آئین پاکستان پر سال 2023 کا آخری لبرل حملہ

377

سینیٹ کمیٹی کی کھلے عام پھانسی کی مخالفت

اس کو ہم ’’آئین پاکستان پر سال 2023 کا آخری لبرل حملہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام جمعہ 29 دسمبر کو یعنی سال کے آخری ورکنگ ڈے میں منعقد ہوا۔ ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے 16 جنوری 2023 کو سینیٹ میں سرعام پھانسی کی سزا کے قانون میں ترمیم پیش کی، جسے سینیٹ نے جائزہ و منظوری کے لیے متعلقہ وزارت داخلہ کی کمیٹی کو بھیج دیا۔ 28 ستمبر 2023 کو اس ترمیم پر متعلقہ کمیٹی نے حتمی اجلاس کیا اور خاصی بحث مباحث کے بعد کثرت رائے سے ترمیم کو منظور کیا۔ ترمیم کے مطابق اب (زانی کو) پھانسی کی سزا عوامی مقام پر دی جائےگی۔ اِس اجلاس میں دیگر وزارتوں کے موقف بھی لیے گئے جس میں فارن افیئرز، قانون و انصاف، انسانی حقوق، آئی سی ٹی، کامرس، وزارت داخلہ شامل تھے۔ اس کے بعد اراکین نے بحث کی اور بار ی باری ہر ترمیم سے متعلق رائے لی گئی جس کے بعد یہ ترمیم منظور ہو گئی۔

اس آئینی ترمیم کی منظوری پر سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے پیٹ میں زبردستی کا مروڑ اٹھا ۔ اس کمیٹی نے 29 دسمبر کو اپنے حالیہ اجلاس میں ایک اسلامی و آئینی سزا کا ترمیمی بل قرارداد سے مسترد کر دیا۔ اس اجلاس سے تحریک انصاف کی ایک سینیٹر مہر تاج روغانی واک آؤٹ بھی کر گئیں کہ کمیٹی چیئرمین نے تمام اراکین سے مکمل گفتگو اور مناسب وقت دیئے بغیر ہی ووٹنگ کروا ڈالی۔ یوں ایک آئینی اور اسلامی بل کو محض لبرل اراکین کی رائے پر قرارداد سے نامنظور کر دیا۔ آئیے اس کی تفصیل جانتے ہیں۔

اب ذرا پس منظر دیکھیں:
جس کے آئین میں لکھا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ اس وقت پاکستان میں آئین کی صریح خلاف ورزی میں نگراں آئین، دستور اسلامی تو دور انتظامی طور پر بھی ایک لائبریری دستاویز کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔

یہ کام سستے میں نہیں ہوتا۔ دنیا پر شیطانی لبرل ورلڈ آرڈر کے ایجنٹ اس کے نفاذ کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرر ہے ہیں۔ بھاری فنڈنگ و سرمایہ کاری کے ساتھ طاقت کا بھی اثر ہوتا ہے۔ اس کی باقاعدہ قانون سازی کروانے کے لیے اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کو خریدا جاتا ہے۔ کئی این جی اوز کو پیچھے لگایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی وزارت اور اس کے لیے مستقل قانون سازی کا ڈھونگ جاری رہتا ہے، کئی صحافیوں کو اس پر لگایا جاتا ہے، کئی مصنفین کو بھاری معاونت سے اس پر لٹریچر لکھوایا جاتا ہے، علما کی کونسلنگ کے لیے ان کو بڑے ٹھنڈے ہوٹلوں، پُرفضا مقام پر ورکشاپ کرائی جاتی ہیں تاکہ ہر قسم کے رد عمل کو قابو کیاجا سکے۔آپ گوگل پر ’’پاکستان میں سزائے موت‘‘ سرچ کریں تو جو خبریں سامنے آئیں گی وہ صرف یہی پیغام دیں گی کہ یہ کوئی بہت بڑا ظلم ہے کہ کسی کو پھانسی دے دی جائے۔ اس کی پہلی کڑی انسانی حقوق کا چارٹر ہوتا ہے۔ اس پر دست خط کرنے یعنی سب کو انسان سمجھنے اور اس کو حقوق دینے کے نام پر بات آگے بڑھائی جاتی ہے۔ ویسے غزہ جنگ، روہنگیا، کشمیر، سوڈان، افغانستان سمیت دیگر مسلم نسل کشی کے بعد تو آپ جان چکے ہوں گے کہ یہ ’’انسانی حقوق‘‘دنیا کا سب سے بڑاجھوٹ ہے۔

پاکستان کے تمام لبرل طبقات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹیز، لبرل دانش ور، ماہرینِ تعلیم سب اس کے ’’پیڈ ایجنٹ‘‘ بن کر سزائے موت کے قانون پر قومی بحث کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی سزائے موت ختم کر دی جائے کیوں کہ کسی کی جان لینا ریاست کا کام نہیں ہے۔

29 دسمبر کو کیا ہوا؟
پاکستان میں اس ساری صورت حال پر سینیٹ کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ چیئرمین کمیٹی ولید اقبال نے بتایا کہ داخلہ کمیٹی نے سزائے موت پانے والے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی تجویز کا بل منظور کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں سزائے موت سے جان چھڑانی ہو وہاں سرعام پھانسی اور مشکل کام ہوگا‘ تو کمیٹی نے مبینہ طور پر یہ بل جو آئین اور اسلام کے مطابق ہی تھا‘ اس کو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسترد کر دیا۔ سینیٹر ولید اقبال نے خود اقرار کیا کہ ’’بہ طور انسانی حقوق کمیٹی چیئرمین مجھے اس منظور ہونے والے بل کے خلاف بہت کالیں آئیں کہ اس کا نوٹس لیں۔‘‘

سیکرٹری انسانی حقوق اے ڈی خواجہ نے کہا کہ ’’یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اس کے قومی اور بین القوامی اثرات ہوں گے تو ہمارے ڈونرز ناراض ہوں گے۔ پاکستان سات بین الاقوامی انسانی حقوق کنونشن پر دست خط کر چکا ہے، جس کی وجہ سے دنیا کی توقع ہے کہ ہم بھی سزائے موت ختم کردیں۔ یورپی یونین نے جی ایس پی اسٹیٹس نظر ثانی پر سزائے موت معطل کرنے کا کہا تھا۔‘‘

اہم دلائل :
اس وقت 33 پاکستانی قوانین ایسے ہیں جن کے تحت عدالت ملزم کو سزائے موت دے سکتی ہے۔ ان قوانین کا تعلق دہشت گردی، ریپ، ہائی جیکنگ، آرمی میں مس کنڈکٹ اور توہین رسالت شامل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے سیکشن 22 کے مطابق حکومت سزائے موت کا طریقہ اور جگہ کا تعین کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہیں بھی سزائے موت دی جا سکتی ہے، یعنی سرعام پھانسی انسداد دہشت گردی قانون میں موجود ہے۔

واضح رہے کہ ایران اور افغانستان سمیت کئی خلیجی ممالک میں بھی سر عام پھانسی دی جاتی ہے، پاکستان میں بھی 80 کی دہائی تک سرعام پھانسی اور کوڑوں کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں اور پاکستان کے معاشی حالات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ جہاں تک پھانسی کی سزا کا معاملہ ہے تو دنیا کے79 ممالک میں پھانسی کی سزا موجود ہے۔ اسلام نے بھی سزا دینے کے لیے کوئی جگہ فکس نہیں کی، تاہم سزائیں دینے کا عمل عوامی مراکز پر 1300سالہ اسلامی تاریخ میں مستقل جاری رہا ہے۔

اجلاس میں سب سے زیادہ دلیل اس بات کی دی گئی کہ پھانسی کی سزا سے جرم ختم نہیں ہوتے۔ اور دوسرا یہ کہ بےگناہ کو بھی سزا ہو سکتی ہے اور تیسرا یہ کہ مجرم کے گھر والوں کو انتظار کی اذیت اٹھانی پڑتی ہے۔

اس ضمن میں شرم ناک سوال یہ ہے کہ عدالتیں مظلوم کو انصاف دینے کے لیے ہوتی ہیں، جرم ختم کرانے کے لیے نہیں ہوتی ہے۔ اگر دنیا کی کوئی بھی سزا جرم ختم نہیں کرا سکتی تو اصولاً قانون کا یہ سارا نظام ہی ختم کر دینا چاہیے۔ دوسرایہ کہ بے گناہ یا گناہ گار کا فیصلہ بھی عدالت کرتی ہے اور سزا بھی عدالت ہی دیتی ہے تو اس میں پھانسی کا کوئی قصور نہیں ہوسکتا۔ مطلب یہ کہ ایک بے گناہ انسان کو 14 سال قید میں شدید اذیت کےسا تھ تو رکھا جا سکتا ہے مگر عدالتی فیصلے پر پھانسی دینا درست نہیں ہوگا۔ تیسری دلیل تو اتنی بودی و شرم ناک ہے کہ ایک ایسا شخص جو آپ کی بہن، بیٹی، بیوی، ماں یا دیگر خواتین کی عزت تار تار کرچکا ہو تو سفاک مجرم کے گھر والوں کی تکلیف کی خاطر اسے کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟ یا کردینا چاہیے۔ یہ کیسا انصاف ہوگا؟ یہ الگ بات ہے کہ مغرب میں ’زنا‘ کی تمام صورتوں کو میڈیکل لائز کیا جا رہا ہے کہ انسان اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا کرتا ہے تو یہ حالت قابل رحم ہے، ایسے جنسی درندے کو علاج کی ضرورت ہے پھانسی کی نہیں۔ اندازہ کرلیں کہ ’’آقا‘‘ کے ملک میں جیسے ہی ہر قسم کا ’زنا‘ میڈیکل لائز ہوگیا تو ’’غلام‘‘ تو اسے اپنانے میں کتنی دیر لگائیں گے؟

لبرل ازم شیطانی خواہشات کو دین کے لیبل پر رکھ کر قانون بنواتا ہے۔ سیکرٹری این سی ایچ آر نے کمیٹی کو بتایا ’وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ انسان کے وقار کا آئین میں ذکر ہے جب کہ قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل میں بھی اولاد آدم کی عزت کا ذکر موجود ہے۔ اس لیے ان دلائل کی روشنی میں اولاد آدم کو سرعام پھانسی نہیں دینی چاہیے۔ ویسے اس اجلاس میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے سرعام پھانسی کی مخالفت میں ایک اہم دلیل یہ دی کہ ’’یاد رکھیں اگر ہم نے اس بل کو ختم نہیں کیا تو آخر میں سیاست دانوں کو سرعام پھانسیاں ہوں گی۔‘‘

غیرت مسلم کے دو چہرے:
اجلاس میں ایک غیرت مند سینیٹر ہمایوں مہمند نے سرعام پھانسی کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اچھے الزامی دلائل دیے اور مقتول کے حقوق، سعودی عرب میں کم جرائم پر دلائل دیے۔ یہی نہیں انہوں نے صاف کہا کہ ہم یہ معاہدہ اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمیں پیسہ چاہیے۔ پیسوں کی خاطر ہمیں اپنی روایات نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انہوں نے اس کے علاوہ بھی متعدد دلائل دیے کہ سرعام سزا جرائم کے ارتکاب میں رکاوٹ بنتی ہے۔ چئیرمین ولید اقبال نے اجلاس میں تھوڑی سی گفتگو کے بعد ہی رائے لے لی اور کہا ’’صرف چند کمیٹی اراکین سر عام پھانسی کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘ کمیٹی اراکین بشمول وقار مہدی، سینیٹر مشاہد حسین سید اور کامران مائیکل نے سرعام پھانسی کی مخالفت کی۔ چئیرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ سرعام پھانسی کے خلاف زیادہ ووٹ آئے ہیں۔ اس دوران سینیٹر مہر تاج روغانی نے واک آوٹ کرتے ہوئے کہا ’’اتنی جلدی ووٹنگ کروانے کے خلاف واک آوٹ کرتی ہوں۔‘‘ بعد ازاں اجلاس نے سزائے موت کے مجرمان کو سرعام پھانسی نہ دینے سے متعلق قرار کثرت رائے سے منظور کر لی۔

اب اس پورے واقعے کی ایک اور اہم بات سمجھ لیں کہ بل کی حمایت کرنے والے سینیٹر ہمایوں مہمند، سینیٹر مہر تاج دونوں کا تحریک انصاف سے تعلق ہے اور بل کو جلد بازی میں مسترد کرانے والے سینیٹر ولید اقبال بھی تحریک انصاف کے سینیٹر ہیں۔ یہی نہیں وہ شاعر مشرق، مصور پاکستان، علامہ اقبال ؒ کے پوتے بھی ہیں۔ اس سب کے باوجود منظور وہی ہوا جو لبرل ایجنڈے کو درکار تھا، یعنی پھانسی کی مخالفت۔ یہ ہے وہ طریقہ، یہ ہے وہ ایجنڈا جس پر اندرون خانہ سب ایک ہیں۔ یہاں کوئی تحریک انصاف، کوئی ن لیگ ،کوئی پی پی الگ نہیں ۔الگ صرف وہ ہے جس کو اپنا ایمان و ضمیر عزیز ہے۔

حصہ