مرغ باد نما

374

جب کوئی شخص اپنے آپ کو زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے یا بدلتے ہوئے حالات میں اچھے برے کی پہچان کیے بغیر خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے‘ تو اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ’’تھالی کا بینگن ہے۔‘‘ وہ مصلحت پسندی کا شکار ہوکر اپنی شناخت کھو دیتا ہے اور یہ جواز پیش کرتا ہے کہ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔‘‘

میرا موضوع تحریر ’’مرغ باد نما‘‘ ہے۔ یہ ہلکی دھات کا اکثر المونیم کا بنا ہوا اک مرغ ہوتا ہے جو اونچی عمارتوں ، محکمہ موسمیات کی بلڈنگوں اور بحری جہازوں کے مستولوں پر نصب ہوتا ہے جس کا رخ ہوا کے رخ کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ ہوا شمالاً جنوباً یا مشرق سے مغرب کی طرف چل رہی ہے۔ جس سے موسم کے حال کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بادی النظر میں ایک کار آمد شے ہے جو زمانۂ قدیم سے استعمال میں ہے۔

لیکن جب کوئی فرد یا کوئی قوم کسی غالب یا فاتح قوم سے مغلوب ہوکر شکست خوردگی کا شکار ہو کر اپنی تہذیب، ثقافت، تعلیمی بیانیہ فاتح قوم کے مطابق اپنا لیتی ہے تو وہ جغرافیائی آزادی حاصل کرنے کے باوجود ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہو پاتی۔ کسی قوم کی علمی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا ایک اچھا عمل ہے جیسا کہ آغازِ سفر میں صحابہؓ اور مسلم علما اور دانشوروں نے یونانیوں کے علوم سے حاصل کیا۔

خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلمانوں کی سطوت اور آزادی کا خاتمہ کا بھی کسی طور پر خاتمہ ہو گیا۔ جبکہ ہندوستان پر تین صدیوں پہلے ہی برطانیہ قابض ہو چکا تھا۔ 1857 کے جنگِ آزادی میں شکست کے بعد تو انگریزوں نے مسلمانان ہند کو ہندوئوںکی ملی بھگت سے مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا۔ مسلمانوں کی تمام جائدادیں ضبط کر لی گئیں۔ تعلیمی نظام، معاش، مدارس، املاک، سب برباد کر دیے گئے۔ مسلمانوں کی ثقافت و تہذیب کو آلودہ کر دیا گیا اور غدارانِ ملت اسلامیہ کی ایک ایسی کھیپ تیار کی گئی کہ جو انگریزوں سے زیادہ مسلمانوں کے لیے باعث ہلاکت بنی اور آج بھی انہیں کالے انگریزوں کی اولادوں کی حکومت اس مملکت خداداد پاکستان میں قائم ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ غدار ملت میر جعفر کا پڑ پوتا اسکندر مرزا اس ملک کا صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بنا اور آج بھی اسی طرح کے خانوادوں کی اولادیں اس ملک پر حکمرانی کر رہی ہیں۔

بر صغیر ہند و پاک پر ہزار سالہ مسلمانوں کی حکمرانی کے باوجود یہاں اسلام اس لیے غالب نہیں ہو سکا کہ مغل اور دیگر مسلم حکمرانوں نے اپنی سلطنت کی بقا کے لیے ہندوؤں کو خوش رکھا۔ اکبر نے تو ’’دین الٰہی‘‘ بھی ایجاد کیا۔ حضرت الف مجدد ثانیؒ کو اللہ اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا کرے کہ انہوں نے تن تنہا اس فتنے کا سدباب کیا۔

افسوس کہ بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں میں آج بھی ہندوانہ رسم و رواج غالب ہے۔ نہرو نے ایک بار کہا تھا کہ ’’اسلام جہاں جہاں گیا وہاں کی تہذیب، ثقافت، رسم و رواج پر غالب آ گیا مگر یہ ہندوستان میں آکر یہاں کی تہذیب و تمدن میں ضم ہو گیا۔‘‘ اور آج بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کے گھروں میں ہندوستانی فلمیں اور ثقافت اپنا رنگ جما چکی ہیں۔

اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

ممبئی میں کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہندوستان کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں‘ پاکستان کے ہر گھر میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت وہ تمدن موجود ہے جب کہ ہندوستان کا مسلمان تو پہلے سے ہی ہماری ہر چیز کو اپنا چکا ہے۔ رہی بات نماز روزے اور دیگر مذہبی عقائد کی تو انگریزوں نے اور ہم نے اتنے تفرقے ڈال دیے ہیں کہ یہ کبھی متحد ہو ہی نہیں سکتے اب تو ہر مسلک اور فرقے والا ایک دوسرے کو کافر قرار دے چکا ہے۔‘‘

جہاں تک تعلیمی نظام کا تعلق ہے وہ تو ان کا اپنا ہے ہی نہیں اور مدارس کے تعلیمی نظام بھی یکساں نہیں اور نہ دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے۔ جہاں جہاں نام نہاد برانڈیڈ یا Level O یا ALevel کا سسٹم ہے۔ وہ انگریزوں کے لیے مسلمانوں کا حکمراں تیار کرتے ہیں۔ لارڈ میکالے نے برصغیر میں جو تعلیمی نظام کو نافذ کیا اس نے مسلمانوں کو عیسائی تو نہیں بنایا مگر مسلمان بھی نہیں رہنے دیا۔

آج دنیا کا کوئی مسلم ملک نہیں جو اپنے ملک میں اپنا تعلیمی نظام رکھتا ہو۔ اس لیے جو نئی نسل جیسا پڑھتی ہے ویسا بنتی ہے۔ یہ تو دینی اور اسلامی تحریکوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ انہیں تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبا وطالبات کفر اور طاغوت کو للکار رہے ہیں۔ مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ اپنے ہی ملک کے مسلمان حکمرانوں اور جرنیلوں کے مظالم کا شکار ہیں۔ ان کی تعداد بہت کم ہے مگر اللہ کی نصرت و تائید سے مسلسل برسر پیکار ہیں۔

آج دنیا کا ہر انسان مذہب اور علاقے سے ماورا ایک ایسی جدیدیت اور اخلاق باختگی کے سیلاب میں بہے چلا جارہا ہے کہ الاماں الحفیظ۔ ساٹھ سال کا بوڑھا اور چھ سال کا بچہ ایک جیسی ذہنی پراگندگی کا شکار ہیں۔ جس جدیدیت کا نام سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا طلسم ہوش ربا کا ہوائی آلہ ہے اس کی اثر پذیری کا عالم یہ ہے کہ یہ منٹوں میں عالمی سطح پر اپنی بات منوانے اور اپنا اسیر بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ طوفانی ہواؤں کی صورت نوجوانوں کا لباس اور چہرے اور انداز بدل دیتا ہے۔ یہ کارٹون اور کھیلوں کے ذریعے جرائم حتیٰ کہ خود کشی پر بھی آمادہ کر دیتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ایجادات تو میدان جنگ کا نقشہ پلٹ دینے کے قابل ہو گیا ہے۔ سائبر کرائم نے تو حکومتوں کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ لہٰذا اس ہوائی جھونکے کی زد میں آج کی نوجوان نسل خود کو تبدیل کر رہی ہے۔ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔‘‘

اگر مرغ باد نما کو دیکھ کر کشتیاں اور جہازراں اپنا رخ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکی طاغوت اور یہود ونصاریٰ کے اتحاد خبیثہ کی مشترکہ جارحیت کے سامنے عام انسان ٹک سکے۔ حالاں کہ اس اتحاد خبیثہ کا اوّل و آخر ہدف وہ با عمل مسلمان ہیں جو اس کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں اور نہ اس کے رنگ میں رنگنے پر آمادہ ہیں۔ اگر ہندوستان میں موجودہ ہندتوا کی جارحانہ فسطائی جارحیت کو دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ کی تلوار مسلمانیت کی بچی ہوئی شاخ کو کاٹنے کے درپے ہے۔ تین طلاق کے قانون میں تبدیلی تو فی الحال ان کی جارحیت ہے جب کہ شہریت کا قانون آہستہ آہستہ نافذالعمل ہو رہا ہے۔ ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر نادان مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرانے، گانے رکھشا کے نام پر اجتماعی زیادتیاں اور ہلاکتیں آئے دن کی وارداتوں میں شمار ہو چکا ہے۔ ثقافتی، تہذیبی اور تمدنی شناخت فلموں ڈراموں اور سوشل میڈیا کے نشانے پر ہے۔ غزہ کے غیور اور غیرت مند مسلمانوں کی مزاحمت گرچہ ملت کا قرض ادا کر رہی ہے مگر محافظان حرمین اور عرب لیگ اور پاکستان جیسی ایٹمی قوت والا ملک اور ترکیہ جو کل تک مسلمانوں کے بہی خواہی کا دَم بھرتا تھا‘ اُن سب کی خاموشی نے عام مسلمانوں کی نظروں میں ان کو رسوا کر دیا ہے چاہے وہ حکمران ہوں یا جرنیل۔ سر زمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس بھی ریاست کی جانب سے پامال کیا جا رہا ہے۔ غزہ کے لیے تو پوری دنیا کے انسان سراپا احتجاج ہیں مگر مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے۔

شرق تا غرب مسلمانوں نے تلوار سے فتح نہیں کیا بلکہ اپنے اخلاق اور قرآن وسنت کی دعوت اور عدل و انصاف کے ذریعے مسخر کیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے گئے اور صبغت اللہ کا رنگ اختیار کرتے گئے۔ آج بھی یورپ اور دنیا کے اخلاق باختہ معاشرے کے مرد و خواتین جب اسلام کو گلے لگاتے ہیں تو اپنا ماضی ترک کرکے دینی رنگ میں خود کو رنگ لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ داعی اپنی دعوت کے مصداق اپنا کردار لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہے کہ نہیں۔

آج دنیا کے تمام نظریات اور مذاہب ما سوا اسلام کے اپنی شناخت کھو چکے ہیں لہٰذا انسانوں کا انبوۂ کثیر روحانی اور اخلاقی طور پر پیاسا ہے۔ انتظامی اور ضروریاتی سہولیات کے حوالے سے جتنی بھی ترقی ہو جائے‘ جب تک انسان کو روح کو اطمینان حاصل نہیں ہوگا‘ انسان ہر اعتبار سے بے کلی کا شکار رہے گا۔

آسائش حیات تو مل جائے گی مگر
سکونِ قلب لیکن مقدر کی بات ہے

آج کا انسان ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے، سمندر کی گہرائیوں سے تیل‘ گیس اور دیگرمعدنیات نکال رہا ہے مگر اپنی ذات کو پہچاننے سے قاصر ہے اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی نئی چیز ایجاد یا نظریے کی صورت میں آتی ہے تو اسے اپنانے کے لیے اس کے پیچھے بگٹٹ بھاگتا ہے اور آج کل یہ تبدیلیاں اتنی سرعت کے ساتھ جاری ہیں کہ یہ انسان رنگ بدلتے بدلتے اپنا قدرتی حسن گنوا بیٹھتا ہے۔ مائیکل جیکسن کو گورا رنگ اتنا پسند آیا کہ اس نے خود کو پلاسٹک سرجری کراتے کراتے اور گورا بننے کے پاگل پن میں لا علاج بیماری میں مبتلا ہو کر مرگیا جس کی دولت اور سہولیات زندگی اس کو سکون نہ دے سکی جس کے گانوں کو سننے کے لیے لاکھوں نوجوان لڑکے لڑکیاں دیوانہ تھے۔

میں نے رحیم خان خانا کے دوہے پڑھے ایک میں وہ کہتا ہے۔

جو رحیم اتم پر کرتی کا کرت سکے کسنگ
چندن ویش بیاپت ناہی لپٹت رہے بھجنگ

( جو اعلیٰ کردار کے ہوتے ہیں برے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جیسا کہ صندل کے درخت سے سانپ لپٹے رہتے ہیں مگر ان کا زہر صندل میں داخل نہیں ہوتا۔)

مختصر یہ ہے جس عمارت کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں وہ حوادث کا مقابلہ کر لیتی ہیں۔

حصہ