سائبان(سچے واقعے پر مبنی)

156

’’تم آفس سے آنے کے بعد امی کی تھوڑی مدد کرادیا کرو، وہ صبح سے کام کرتے کرتے تھک جاتی ہیں۔ روٹیاں تم پکا لیا کرو۔‘‘

اشعر نے بالوں میں برش کرتی ماہرہ کو کہا، تو ماہرہ نے پلٹ کر اشعر کو دیکھا اور غصے سے کہا ’’میں بھی آفس میں صبح سے شام تک کام کرکے تھک جاتی ہوں۔ تمہاری امی یہ کیوں نہیں سمجھتیں! اور ماسی بھی تو ہے۔ پیسے دو، باقی کے کام بھی ماسی کردے گی۔‘‘

’’ماہرہ! میں تم کو بارہا کہہ چکا ہوں امی کو ماسیوں کے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں۔ اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے صرف چند روٹیاں بنانے کا کہہ رہا ہوں۔ میں اچھا کماتا ہوں، تم سکون سے گھر بیٹھو، جاب چھوڑ دو یا گھر اور ملازمت میں توازن قائم کرو۔‘‘ اشعر نے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

مگر ماہرہ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے فوراً نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا ’’اشعر تمہارے گھر کے کاموں کے لیے میں یہ جاب چھوڑ دوں؟ کان کھول کر سن لو! یہ جاب ہرگز نہیں چھوڑوں گی، مجھ سے یہ گھر کے کام نہیں ہوتے۔‘‘

’’ماہرہ تم غلط کررہی ہو، بہت پچھتائو گی۔‘‘ اشعر غصے سے کمرے سے باہر چلاگیا۔

اشعر اور ماہرہ کی شادی کو چند ماہ ہی گزرے تھے مگر یہ جھگڑے روز کا معمول بن گئے تھے جن سے اشعر پریشان رہتا۔ وہ ماہرہ کو چاہتا تھا لیکن ماہرہ کی گھریلو امور میں عدم دل چسپی اور بدتمیزی اس کو گوارا نہ تھی۔

شام ڈھلے اشعر گھر میں داخل ہوا تو امی جان سامنے تخت پر بیٹھی تھیں۔ وہ سلام کرکے ان کے پاس بیٹھ گیا۔ بیگ سے دواؤں کی تھیلی نکال کر امی جان کو دواؤں کی مقدار کے متعلق سمجھانے لگا۔ ماہرہ سامنے کمرے میں بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اشعر کچھ دیر بعد کمرے میں آیا تو ماہرہ نے اشعر سے اپنی چیزوں کے متعلق سوال کیا۔ اشعر نے جواباً اپنی مجبوری بتائی کہ پیسے کم پڑگئے تھے اور امی کی دوائیں مہنگی ہوگئی ہیں لہٰذا میں کل لے آئوں گا۔‘‘

ماہرہ یہ سن کر آگ بگولہ ہوگئی اور کہنے لگی ’’میرا ٹوتھ پیسٹ، شیمپو ضروری نہیں ہے، تمہاری ماں کی دوائیں زیادہ ضروری ہیں۔‘‘

’’بکواس بند کرو،کل لادوں گا۔ تم خود اچھا کماتی ہو، خود لے آتیں۔‘‘اشعر نے غصے سے کہا۔

تو ماہرہ غصے سے کہنے لگی ’’میں کیوں لے کر آئوں؟ میں تمہاری ذمے داری ہوں۔ مجھے تم لاکر دو۔‘‘

’’کیا میں نے کبھی منع کیا، یا اپنی کسی ذمے داری کو پورا نہ کیا ہو تو بتائو۔ پیسے کم پڑگئے اور کارڈ گھر پر بھول گیا تھا۔ تمہارا پیسٹ اور شیمپو ابھی چند دن اور چلے گا مگر میری امی کی دوائیں بالکل ختم ہوچکی تھیں۔ کل تمہاری تمام چیزیں لے آئوں گا۔‘‘ اشعر نے کہا۔

ماہرہ نے جواباً الگ گھر کا مطالبہ کردیا۔ یہ سن کر اشعر کو بے حد غصہ آیا لیکن اس نے سمجھاتے ہوئے کہا ’’ماہرہ! میں اپنی ماں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ ان کا میرے سوا کون ہے؟ دیکھو میرا خاندان ماں سے ہے۔ ماں ایک سائبان ہے جو ہمیں ہر پریشانی سے بچاکر رکھتا ہے۔ ہم اپنے دفاتر میں اسی لیے پُرسکون ہوکر کام کرتے ہیں کہ گھر کی فکر نہیں ہوتی۔‘‘

’’تمہارے لیکچرز کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہونے والا۔‘‘ ماہرہ نے تلخ لہجے میں جواب دیا تو وہ پیر پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اس مطالبے کا اشعر کو بہت دکھ ہوا۔

کچھ وقت گزرا، اور جب ماہرہ نے اشعر کو باپ بننے کی خوش خبری سنائی تو اشعر اور امی جان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اشعر اور امی جان نے ماہرہ کو جاب پر جانے سے منع کردیا، مگر ماہرہ نہ مانی۔ اشعر کو ماہرہ کی یہ من مانی کسی صورت گوارا نہ تھی، مگر امی جان کے سمجھانے پر خاموش ہوگیا۔ دن گزرتے رہے اور رب تعالیٰ نے اولاد کی نعمت عطا کی۔ سب بے حد خوش تھے۔ اشعر اور امی جان نے بہت سمجھایا کہ جاب چھوڑ دو۔ اشعر بھی اچھے عہدے پر فائز تھا۔ کوئی مالی پریشانی نہ تھی۔ لیکن ماہرہ پر کسی کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔

ماہرہ کو اپنے عہدے کا بہت زعم تھا، وہ کسی قیمت پر ملازمت سے استعفیٰ نہیں دینا چاہتی تھی۔ لہٰذا اس نے کسی کی پروا نہیں کی اور کچھ ہی دنوں بعد بچے کو ساس کے حوالے کرکے خود دوبارہ دفتر جانے لگی۔

ساس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی لیکن وہ گھر کے کاموں کے ساتھ بچے کو بھی سنبھالتیں۔ شام تک کام کرتے کرتے وہ تھک جاتیں، بیٹے سے کہتیں کہ بہو کو سمجھائو۔

مگر اشعر کے سمجھانے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ دن گزرتے رہے۔ آئے دن اشعر اور ماہرہ کا جھگڑا ہوتا۔ اس کو اپنی ساس ہر معاملے میں قصوروار نظر آتیں۔ ایک دن جھگڑا ہوا۔ اس نے بچے کو لیا اور اشعر سے کہا ’’میں جارہی ہوں…خود کماتی ہوں، اپنے بچے کو خود پال سکتی ہوں، تمہاری محتاج نہیں ہوں۔‘‘

اشعر اور امی جان نے روکنا چاہا۔ اشعر نے بہت سمجھانا چاہا ’’ماہرہ معاش کی ذمے داری تمہاری نہیں، لیکن بچے کی پرورش و تربیت تمہاری ذمے داری ہے۔‘‘

’’اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھو۔‘‘ ماہرہ نے غصے سے جواب دیا۔

ماہرہ کی ساس بیٹے اور بہو کو سمجھانے لگیں ’’بیٹا خاندان کے وجود سے گھر بنتے ہیں، بہ صورتِ دیگر خوشیوں سے عاری کھوکھلے مکان ہوتے ہیں۔ یہی خاندان ہر پریشانی و غم میں سائبان بن جاتا ہے۔ اپنوں کو ہر لمحہ ایک تحفظ کا احساس دیتا ہے۔‘‘

ماہرہ پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے بچے کو گود میں اٹھایا اور پیر پٹختی باہر نکل گئی۔ ساس نے بہت روکا۔ اشعر نے کہا ’’بہت پچھتائو گی۔‘‘ لیکن ماہرہ نے کسی کی نہ سنی اور میکے چلی گئی۔ وہ جانتی تھی اشعر اور امی جان بچے سے بہت پیار کرتے ہیں لہٰذا دوڑے چلے آئیں گے۔ مگر بہت دن گزرنے کے باوجود بھی نہ کوئی آیا، نہ کوئی فون اور نہ کسی نے رابطہ کیا۔ ماہرہ کے والدین ہر گزرتے دن کے ساتھ پریشان رہنے لگے تو ماہرہ نے فون پر اشعر سے بات کرنے کا سوچا، مگر اشعر نے بات کرنے سے انکار کردیا اور گھر آنے سے بھی منع کردیا۔ میکے میں چند دن گزار کر ماہرہ کو اپنا گھر یاد آنے لگا تھا۔ والدین اور سہیلیوں نے بھی ماہرہ کو ہی قصوروار ٹھیرایا۔ وہ اشعر کے رویّے سے تشویش میں مبتلا تھی۔ ماہرہ کے والدین اشعر کے گھر گئے تاکہ مفاہمت کی کوئی راہ نکالی جائے، مگر اشعر نے صاف انکار کردیا۔ ماہرہ کے والدین بے حد پریشان ہوئے۔ انہوں نے برادری کے بڑوں کو تمام معاملہ گوش گزار کیا اور ان سے مدد مانگی۔ چند افراد مل کر اشعر کے گھر گئے۔ مگر اشعر پر کسی کے سمجھانے کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے صاف لفظوں میں انکار کردیا کہ اب میرا اس عورت کے ساتھ کسی صورت گزارا نہیں ہوسکتا۔ میں نے اتنا عرصہ بہت برداشت کیا۔ میں نے اس کو نہیں نکالا، وہ اپنی مرضی سے گئی ہے۔‘‘

غرض تمام تر کوششیں بے سود رہیں۔ اشعر نے ماہرہ کو طلاق کے کاغذات بھجوادیے۔ ماہرہ جس کو اشعر کی چاہت پر بہت مان تھا، اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اشعر اس کو یوں اپنی زندگی سے نکال دے گا۔ وہ ٹوٹ گئی، بکھر گئی، اس کا دل چاہتا کہ یہ ملازمت، یہ عہدہ سب چھوڑ دے، بس اشعر واپس مل جائے، لیکن اب یہ ممکن نہیں تھا۔ اب اولاد کو پالنے کے لیے یہ ملازمت کرنا اس کی مجبوری بن گئی۔ پیار کرنے والا شوہر، امی جان کی پُرخلوص شخصیت ، بچے کے لیے دادی اور پاپا کا پیار… یہ محبت بھرا خاندان واقعی سائبان تھا۔ اعلیٰ عہدے اور اچھی تنخواہ کے باوجود عدم تحفظ کا ایک لاشعوری احساس اس کی سوچوں کو اپنے حصار میں مقید رکھتا ہے۔ اس پچھتاوے نے اس کی زندگی کے خوشیوں اور اعتماد کے رنگ چھین لیے ہیں۔

حصہ