سوشل میڈیا پر زیر بحث گرم ویڈیوز

409

پہلی وڈیو:
اِس ہفتے سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی 2 منٹ کی وڈیو وائرل ہوگئی، جس کا کوئی ٹائٹل نہیں تھا، بس لوگ یہ لکھ کر آگے بڑھا رہے تھے کہ ’’بیٹی کی شادی آئوٹ آف کنٹری کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں‘‘۔ وڈیو کا یہ ڈسکرپشن درست بھی ہے اور توجہ لینے والا بھی۔ فیس بک کے ایک پیج پر 3دن میں کوئی6ہزار شیئر اور8 لاکھ ویوز ہوچکے تھے، باقی ٹک ٹاک، انسٹا، ٹوئٹر پر اَلگ۔ یہ سوشل میڈیا کی دنیا میں معمول کی بات ہے، جو وڈیو کسی کو اچھی لگ جائے، وہ لائک شیئر کے دوش پر سوار ہوکر پھیل جاتی ہے، اگر وڈیو کسی خاتون کی ہو تو اس میں مزید پَر لگ جاتے ہیں۔ ویسے یہ وڈیو ترتیب سے ایڈٹ شدہ تھی۔ ایڈٹ کس نے کی یہ غیر ضروری ہے، جو بپتا سنائی گئی ہے وہ اہم ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ وڈیو فیک نہیں ہے۔ وڈیو میں ایک خاتون چلتے ہوئے اپنے موبائل پر یہ ریکارڈ کررہی ہیں اور اپنے اوپرگزری داستان، اپنے نقطہ نظر سے بتارہی ہے۔

اس وڈیو میں گفتگو کی اہم بات یہ ہے کہ اُسے دنیا کی تمام مسلم، غیر مسلم خواتین پر یکساں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یہ وڈیو جہاں جہاں جائے گی، کسی نہ کسی شکل میں اذہان کو متاثر کرے گی، کیونکہ اس میں عین فطرت سے جڑا پیغام ہے جو اپنی نہاد میں دینی بھی ہے، روایتی بھی اور اقداری بھی۔ یہ مبینہ طور پر ایک پاکستانی مسلم خاتون ہیں، جوشادی کرکے کسی یورپی ملک میں مقیم ہیں۔ خاتون نے صاف کہہ دیا کہ خاندان کے دبائو پر اُن کو وڈیو ڈیلیٹ کرنی پڑے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ خاتون جانتی ہیں کہ اس وڈیو کے منفی اثرات ہوں گے۔ سوشل میڈیا کی بدولت یہ خطرناک عمل اب عام ہوگیا ہے کہ آپ اپنی زندگی، بلکہ کسی کی بھی زندگی کا ہر ’نجی معاملہ‘ باہر لا سکتے ہیں۔ کسی کا کوئی معاملہ اب ’نجی‘ نہیں رہا، یہ جان کر کہ متذکرہ خاتون کے لیے یہ وڈیو شیئرنگ کتنی خطرناک ہوگی یہ جو 5.5 ہزار شیئر تھے سب کارِخیر سمجھ کر کیے گئے۔ اس لیے میں اپنے قارئین کو یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ وہ اس وڈیو کو دیکھیں یا تلاش کریں یا شیئر کریں۔ ہاں جو کام کی بات ہوسکتی ہے ایسے اذہان کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے وہ ضرور بتائوں گا۔ خاتون نے اپنے کیس میں عمومیت کا اظہار کرتے ہوئے بڑا پیغام دیا ہے۔ خاتون نے آنسو بہاتے ہوئے جس کیفیت و جذبات کا اظہار کیا ہے اور جو نکات اُٹھائے ہیں وہ ان کے الفاظ میں یہ ہیں:

1۔ بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ لڑکی شادی ہوکر امریکا یا لندن جارہی ہے۔ مگر جب ہم یہاں آتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے۔ جس ساس کی ہم برائیاں کرتے ہیں کم از کم وہ 10 منٹ آپ کے بچے سنبھال سکتی ہے کہ آپ کچن جاسکیں، نہا دھو سکیں۔ مگر جب آپ یہاں اکیلے آجاتے ہیں تو پورا دن اکیلے اپنے بچے کو دیکھنا پڑتا ہے۔ باہر کے ملک میں شادی شدہ لڑکیوں کی زندگی انتہائی مشکل ہے، خصوصاً جہاں آپ صرف اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔

2۔ سب سے مشکل کام بچوں کو دوسرے ملک میں اکیلے پالنا ہے۔ اتنی مشکل زندگی مجھ سے نہیں گزاری جا رہی، اللہ نے کیوں میرے لیے اتنی مشکل زندگی پسند کرلی!کسی لڑکی کو بددعا دینی ہو تو اس کو یہ کہیں کہ تمہاری شادی ہو اور تم اکیلے یورپ جائو۔

3۔ یورپ کی زندگی بہت گندی ہے۔ نہ کوئی دیسی کمیونٹی نہیں، نہ یہاں دیسی کھانا ہے۔ گھٹیا جیل جیسی زندگی ہے۔ میرے پاس کچھ پیسے ہیں، صرف دو بچے اور ایک شوہر ہے۔ باہر نکلوں گی تو بہت ٹھنڈ لگے گی، برف باری ہوگی اور میری بیٹی روئے گی۔

4۔ میرا یہاں رہنے کو بالکل دل نہیں کرتا۔ میری درخواست ہے کہ لڑکیوں کو باہر ملک شادی کرکے نہ بھیجیں۔

5۔ انسان کی زندگی بہت چھوٹی ہے، اتنا دور نہ کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اپنے رشتے داروں کے پاس رہنا چاہیے۔

اہم سبق:
درج بالا پانچ نکات میں ’’اکیلا پن اور اس کے خطرناک اثرات‘‘ مرکزی نکات ہیں۔ مگر جو انتہائی تکلیف دہ بات پہلے دو نکات میں ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ خواتین نے شادی کو ’’آسان اور پُرتعیش زندگی‘‘ سے جوڑ لیا ہے جس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ’’آسان و پُرتعیش‘‘ زندگی کا مغربی، لبرل تصور پاکستان میں محض 50 سال قبل کا پروجیکٹ ہے۔ یقین نہیں آتا تو اپنی دادی، نانی سمیت کسی بھی بزرگ سے پوچھ لیں کہ اُنہوں نے یا ان کے والدین نے شادی کسی آرام دہ زندگی کے لیے کی تھی؟ پوری اِنسانی تاریخ میں شادی، نکاح افزائشِ نسل، تربیتِ نسل کا ایک مذہبی اور سخت محنت والا معاشرتی عمل رہا ہے۔ ہندو مذہب میں تو شادی اتنا مذہبی عمل ہوتا ہے کہ بیوہ کو شوہر کے ساتھ ہی جلانے کا حکم ہے۔ اس لیے یہ تو کلیئر کرلیں کہ شادی اپنی نہاد میں کبھی بھی کوئی پُرتعیش اور آسان زندگی کا عمل تھا ہی نہیں، چاہے آپ مال دار ہوں یا غریب (متذکرہ وڈیو والی خاتون بھی غریب کے دائرے میں نہیں آتیں)۔ یہ دینی حکم ضرور ہے کہ شادی کے عمل کو آسان بنایا جائے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ خاتون دو بچوں پر ایسے رو رہی تھی جبکہ میں 9 اور 10بچوں والی مائوں کو جانتا ہوں جو بیوہ بھی ہوگئیں اور عملاً روکھی سوکھی کھا کر بچوں کی اکیلے مگر ایسی مثالی پرورش کی کہ پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے اور میرا ارادہ بھی ہے، اگر انہوں نے کچھ یادیں بانٹنے کا وقت دے دیا۔

ہوسکتا ہے کہ شیطان ابھی دل میں سوال ڈالے کہ ایساکیا ہے کہ ’’آسان و پُرتعیش یا آرام دہ زندگی‘‘ کا خواب دیکھنا، یا چاہنا ہمارے دین میں منع ہے؟‘‘ تو جناب اس کا جواب یہی ہے کہ ’بالکل منع ہے‘۔ دینِ اسلام میں ایسی کسی آسانی کی اجازت تو دورکی بات، کوئی تصور ہی نہیں جو ماں باپ کی خدمت، اولاد کی پرورش یا شوہر کی خدمت سے نجات کا ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ گھر میں نرس رکھ کر یا اولڈ ہوم بھیج کر والدین کی خدمت کریں، ڈے کیئر سینٹر میں ڈال کر بچوں کی پرورش ہونے دیں، صرف اپنے آرام کی خاطر۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی خاتون کی وڈیو پر جب وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ’ ’اکیلے بچے پالنا کتنا مشکل ہے‘‘، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی چوزے یا بلی کے بچے ہیں۔ وہ خاتون اقداری طور پر یہ بھول رہی تھیں کہ ماں کے پیروں تلے جنت مفت میں نہیں دی گئی۔ دین نے ’ماں‘کے لیے منفرد مقام کسی آرام دہ زندگی کے بدلے نہیں دیئے۔ ’’ماں کی دعا… جنت کی ہوا‘‘ جیسے کئی تقدیسی کلمات کیا ایویں وجود میں آگئے؟یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کو خالق نے ایک ذمہ داری دی ہو جس کے بدلے انعام کا وعدہ بھی ہو اور وہ ذمہ داری بغیر محنت، مشقت، تکلیف اٹھائے اوربغیر صبر کیے مل جائے۔ اس لیے ’’آسان پُرتعیش، پُرسکون‘‘ زندگی صرف قبر میں پانے کے لیے کوشش کی جائے تو ہی بہتر ہے۔ دنیا دارالامتحان ہے، اس کو امتحان گاہ سمجھیں۔ اگر یہاں آرام، سکون، مزے کی تلاش میں نکلیں گے تو آگے کی طویل زندگی کا آرام، مزہ، سکون خراب ہوجائے گا۔ یہی عام اصول مرد حضرات کے لیے بھی ہے۔

اب چلتے ہیں نکات نمبر تین، چار اور پانچ کی طرف۔ یورپ کی، بلکہ درحقیقت خاندان سے باہر کی زندگی، صرف اکیلے پن ہی کی نہیں بلکہ یہ اور کئی ہولناکیاں ساتھ لاتی ہے۔ ہماری پیدائش کسی نہ کسی خاندان میں،کئی رشتوں میں بندھی ہوتی ہے۔ ہم رشتوں سے باہرکچھ بھی نہیں ہوتے۔ ان رشتوں کو نبھانا دین کا حکم ہے، اتنا سخت کہ زکوٰۃ اور صدقہ بھی رشتوں سے شروع کرنا ہوتا ہے۔ ’’اقرب والاقرب‘‘کا پورا تصور اِسی رشتے داری، تعلق داری پر کھڑا ہے۔ صلۂ رحمی کا پورا باب موجود ہے، یہاں تک کہ پورے ’اہل و عیال‘ (بمعنی خاندان) کو بھی جہنم سے بچانے کا حکم ہے۔ پوری مغربی تہذیب رشتوں کو یکسر کاٹ کر بنائی گئی ہے۔ وہاں رشتوں کا کوئی بامعنی تصور ہی نہیں، وہاں خاندان کا تصور نہیں بچا۔ سب مادی وجود ہیں۔ مغرب میں خاندان تو دور کی بات، محرم رشتوں کی تقدیس بھی نہیں بچی، اس کے نتائج گندے پھوڑے پھنسیوں کی مانند سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلم معاشرت بچے پیدا کرنے سے لے کر پالنے… پرورش کرنے سے لے کر قبر اور اس کے بعد بھی جڑی رہتی ہے۔ خاتون جسے آسانی کہہ رہی ہیں وہ رشتوں میں گھری ہوئی حقیقی مسلم معاشرت ہے۔ اس چکر میں خاتون نے واقعی بہت بڑی بات کی ہے کہ ’’انسان کی زندگی بہت چھوٹی ہے، کسی کواپنے سے اتنا دور نہ کریں، مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اپنے رشتے داروں کے پاس رہنا چاہیے۔‘‘ یہ رشتوں کی پاس داری، اپنی روایت سے جڑے رہنے، تربیتِ اولاد کو ذمہ داری، مغرب کی ہولناکیوں کو سمجھنے کا سبق ہے جو دنیا کی تمام خواتین کو دیا جاسکتا ہے۔

پوڈ کاسٹ وڈیو:
پاکستان کے صفِ اوّل کے ایک لبرل نوجوان شہزاد غیاث شیخ نے اِس ہفتے ’ساحل عدیم‘ کو اپنی پوڈ کاسٹ میں مدعو کیا۔گفتگو میں وہ اپنے مہمان کو کئی بار یہ کہتا رہا کہ ’’میں تو آپ کو جانتا ہی نہیں۔ میں نے تو آپ کو سُنا ہی نہیں۔ یہ تو لوگوں نے سوال بھیجے ہیں جومجھے یاد ہوگئے ہیں‘‘۔ اب جو بھی انٹرویو دیکھ رہا تھا وہ سمجھ رہا تھا کہ ایسا بالکل نہیں جیسا وہ میزبان بیان کررہا ہے۔ شہزاد کے تمام تر بیانیے یہ بتاتے ہیں کہ وہ اسلام سے شدید بغض و عداوت رکھتا ہے اور ایک ایجنڈے پر ہے۔

’ساحل عدیم‘ اچانک سے مسلمانوں کی ’سیاسی‘ اصلاح کا خود کو نمائندہ سمجھ کر میدان ِدعوت میں اُترے ہیں، وہ 2006ء میں مغرب سے پاکستان آنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا میدان سوشل میڈیا سے لے کر عملی لیکچرز تک چند سالوں میں پھیلا ہے، تقریباً 80 ممالک میں وہ اپنے طلبہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مزید وہ ایک سیاسی جماعت بنانے کا ایجنڈا بھی رکھتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو ایک ہتھیار قرار دیتے ہیں، جس کا استعمال اُن کے مطابق پاکستانی نہیں جانتے۔ اُن کا ماضی اور حلیہ کارپوریٹ دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ اپنی گفتگو میں وہ عموماً کوشش کرتے ہیں کہ لوگ دین سے قریب آجائیں۔ اِس ضمن میں کئی بنیادی متفقہ خرابیوں کو وہ بیان کرتے ہیں، اپنے آپ کو شافعی ؒو حنبلی ؒفقہ کا طالب علم ظاہر کرتے ہیں۔2017ء میں انہوں نے یوٹیوب چینل شروع کیا اور اِس وقت ان کے تقریباً 5لاکھ 53 ہزار سبسکرائبر، فیس بک پر 3لاکھ 71 ہزار، انسٹا پر سوا لاکھ اور ٹوئٹر پر 60 ہزار فالوورز بن چکے ہیں۔

ساحل کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے انسانی نفسیات و دماغ کا بھی علم حاصل کیا ہے۔ اِس نشست میں ایسے کئی مواقع آئے جب ہر دیکھنے والے نے محسوس کیا کہ ’شہزاد‘ مستقل مہمان کی تذلیل کررہا ہے، کبھی کہتا کہ آپ کو سردی لگ رہی ہے، آپ کانپ کیوں رہے ہیں؟ ساحل نے یہ سوا 2 گھنٹے نہایت برداشت وکرب کے ساتھ جواب دیتے ہوئے گزارے۔ اِس برداشت میں نقصان یہ ہوا کہ ’شہزاد‘ کی طرف سے کئی ’تضادات اور جھوٹ‘ بائی پاس ہوگئے۔ شہزاد نے ہر تضاد کو فالوورز کے 300 کے قریب سوال کی آڑ لے کر چھپایا۔ شہزاد نے سوا دو گھنٹے میں صرف چار سے پانچ سوال ہی ڈسکس کیے۔ اِن سوالات کی ترتیب وار سرخیاں دیکھ لیں بات سمجھ میں آجائے گی: پاکستان میں توہینِ رسالت کا قانون، تصور معجزات و سائنس، پاکستانی جمہوریت، ٹی ایل پی کے نظریات کیوں نہیں جانتے؟ یوٹیوب کی کمائی حلال یا حرام؟ مخلوط تعلیم پر نظریہ؟ اس کے بعد چند متفرق سوال موبائل سے پوچھے گئے۔ اب شہزاد کے بقیہ سوال پڑھ کر اندازہ کرلیں کہ وہ کس ایجنڈے پر تھا۔ میریٹل ریپ، ڈومیسٹک وائیلنس(بیوی کو مارنا)، جبری مذہبی کنورژن، حضرت عائشہ ؓ کی نکاح کی عمرِ مبارک، طالبان کے بارے میں رائے جیسے سوالات سے ہی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ صرف سادہ ’مسخرہ‘ نہیں، بلکہ اسلام کے لبادے میں ایک مکمل لبرل، اسلام مخالف ایجنڈے کا پرچارک ہے۔

حصہ