یلوا یونیورسٹی ترکی میں هيئة علماء فلسطين في الخارج کے زیراہتمام یکم جولائی تا 20جولائی 2019‘‘الملتقى العلمي الدولي الأول للشباب’’ کا انعقادکیا گیا۔ جس میں 36مسلم ممالک کے نوجوان شریک ہوے ۔ راقم الحروف کو بھی اللہ رب العالمین نے اس نادر موقع سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائی ۔ اس پروگرام کی اہم خاصیت یہ تھی نوجوانوں کو اپنے ممالک میں دعوتی میدان میں وسیع پیمانے پر مؤثر انداز میں کام کرنے داعیہ پیدا کرنے کے لیے مختلف اسلامی تحریکات کے تجربات پیش کیے گئے ،تاکہ وہ اپنے علاقے کے حالات کی مناسبت سے ان تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ان تجربات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے تاکہ اس سے دعوت کے میدان میں کام کرنے والے احباب استفادہ کرسکیں ۔
سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مسلم دنیا میں اسلامی تحریکات کا وجود عمل آیا، جس کے ذریعے مسلم معاشرے کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ قیادت وسیادت کا منصب لادین ونااہل لوگوں سے چھین کر محب اسلام اور دیانتدار لوگوں کے حوالے کرنے کا شعور پیداکیا گیا ۔مصر میں اخوان المسلمون ،تیونس میں حزب النہضہ ،ترکی میں حزب العدالۃ والتنمیہ ،فلسطین میں حماس ،برصغیر میں جماعت اسلامی اور دیگر ممالک میں ان تحریکات نے اپنی دعوت کو وسعت دیتے ہوے پُرامن اور جمہوری طریقے سے اقامت دین کی فکر کو زندہ کیا ،جس کے نتیجے میں تیونس،لیبیا،ترکی وغیرہ میں اسلامی حکومت کی راہ ہموار ہوئی ۔
اسلامی تحریکات نے کس طریقے سے اپنی دعوت کو عام کیا ؟وہ کونسے اسباب تھے جن کی وجہ سے ان کو بہت جلد معاشرے میں پذیرائی ملی ؟ان کےتجربات سے مستفید ہونے کے لیے ادارے کے ذمہ داران نے مختلف ممالک سے اسلامی تحریکات کے ذمہ داران کو مدعو کیا ،جنہوں نے بہت تفصیل کے ساتھ نوجوانوں کو اپنے تجربات سے آگاہ کیا ۔انہوں نے تمام شرکاء سے کہا کہ ہر ملک کا اپنا ماحول وطریقہ کار ہے لہذا اسی طریقے کو سامنے رکھتے ہوے آپ نے دعوتی کا م کرناہے ۔ہم نے جو بیان کیا ہے اگر اس میں سے کوئی چیز آپ کے معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے کارآمدہو تو ضرور استفادہ کیجیے۔
دعوتی میدان میں شخصیات کے تجربات
دعوت الی اللہ کی اہمیت کے پیش نظر اس پروگرام میں دعوت الی اللہ کی اہمیت ،فقہ الدعوۃ،دعوت کے مقاصد ،دعوت الی اللہ کے قواعد،کے موضوعات پر لیکچرز کا اہتمام کیا گیا ۔اسی طرح دو شخصیات جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کے دین کی اشاعت میں صرف کردی ،انہوں نے کس طریقے سے اور کون سے وسائل استعمال کرکے عامۃ الناس کو دین کی طرف مائل کیا اس کا تذکرہ کیا گیا۔ ان میں ایک ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط ہیں جو کویت کے رہنے والے والے تھے۔ انہوں نے افریقہ میں جہاں دین اسلام کا نام ونشان بھی نہ تھا وہاں جاکر اپنے تمام وسائل بروے کار لاکر دین اسلام کی تعلیمات کو عام کیا۔ آج وہاں دینی جامعات ہیں ،اسلام کی تعلیمات عام ہوتی جارہی ہے ۔ان کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی اخلاص نیت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو صرف کریں تاکہ معاشرہ درست راستے کی طرف گامزن ہوسکے۔
دوسری شخصیت شام کے عالم شیخ بدرالدین الحسنی کادعوتی میدان میں عظیم تجربہ کے حوالے سے دمشق سے آے ہوے مہمان شیخ اسامہ رفاعی نے گفتگو کرتے ہوے کہا:شیخ المغرب سے دمشق تشریف لاے اور انہوں نے عامۃ الناس کی اس انداز میں تربیت کی کہ ہر شخص ان کو اپنا رہنما تسلیم کرتا تھا ۔جب شیخ ماں کی گود میں تھے توماہ رمضان میں ان کی ماں کا یہ معمول ہوتا تھا کہ ان کو سحری کے وقت دودھ پلاتی تھیں اور اس کے بعد افطار کے بعد ،پورا دن شیخ کو دودھ نہیں پلاتی تھیں ۔ایک دفعہ اس طرح ہوا کہ شیخ بہت زیادہ روے لیکن ان کی ماں نے ان کو دودھ نہیں پلایا یہاں تک کہ شیخ بدرالدین سوگئے اور ان کی والدہ بھی سوگئیں ۔شیخ کی والدہ نے خواب میںدیکھا کہ آپ ﷺ شیخ بدرالدین کے منہ میں کھجور ڈال رہے ہیں ،ان کی والدہ بیدار ہوگئیں اور دیکھا کہ شیخ کےمنہ میں گھٹلی ہے۔ ان کی اہم خاصیت یہ تھی کہ وہ معاشرے میں خود نکلے اور لوگوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے ساتھ فرانسیوں کے خلاف جہاد کے لیے تیار کیا ۔ان کے طرز عمل سے یہ سبق ملتا ہے کہ بحیثیت مسلم نوجوان کے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھی اپنے اسلاف کی طرح اپنے اداروں کے نظام چلاتے ہوئے معاشرے کی اصلاح کے لیے گھر گھر تک پہنچیں اور اسلامی انقلاب کے لیے عامۃ الناس کوتیار کریں ۔
ترکی مسلم ممالک اور تحریکات اسلامی کے لیے آئیڈیل
خلافت عثانیہ کے سقوط کے بعد پوری امت کو تقسیم کردیا گیا اور ہر جگہ استعماورں نے اپنے کارندوں کو حکومت دی اور اپنے باطل نظریات کو نافذ کرنے لگے ۔ترکی میں کچھ اسی طرح ہوا ۔ترکی میں انقلاب کی تاریخ پر بات کرتے ہوے ڈاکٹر عمر قورماز (سابق رئیس شؤون الدينية ترکی /مذہبی امور) نے کہا خلافت عثمانیہ میں المشيحة الإإسلامية کے تحت پانچ ادارے تھے ۔۱۔القضاء الشرعی ۲۔الافتاء۳۔تعلیم۴۔اوقاف ۵۔شؤون المساجد( امور مساجد)
1907 میں ان کو تبدیل کرکے وزارۃ عدلیہ ،وزارت الشرعیہ الاوقاف،وزارۃ تعلیم ،شؤون الدینیہ کو ترتیب دیا گیا ۔پانچ سال بعد عبادات میں دخل اندازی شروع کردی اور اذان کو عربی سے ترکی زبان میں کردیا گیا ،نمازوں کو ترکی میں کردیا گیا ،قرآن مجید کو اور اس کی تدریسی عمل کو عربی سے ترکی زبان میں تبدیل کردیا گیا ۔لیکن یہ تجربہ ناکام رہا کیونکہ لوگ اس میں دلچسپی نہیں لیتے تھے اور خفیہ طور پر عربی میں ان تمام امور کا اہتمام کرتے تھے ۔اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے دادا کا تذکرہ کرتے ہوے بتایا کہ :ان کے داداکو ان کو اس وقت کی صورت حال کابتاتے ہیں جب ترکی میں اذان ہوتی تھی تو ہم اس کے جواب میں عربی میں اذان دہراتے تھے ۔اسی طرح انہوں نے جامع مسجد ‘‘سلطان احمد’’استنبول کے امام قاری آصف آفند ی کا واقعہ ذکر کرتے ہوے کہا ایک دفعہ حکومت کی کمیٹی نے ان کو بلایا تاکہ وہ ترکی زبان میں قرآن مجید سنیں ۔جیسے ہی وہ اندر داخل ہوے تو ان کو کہتے ہوے سن لیا کہ یہ کتاب تو شاعری کی کتاب ہے ۔قاری صاحب کرسی پر بیٹھے تو انہوں نے کہا :سورۃ الفاتحہ ترکی میں پڑھو جس طرح تم قرآن مجید تجوید سے پڑھتے ہو ۔قاری صاحب نے پڑھ لی لیکن ان کو پسند نہیں آئی ۔اس کے بعد قاری صاحب سے کہا کہ :قرآن عربی میں پڑھوتو وہ کرسی پر سیدھے بیٹھے تھے ،ادب کے ساتھ پیر اوپر کرکے بیٹھ گئے ۔انہوں نے پوچھا: تم اس طرح کیوں بیٹھے ہو؟جواب دیا گیا اس طرح عادت ہے ۔اس کے بعد انہوں نے سورۃ الحاقۃ کی آخری آیات کی تلاوت شروع کی
ترجمہ:پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو، اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے (١)کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول کا قول ہے، یہ کسی شاعر کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے، نہ کسی کاہن کا قول ہے (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو، (یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔
جب یہ آیات سنیں تو کہا :رکو،رکو کیا تم نے ہماری بات سن لی تھی کہ یہ قرآن شاعری کی کتاب ہے ؟قاری صاحب نے کہا:نہیں انہوں نے کہا کہ یہ آیات کیسے پڑھیں ہیں ؟کہاگیا ویسے ہی ۔پھر پوچھا کہ تمہیں ان کا مطلب پتا ہے ؟کہا:میں تو حافظ قرآن ہوں،مفہوم نہیں جانتا ۔ڈاکٹر عمر نے کہا : قاری آصف آفندی نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ :میں ان کی بات سن لی تھی اس وجہ سے میں ان آیات کی تلاوت کی ۔