خواہش

167

وہ اپنے سامنے اس لاابالی سی لڑکی کو بھاگتے دیکھتی چلی جا رہی تھی۔ وہ اسکول کا میدان تھا جہاں وہ ہر فکر سے بے نیاز، اپنے آپ میں مگن اچھلتی کودتی جارہی تھی۔ بوڑھے پیڑ کے نیچے سے گزرتے ہی اچھل کر اس کی جھکی ہوئی ڈالیوں کو چھونا چاہا، قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہاتھ ہوا میں لہرا گیا۔

’’پکڑ لوں گی میں تمھاری ٹہنیوں کو ایک دن بوڑھے درخت۔‘‘ اس نے بوڑھے درخت کو چیلنج کیا۔

’’مجھے امید ہے‘‘۔ بوڑھے درخت نے اپنے پتوں کو لہراتے ہوئے ہولے سے کہا۔ اس نے تو کئی دَور دیکھے تھے، کتنے ہی بچوں نے اس کی ڈالیوں سے چھیڑ چھاڑ کی تھی، اس نے ان کو بڑا ہوتے دیکھا تھا، ایک وقت گزارا تھا۔ ’’وقت‘‘، آہ وقت۔ اس کی آنکھیں اداس ہوگئیں۔

اسے تو وہ وقت بھی یاد ہے جب اسکول کا آخری دن تھا۔ اس کو یاد تھا میمونہ کا چیلنج۔ لیکن میمونہ کہاں تھی؟ یہ تو وہ ہنستی کھیلتی میمونہ نہیں ہے، اداس سی لڑکی آج ہر کھیل کود سے بے نیاز تھی۔ اسی بوڑھے درخت کے سہارے وہ آج اپنے آنسو بہانے بیٹھی تھی۔ بوڑھے درخت کے سینے میں تو پتا نہیں کتنوں کے آنسو دفن ہیں، سب کی لاج رکھتا ہوا یہ بوڑھا درخت آج میمونہ کے غمگین دل کو سنبھالے ہوئے تھا، اس کے کندھے مزید جھک گئے تھے۔

پتا نہیں اونچائیوں کو چھونے کی شوقین یہ بچی آج کس بات پر حسرت و یاس کی تصویر بنی بیٹھی ہے! شاید دوستوں سے بچھڑنے کا غم ہے۔ ابھی اس ناسمجھ کو کیا معلوم کہ اصل امتحان ہے کیا، اصل اداسی ہے کیا؟ بوڑھا درخت اپنی سوچوں میں مگن اُس کی سسکیاں سن رہا تھا۔

’’ الوداع بوڑھے درخت! اور میرے بچپن کو رنگین بنانے والے لمحات۔‘‘ میمونہ نے اسکول کے میدان پر چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ اب اس کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہونے جارہا تھا مگر وہ اداس تھی، ایسا لگا اپنا بچپن یہیں چھوڑے جارہی ہے۔ استادوں کی محنت، اپنی شرارتیں، سکھی سہیلیوں سے نوک جھونک، امتحانات کی تیاری، استانی سے شاباش ملنے کی خوشی، وقفے میں کھیل کود اور مزے مزے کی چیزوں کے چٹخارے، اور سب سے زیادہ اس کا کھلے میدان میں قلانچیں بھرنا… کیا کچھ نہیں تھا اداس ہونے کے لیے!

’’ میمونہ! وقت کا کام ہے گزرنا‘‘۔ اس نے گویا خود کو تسلی دی اور پھر یہ کارگر بھی ثابت ہوئی۔ وہ الوداعی تقریب ختم ہونے کے بعد بھی دیر تک بوڑھے درخت کے پاس بیٹھی رہی، اس بات سے بے خبر کہ بس صرف اسے ہاتھ اوپر کرنے کی دیر ہے اور وہ اس کی ڈالیوں کو چھو سکے گی۔

احسن کا اُس کی زندگی میں شامل ہونا ایک خوش گوار دور تھا، لیکن یہ بیرونِ ملک مقیم رشتہ اس کو کسی صورت گوارا نہ تھا۔ شاید یہ قسمت کا فیصلہ تھا جو اس کے والدین کی بھی مرضی تھی، یوں یہ رشتہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ باپ کی شفقت، ماں کی پیار بھری ڈانٹ، بھائی کا ساتھ… اپنی یادداشتوں میں کیا کچھ قید نہیں کیا۔ آج پھر وہ بوڑھا درخت یاد آرہا تھا۔ سب کی یادیں دل میں سنبھالے وہ بابل کا آنگن چھوڑ چکی تھی۔

اذلان اور زیان کی، زندگی میں آمد نے اس کو اب گزرتے وقت کی گھڑیاں گننے کا بھی موقع نہیں دیا۔ ایک طرف وہ رب کی عطا پر خوش تھی تو دوسری طرف اپنے بہت سے رشتوں سے دوری کا ملال بھی تھا۔ کبھی سال دو سال میں میکے کا چکر لگتا تو وہ وقت اسے ایسا لگتا کہ پَر ساتھ لگا کر اُڑ گیا ہو، لیکن اب یہ تیزی سے گزرتے ماہ و سال اور بڑھتی ہوئی مصروفیات اس کو پیچھے جھانکنے کا موقع ہی نہ دیتیں، بس زندگی گھر اور گھرداری میں گزر رہی تھی۔ اپنے بچپن کی یادیں تازہ رکھنے والی اب اپنے بچوں کے کھلونے سنبھال سنبھال کر رکھ رہی تھی۔ وہ اور احسن دیر تک ان کی شرارتوں کا ذکر کیا کرتے۔ کبھی کوئی بات، کبھی کوئی یاد آنکھوں کا کونا بھگو دیتی۔ آخری الفاظ احسن کے یہی ہوتے ’’بھئی بچوں پر ہم اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے، ان کو اپنے فیصلے لینے دو۔‘‘ چڑیا کے بچے گھونسلے سے نکلنے کے لیے مچلے جا رہے تھے، انھیں اپنے پروں پر ناز تھا۔ اور یہ ناز بھی تو میمونہ ہی نے دیا تھا۔ اسے تو ویسے بھی وقت سے شکوہ رہا ہے تیزی سے گزر جانے کا، اس کے بس میں ہو تو مٹھی میں قید کرلے اور پھر کھولے ہی نہ۔

دسمبر کی یخ بستہ سرد ہوائوں کا زور تھا، وہ صبح اٹھی تو جسمانی قوت نے ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ سانس لینے میں بھی دشواری۔ اسے جلد از جلد اسپتال منتقل کیا گیا۔ گویا اب تک کی مفت میں لی جانے والی سانسوں کی اہمیت کا اندازہ بھی انسان کو ہونا چاہیے جس کا میرے رب نے کبھی بل بھی نہ بھیجا۔ وہ نیم بے ہوش تھی، مگر اب خطرے سے باہر تھی، بس آکسیجن ماسک لگا رکھا تھا۔ ڈاکٹر نے مریضہ کے تنگ ہونے کے خیال سے سب کو کمرے سے باہر نکال کر اسے آرام کی تلقین کی تھی۔ خواب آور دوائوں کے زیر اثر سونے کے سبب اس کی طبیعت اب قدرے بہتر تھی۔ اس نے گردن گھماکر کھڑکی کی جانب دیکھا، دوسری طرف اسپتال کا میدان تھا جہاں ڈھیر سارے درخت لائن میں کھڑے تھے۔ کچھ بوڑھے، کچھ جوان… کھلی ہوئی کھڑکی میں جالی تھی جہاں سے تازہ ہوا آتی بہت بھلی لگ رہی تھی، مگر اس کی نظروں کا محور تو وہ بچی بن گئی تھی جو اچھل اچھل کر درخت کی جھکی ڈالیوں کو پکڑنا چاہتی تھی اور ہر بار اس کا ہاتھ ہوا میں لہرا جاتا۔ وہ بے ساختہ مسکرا دی۔ اس کو وہ بوڑھا درخت بے پناہ یاد آیا تھا، یعنی وقت نہیں کردار بدلتے ہیں، اس نے سوچا۔ ’’میمونہ‘‘ احسن کی آواز پر وہ پلٹی تھی۔ زیان اور اذلان آ گئے تھے، گھر سے بھی مما اور بابا کی وڈیو کال تھی، سب اس کے لیے فکرمند تھے۔ اور وہ اس وقت اپنوں کے درمیان گھری اس وقت کو قید کرلینے کی خواہش مند تھی۔ لیکن بھلا وقت بھی کبھی قید ہوا ہے!

حصہ