یہ طے ہے کہ حکم اسی کا چلتا ہے جو حاکمِ وقت ہوتا ہے۔ حاکم جیسا ہوگا‘ رعایا بھی ویسی ہو جاتی ہے۔ حاکم کا نظریہ، اس کی سوچ ، اس کی پسند‘ اس کا لباس… ہر چیز یا تو حکم نامے کے تحت عوام اپنا لیتے ہیں یا پھر لوگ حاکم ، بادشاہ یا آمر کو خوش رکھنے کے لیے اپنا لیتے ہیں۔ حکمران کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ رعایا کا باپ ہوتا ہے اور یہ سچ بھی ہے۔
اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہوئے‘ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں‘ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو‘ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کی اعتبار سے بھی بہتر ہے۔‘‘ (النساء:59)
قانون، معیشت، معاشرت، ہر بات حاکم وقت کے فرمان کی مرہونِ منت ہے۔ موضوع تحریر شریعتِ الٰہی کے نفاذ کا ہے جو قرآن و سنت کے تابع ہو اور یہ وہی کر سکتا ہے جو خود اس کا داعی اور پابند شریعت ہو‘ اس کا اختصار کے ساتھ آپؐ کی بعثت اور کچھ پہلے کے ادوار سے پیش کروں گا کیوں کہ ملک میں آئندہ چند ہفتوں میں انتخابات ہونے والے ہیں جو ملکی سمت کا قبلہ متعین کریں گے۔
آپؐ کے بعثت سے قبل پوری دنیا شرک اور کفر کی ذلالت میں گھری ہوئی تھی۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں تھا جہاں خداوند واحد کی پرستش ہوتی تھی۔ مصر کی قدیم تہذیب کے لوگ ابوالہول کے پجاری اور فراعنہ مصر کے حنوط شدہ لاشوں میں اپنی نجات کی راہیں تلاش کر رہے تھے۔ بھارت کے کروڑوں لوگ ہندو دیو مالائی داستانوں میں ہزاروں پتھروں اور شجر و حجر کے پجاری تھے اور آج بھی ہیں۔ چینی کنفیوشس کے فلسفے کو بھلا بیٹھے تھے۔ ایرانی آتش پرست، عیسائی تثلیث کے پجاری اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو فرزند خدا بنا کر انجیل و توریت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال چکے تھے اور آج بھی اسی پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ کے گھر کعبہ کو 360 بتوں کا مرکز بنا دیا گیا تھا اور حج و عمرہ بھی برہنا ہوکر اور ناقوس و سنکھ بجا کر کیا کرتے تھے۔ یہ مختصر حالات دنیا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ حکمرانوں کا جو دین تھا وہ عوام اور رعایا کا دین تھا اور یہ جبر اور ظلم کے ذریعے نافذالعمل تھا۔ انحراف کرنے والے موت کی سزا کے مستحق تھے۔ ایسے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا بن کو تشریف لائے اور صفا کی چوٹیوں سے نعرہ توحید کی صدا گونج ’’
یہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی
نبوت سے سر فراز ہونے سے پہلے تک آپؐ 40 سال مکہ کی ہر دل عزیز شخصیت‘ صادق و امین اور قابلِ احترام تھے۔ مکہ پر تسلط اور غلبہ مشرکان مکہ کا تھا۔ مکے کے حنفہ قلیل تعداد میں تھے اور خداوند واحد کی پرستش کرتے تھے مگر ان کے حوالے سے مشرکین مکہ کو کوئی تعرض نہ تھا کیوں کہ و مغلوب و مجبور تھے۔ آپؐکے بارے میں یہی بات سب کو معلوم تھی کہ آپؐ لات و منات کی عبادت نہیں کرتے ہیں اور غارِ حرا میں جاکر خداوند واحد کی عبادت کرتے ہیں۔
اس ابتدائی حالت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار اور مشرکین اس وقت تک آپ کو اپنا دشمن نہیں گردانیں گے جب تک ان کی حکمرانی اور خود ساختہ نظام زندگی کو آپ کی جانب سے کوئی خطرہ نہ ہو جائے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غارِ حرا میں نور رسالت سے منور کیا گیا اور آپؐ نے کوہِ صفا سے اہلِ مکہ کو یا صباحا یا صباحا ،اہل مکہ جب اکٹھے ہو گئے تو آپؐ نے ان سے پوچھا کہ ’’اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے دشمن کی فوج آرہی ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟’’ سب نے کہا ’’بالکل یقین کریں گے کیوں کہ آپؐ صادق و امین ہیں۔’’
پھر آپ ؐ نے فرمایا یا ایھا الناس یا ایھا الناس قولو لا الہ الااللہ تفلحون اتنا کہنا تھا کہ ہر طرف سے آپؐ پر آوازیں آنے لگیں۔ روایت میں ہے کہ ابو لہب جو آپ کا حقیقی چچا تھا’ اس نے آپؐ پر کنکریاں ماریں۔
اس انقلابی اعلان اور رد عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار اور مشرکین کو ہماری عبادات سے کوئی غرض نہیں دشمنی ہے تو کلمہ توحید کے نظام شریعت اور بالا دستی سے۔ پھر کیا تھا مکہ ایک نظریاتی میدان، جنگ میں تبدیل ہو گیا اور مکہ کے صحن سے لے کر ہر گھر میں دین محمدی کے چرچے اور مخالفت شروع ہو گئی۔
سب سے پہلے اماں خدیجتہ الکبریٰؓ ایمان لائیں ، ابوبکرؓ ، حضرت علیؓ اور بلالؓ و آل یاسر حضرت عثمانؓ غنی چند نفوسِ قدسیہ ایمان سے سرفراز ہوئے۔ دین اور دعوت دارِارقم میں محصور رہا۔ آپؐ مکہ میں آنے والے وفود، زائرین و تاجروں کو توحید و رسالت اور فکر آخر کی دعوت دیتے مگر تعزیر و ظلم کا بازار گرم ہوتا گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے کہ ’’اللہ عمرین میں سے کسی ایک کو اسلام کا دست و بازو بنا دے۔‘‘ اور اللہ نے سن لی اور حضرت عمرؓ بن خطاب آپؐ کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے اور ایمان کی دولت سے بہرہ مند ہوئے۔ پھر مکہ نعرۂ توحید سے گونج اٹھا۔ طاقت کا توازن اسلام کے پلڑے میں آنا شروع ہو گیا۔
13سالہ طویل مگر عزیمت اور آزمائش سے پر جدوجہد کے نتیجے میں اسلام کی روشنی مکے سے نکل کر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ مشرکانِ مکہ اپنے تمام تر سفاکانہ حربے اختیارچکے تھے اور آپؐ کی مظلومیت اور اسلام کی اسیری ختم ہو نے کا وقت آن پہنچا، ٹھیک اسی دن آپؐ کفار کے حصار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مدینہ ہجرت کرنے کے لیے اپنے دوست و رفیق غارِ یار حضرت ابو بکر صدیقؓ کو لے کر نکلے اور اللہ نے مشرکوں کی بصارت سلب کر لی اور آپؐ غارِ ثور میں قیام کرتے ہوئے 12 ربیع الاوّل 13ہجری جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا‘ بمطابق 24 ستمبر 622ء بروز جمعہ مدینہ پہنچے۔
یثرب کی گلیاں مرد وزن اور بچیوں کے استقبالی ترانے سے گونج اٹھا۔
جس حقیقت کو واضح کرنا ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے ہجرت کرتے وقت جو دعا پڑھتے جاتے تھے تھے وہ سورہ بنی اسرائیل کی یہ آیات تھیں۔
’’باری تعالیٰ! مجھے جہاں داخل کر عزت کے ساتھ اور جہاں سے نکال عزت کے ساتھ اور اقتدار سے میری مدد فرما۔‘‘
مکے میں دین محکوم و مجبور تھا، نیکی اور تبلیغ دین کا ہی کام ہو رہا تھا مگر وہ بھی ہزار رکاوٹوں اور ظلم و جبر کے درمیان، مزاحمت تھی بھی تو صبر و استقامت و برداشت تھے۔ قرآن کی سورتوں اور آیات جو بھی نازل ہوئیں‘ وہ توحید و رسالت، فکرِ آخرت اور تعمیر سیرت و کردار اور اخلاقی تربیت کے حوالے سے نازل ہوئیں اور اسی کی بنیاد پر اصحابِِ رسول نے ایک ایسی جمعیت تیار کی کہ جن کے سیرت و کردار کی مقبولیت اور رضا مندی کی گواہی اللہ نے خود دی۔ یہ وہ سنگریزے تھے جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تراش کر ہیرے کی چمک عطا کی۔ جنہوں نے فدایان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اس کے ذکر سے ہماری زبانیں تر ہو جاتی ہیں اور ایمان تر و تازہ ہو جاتا ہے۔
مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اقتدار حاصل ہوا اور اسلامی شریعت کے تمام فرائض و نصوص کے احکامات نازل ہونا شروع ہوگئے اور اس کا نفاذ بھی شروع ہو گیا۔ مجرمان کو سزائیں بھی دی جانے لگیں۔
پہلا معرکہ حق و باطل 17 رمضان المبارک 2 ہجری جس میں مستقبل کا تعین ہو گیا اور اس دن کو ’’یومِ فرقان‘‘ کہا گیا ہے۔ اور اس آیت کی حقانیت ثابت ہوئی کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا اس لیے کہ یہ مٹنے والا ہے۔‘‘
اس کے بعد اسلام کے فتوحات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور فتح مکہ کے بعد پورا جزیرۃ العرب بلادِ اسلامیہ کے زیر قبضہ آ گیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ سے جب عدی بن حاتم طائی حالتِ کفر میں ملنے کے لیے آئے اور ایمان لائے تو آپؐ نے اُن کو بشارت دی۔ آپؐ نے فرمایا ’’عدی تم لمبی عمر پاؤ گے۔ عدی تم دیکھو گے کہ مدینے کے یہ غریب مسلمان ہاتھوں میں سونے کی تھیلیاں لے کر گھومیں گے اور کوئی لینے والا نہ ہوگا۔ عدی تم دیکھو گے کہ صنعا سے حجر موت تک ایک عورت تنہا سونے میں لدی پھندی سفر کرے گی اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔‘‘
آپ ؐ کی تمام بشارتیں عدی بن حاتم طائی کے زمانے میں پوری ہوئیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد مبعوث ہونے والے انبیائے کرام اور رسولوں کے حیاتِ طیبہ کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وقت کے ہر نبی کے ساتھ بگڑی ہوئی قوم نے ناروا سلوک کیا اور کسی کو آگ میں ڈالا‘ کسی کو آرے سے چیر ڈالا اور اہلِ اقتدار کے ساتھ مل کر طرح طرح کی تکالیف اور ظلم کیے اور اس میں بنی اسرائیل پیش پیش رہے ہیں۔ حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو اقتدار نہیں ملا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اللہ کے نبیؐ اور رسول ناکام ہوئے بلکہ وہ قوم اور اُمت راندہ درگاہ ہوئیں جس نے انبیا کی دعوت کو ٹھکرایا حتیٰ کہ اللہ کے عذاب کا شکار ہو کر نشانِ عبرت بن گئیں اور آج بھی ان بستیوں کے کھنڈرات اہلِ زمانہ کے لیے باعث عبرت ہیں۔ اہلِ اسلام نے جب سے قرآن و سنت پر عمل کرنا چھوڑا ذلت و خواری مقدر بنی۔
مسلماں آج بھی دنیا میں بے پندار ہے آقا
ذلیل وخوار ہے مست مئے اغیار ہے آقا
جو دیکھو مرد عیسائی تو عورت ہندوانی سی
یہ اپنی وضع میں بے حیا بے زار ہے آقا
بھلا کر نس قرآنی یہودی و نصرانی
شیاطین زمانہ کا یہ پیرو کار ہے آقا
بھلا کر آپ کی بخشی ہوئی تیغ ہلالی کو
یہ دشمنوں سے مانگتا تلوار ہے آقا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
جب سے اہل شریعت کے ہاتھوں سے اقتدار گیا محکومی ، مظلومی اور غلامی مقدر ہو چکی ہے۔ جغرافیائی آزادی حاصل ہونے کے باوجود ذہنی، معاشی، تہذبی اور ثقافتی قلابہ مسلم دنیا کا مقدر بن چکا ہے۔