکان بناتا ہے اور ہر لمحہ، ہر لمحے سے مقابلہ کرتا ہوا فیکٹری اور مکان کو چھوڑتا ہوا مٹی کے ایک تاریک گھروندے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روپوش ہوجاتا ہے۔
وہ بڑے بڑے ایام مناتا ہے، یادیں مناتا ہے، مقابلے بیان کرتا ہے… پرانے مقابلے، پرانے واٹر لو… پرانے پانی پت… پرانے ابن قاسم، پرانے غزنوی… پرانے سومنات…
وہ پرانی فتوحات پر نئے چراغاں کرتا ہے… پرانی خانقاہوں پر نئے عرس مناتا ہے… اور نئے چراغاں کے باوجود اس کے اپنے دل میں پرانے اندھیرے رہتے ہیں… انسان نہیں سمجھتا۔ وہ کیسے سمجھے؟ ڈھول کی تھاپ پر اور طبلے کی تال میں دھمال ڈالنے والا انسان بھول جاتا ہے کہ انسان کو عقل نام کی دولت بھی ملی ہوئی تھی۔ نہ جانے یہ دولت کہاں ضائع ہوگئی… وہ تو صرف مقابلہ کرتا ہے… ڈھول کا ڈھول سے، طبلے کا طبلے سے، آواز کا آواز سے… اور اس مقابلے میں اتنا محو ہوتا ہے کہ اصل واقعہ ہی بھول جاتا ہے۔ بس مقابلہ یاد رکھتا ہے، دمادم مست قلندر… نعرے لگاتا ہوا غافل انسان خاموش ہوجاتا ہے۔ یادیں مناتا ہوا خود فراموش ہوجاتا ہے۔
عقیدے کی اصلاح نہ ہو تو مقابلہ جاری رہے گا۔ خیال کا مقابلہ وہم سے، ہوا کا مقابلہ ہوس سے، روایت کا مقابلہ حقائق سے، خواب کا مقابلہ حقیقت سے، مذہب کا مقابلہ ضرورت سے، ذات کا مقابلہ کائنات سے، اور سیاست کا مقابلہ سیأت سے۔
عقیدے کی اصلاح یہ ہے کہ ہم یقین کرلیں کہ زندگی دینے والے نے ان تین باتوں کا فیصلہ کررکھا ہے:
1۔ زندگی کتنا عرصہ قائم رہے گی اور کب ختم ہوجائے گی۔ اسے کوئی حادثہ وقت سے پہلے ختم نہیں کرسکتا، اور کوئی احتیاط اسے وقت کے بعد قائم نہیں رکھ سکتی۔ جب عرصۂ قیام مقرر ہوچکا، تو مقابلہ کیا ہے! زندگی کا انجام جب موت ہی ہے تو پھر یہ کوشش اور مقابلہ کیا ہے؟
2۔ عزت اور ذلت کوشش کے درجے نہیں، نصیب کے مقامات ہیں۔ ذرے کو آفتاب کب بننا ہے اور آفتاب کوگرہن کب لگنا ہے، اس کا فیصلہ ہوچکا ہے… پیدائش کے ساتھ ہی نیک نامی اور بدنامی کے ایام پیدا ہوجاتے ہیں… اب مقابلہ کس بات کا؟
3۔ رزق مقرر ہوچکا… مال کا رزق، سانس کا رزق، بینائی کا رزق، عقل کا رزق، ایمان و ایقان کا رزق۔ کوئی کوتاہی خوش حالی کو زوال نہیں دے سکتی، یہ فیصلہ ہوچکا۔ مقابلہ واہمہ ہے۔
[واصف علی واصفؔ’’دل دریا سمندر‘‘… صفحہ 123]