ایک جنگل میں بہت سے جانور مل کر رہا کرتے تھے سب آپس میں بہت محبت سے رہتے تھے۔سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی بہت کام آتے تھے۔ اس جنگل میں ایک زیبرا اکیلا رہتا تھا کیونکہ اس کے گھر والے مر چکے تھے۔
شیر جنگل کا بادشاہ ہر روز زیبرے کو بلا کر اپنی ٹانگیں دبواتا، لومڑی خالہ جب بھی باہر جاتیں زیبرے سے کہتی ذرا میرے بچوں کا دھیان کرنا، کبھی ہاتھی چچا زیبرے سے اپنے گھر کی صفائی کرواتے اور کبھی زرافہ بھائ اپنا سارا سودا سلف زیبرے سے منگواتا غرض یہ کہ ہر کوئی زیبرے سے اپنا کام کرواتا تھا۔اس کے بدلے بیچارے زیبرے کو کچھ کھانے کو دے دیتے تھے۔
مگر زیبرا ان سب باتوں سے بہت اکتا چکا تھا وہ بھی چاہتا تھا کہ وہ کسی پر اپنا حکم چلائے اور اپنا کام بیٹھے بیٹھے کروائے مگر وہ کس پر اپنا حکم چلائے یہاں تو سب جنگل کے جانور زیبرے پر ہی حکم چلاتے تھے۔
ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ وہ دوسرے جنگل چلا جائے اور وہاں جا کر اپنا حکم چلائے بس یہ سوچنا تھا کہ اس نے اسی رات فیصلہ کیا کہ صبح ہونے سے پہلے وہ یہ جنگل چھوڑ کر ساتھ والے جنگل چلا جائے گا۔
دوسرے دن منہ اندھیرے ہی زیبرے نے اپنا سامان باندھا اور نکل گیا ۔۔زیبرا چلتا رہا۔۔۔۔ چلتا رہا ۔۔۔۔رات ہو گئی کچھ دیر آرام کے بعد دوبارہ چلنا شروع کیا۔ آخر دوسرے دن وہ دوسرے جنگل کی حدود میں داخل ہو گیا۔
زیبرا بہت خوش تھا لیکن بہت تھک گیا تھا ایک درخت کے نیچے مزے سے ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گیا اور زور زور سے خراٹے لینے لگا اس درخت پر ایک مینا اپنے بچوں کو گھونسلے میں سلارہی تھی لیکن زیبرے کے خراٹوں سے مینا کے بچے بےچین ہو رہے تھے مینا غصے میں گھونسلے سے باہر آئی اور زیبرے سے کہا!
’’چوں چوں ۔۔۔چوں چوں۔۔۔ اٹھو اٹھو کہیں اور جا کر سوو میرے بچے تمہارے خراٹوں سے پریشان ہو رہے ہیں‘‘ زیبرا ہڑبڑا کر اٹھا۔غصے سے مینہ پر چیخا۔۔! ’’کیا مسئلہ ہے آرام سے سونے بھی نہیں دیتی… مینہ!’’ چوں چوں چوں چوں تم تو ہمارے جنگل کے نہیں لگتے میں بادشاہ سے تمہاری شکایت کر دوں گی اٹھ جاو ورنہ یہاں سے ‘‘
زیبرا …!’’نہیں جاؤں گا یہیں سوؤں گا کر لو جو کرنا ہے‘‘۔
مینا غصے میں آ گئی اور بالٹی پانی کی بھر کر زیبرے پر پھینک دی۔ زیبرے کو غصّہ تو بہت آیا لیکن وہ مینا کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تھا۔
زیبرا آگے گیا۔۔۔ اسے شدید پیاس لگ رہی تھی قریب ہی اس نے ایک تالاب دیکھا وہاں لومڑی اور لکڑ بھگا پانی پی رہے تھے۔ زیبرے نے سینہ چوڑا کرتے ہوئے لومڑی اور لکڑ بھگے سے کہا!…’’ہٹو یہاں سے اس جگہ صرف میں پانی پیوں گا تم لوگ کہیں اور سے پانی پیو ‘‘
لومڑی بولی!’’میاں زیبرے تم تو ہمارے جنگل کے نہیں لگتے’’لکڑ بکھے نے بھی کہا!‘‘ اور حکم ایسے چلا رہے ہو جیسے ہمارے بادشاہ ہو تم ہم ابھی تمہاری شکایت اپنے بادشاہ سے کرتے ہیں زیبرے نے کہا۔۔!’’ ہاں ہاں جاؤ کسی سے نہیں ڈرتا میں‘‘۔
لومڑی، لکڑ بگھا اور جنگل کے ایسے کئی جانور زیبرے کے خلاف اپنی اپنی شکایتیں لے کر بادشاہ کے پاس پہنچے۔
شیر نے سب کی شکایتیں سنیں۔ شیر سمجھا زیبرا کوئی بہت ہی خطرناک ہے جو کسی سے بھی نہیں ڈرا۔
اس نے ہاتھی اور بن مانس کو حکم دیا کہ وہ دونوں بہلا پھسلا کر زیبرے کو شیر کے سامنے حاضر کریں۔ ہاتھی اور بن مانس دونوں مل کر زیبرے کے پاس گئے۔ انہوں نے دیکھا زیبرا مزے سے کھانا کھا رہا ہے۔ اسے ذرا بھی ڈر خوف نہیں تھا۔ الٹا ہاتھی اور بن مانس اس کی بے خوفی سے ڈرنے لگے لیکن دونوں نے منصوبہ بندی کے تحت زیبرے سے بات کی۔
پہلے بن مانس نے بات کی ۔۔! ’’اور میاں زیبرے کیسے ہو؟لگتا ہے ہمارے جنگل میں نئے آئے ہو؟ کیسا لگا تمہیں ہمارا جنگل؟‘‘
ہاتھی نے بھی ہمت کی! ’’ ارے میاں تم ہمارے جنگل میں نئے ہو بادشاہ سے مل لیے کیا؟‘‘
زیبرا۔۔! ’’ہاں میں ہوں تو یہاں نیا لیکن مجھے نہیں جگہ پر رہنا آتا ہے اور شیر کے پاس کیوں جاؤں میں ، جہاں میری مرضی وہاں جاؤں گا‘‘۔
بن مانس نے کہا۔۔! ’’ارے تم ہماری بات نہیں سمجھے‘‘ بن مانس نے بھی زیبرے کے کندھے پر دوستی کا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا! ’’دراصل ہمارے بادشاہ بہت نیک دل اور مہمان نواز ہیں ہمارے جنگل میں جب بھی کوئی نیا جانور آتا ہے ہمارے بادشاہ اسے خود پورا جنگل گھماتے ہیں ،سیر کراتے ہیں اور مہمان خانے میں اس کی خوب مزے مزے کے کھانوں سے مہمان نوازی ہوتی ہے‘‘
زیبرے کی خوشی سے بانچھیں کھل گئیں۔
’’چلو چلو مجھے بھی ملواؤ اپنے بادشاہ سے‘‘
بن مانس اور ہاتھی دونوں مل کر زیبرے کو بادشاہ کے دربار میں لے آئے۔
جنگل کے تقریباً سارے ہی جانور دربار میں موجود تھے زیبرا تو مارے خوشی کے دیوانہ ہو رہا تھا کہ اس کے استقبال کے لیے اتنے جانور آئے ہیں۔ اس نے سوچا دوسرے جنگل کے انتخاب کا اسکا فیصلہ بالکل صحیح تھا۔
’’شیر نے اپنی گرج دار آواز میں کہنا شروع کیا۔۔!‘‘
’’ہاں تو زیبرے میاں تم ہمارے جنگل میں نئے آئے ہو ہمارے جنگل کے اصول بھی پتا ہیں تمہیں۔۔‘‘
زیبرا ! ’’ہاں ہاں مجھے ہاتھی بھائی اور بن مانس چچا نے سب بتا دیا ہے‘‘
’’شیر اچھا ایک تو تم ہمارے جنگل میں بغیر اجازت داخل ہو گئے اوپر سے جنگل کے دوسرے جانوروں کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں تنگ کر رہے ہو‘‘
زیبرا۔۔!’’بدتمیزی ٫ تنگ‘‘
زیبرے کو اب خطرہ محسوس ہوا
’’وہ دراصل ان جانوروں نے تو خود ہی میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اب بھلا آپ بتائیں آپ کتنے مہمان نواز ہیں اور یہ جنگل والوں نے مجھ مہمان کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا ہے۔‘‘
’’ شیر دھاڑتے ہوئے۔!‘‘
’’اچھا۔۔۔ یعنی میرے جنگل کے جانوروں نے تمہیں تنگ کیا ہے‘‘۔
ہاتھی، بن مانس، ٹائیگر پکڑو اسے اور قید خانے میں بند کر دو صبح ہی صبح اس کو ذبح کیا جائے گا سارے جنگل والوں کی صبح تکا پارٹی کی دعوت ہے۔اور بلبل،مینا ،چڑیا تم لوگ میرا پیغام جنگل کے تمام جانوروں تک پہنچا دو جو یہاں نہیں آسکے ‘‘۔
زیبرے کے تو ہوش اڑ گئے حواس باختگی کے عالم میں بھاگنے کی کوشش کی لیکن ہاتھی اور بن مانس نے زیبرے کو سختی سے پکڑا ہوا تھا۔
ہاتھی اور بن مانس زیبرے کو گھسیٹتے ہوئے قید خانے کی طرف لے جانے لگے ۔بے چارہ زیبرا کہتا رہا ۔۔۔!
’’سرکار مجھے معاف کر دو مجھ سے غلطی ہو گئی اللہ کے واسطے مجھے جانے دو میں ادھر دوبارہ نہیں آؤں گا۔‘‘ سارے جانور زیبرے کی چیخیں سن کر خوش ہوتے ہوئے گھروں کو لوٹ گئے۔ آخر ان سب نے صبح ہی صبح تکا پارٹی میں بھی تو آنا تھا۔
بےچارا زیبرا قید خانے میں بند تھا بڑا سخت پہرہ تھا وہ اندر ہی اندر شرمندہ تھا اس نے یہ کیا کر دیا ساری رات روتا رہا۔
صبح کی پو پھٹتے ہی لوگ جوق در جوق آنے لگے بادشاہ کا دربار سجا شیر نے حکم دیا !’’جاؤ زیبرے کو لے کر آؤ‘‘۔
اسے کاٹنا ہے ہاتھی بن مانس زیبرے کو گھسیٹتے ہوئے لائے زیبرا کبھی جانوروں سے کبھی شیر سے معافیاں مانگ رہا تھا۔
ہاتھی میاں چھریاں تیز کرنے لگے بن مانس جگہ صاف کرنے لگا ایسے میں زیبرے نے سوچا اگر اس وقت میں نے بھاگنے کی ایک کوشش کی تو شاید بچ جاؤںاور اگر پکڑا گیا تو کاٹ تو مجھے یہ اب بھی رہے ہیں۔ اس کے گرد جنگل کے سارے جانوروں کا گھیرا تھا اس نے کمزور جانوروں کی طرف سے بھاگنے کا ارادہ کیا اور بس پھر یہ سوچتے ہی اس نے سر پٹ دوڑ لگا دی۔
’’ارے ہاتھی چیتا ٫لومڑی سب اس کے پیچھے بھاگو‘‘
جانوروں نے چلانا شروع کر دیا۔
لیکن زیبرے میں تو جیسے بجلی بھر گئی تھی وہ بھاگتا رہا بھاگتا رہا۔بھاگتا ہی رہا۔بھالو۔ بندر ،طوطا،بلبل ،خرگوش چیتے سب اس کے پیچھے پیچھے دور تک بھاگتے رہے زیبرا بھی بھاگتا رہا بھاگتا رہا بھاگتا ہی رہا اور بھاگتے بھاگتے شیر سے ٹکرا گیا ۔
’’نہ…نہ…نہ… نہیں …نہیں مجھے مت پکڑو۔ نہیں اللہ کا واسطہ مجھے مت کھاؤ ۔مجھے معاف کر دو۔
کہتے کہتے زیبرا بے ہوش ہو گیا۔
زیبرے کی آنکھ کھلی تو لومڑی اس پر پانی ڈال رہی تھی۔ زرافہ جوس لیے کھڑا تھا۔شیر ہوا جھل رہا تھا۔
’’ ارے بھائی زیبرے تم تین دن سے کہاں غائب تھے ہم سب تمہیں سارے جنگل میں ڈھونڈ رہے تھے تمہیں کس نے تنگ کیا تھا بتاؤ ہمیں۔‘‘
چیتے نے زیبرے کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
زیبرا یک دم اٹھ بیٹھا’’اوہ میں اپنے۔اپنے۔ جنگل آگیا ۔میرا گھر…میرا جنگل… زیبرے نے خوشی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ میں کبھی اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جاؤں گا شیر بادشاہ۔۔لومڑی خالہ۔۔ ٹائیگر بھائی اور سارے جنگل کے دوستوں میں سب کے کام کروں گا لیکن یہاں سے نہیں جاؤں گا۔‘‘
جنگل کے سارے جانور خوش ہوکر زیبرے کے ملنے کی خوشی میں ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔
سب نے مل کر نعرہ لگایا۔؟’’ ہوم سویٹ ہوم‘‘