غزہ کے باسی کا اقبال ؒ کے شاہنیوں سے خطاب

اہل ِ غزہ ایمان پر ثابت قدمی اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کی لازوال مثال رقم کررہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان کی بہادری وشجاعت نے قرون اولی کی یاد تازہ کردی ہے، اور وہ اپنے قول وعمل سے امت مسلمہ کو بالخصوص اور عالم دنیا کو بالعموم اس امر کی دعوت دے رہے ہیں اسلام کے نظام حیات ہی میں حقیقی کامیابی ہے۔

26 دسمبر 2023 کو الایتلاف العالمی لنصرۃ القدس وفلسطین کے مدیر عام یوسف عمر مرکز تعلیم وتحقیق میں تشریف لائے، جو اصلاً غزہ کے باسی ہیں اور اس وقت حصول علم کی غرض سے ترکی میں قیام پذیر ہیں ، لیکن حصول علم کے ساتھ فلسطین کی آزادی کے لیے مختلف ممالک میں موجود طلبا تنظیموں کے نوجوانوں سے رابطے میں ہیں اور اسی غرض کے لیے مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہیں تاکہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو فلسطین کی آزادی کے لیے صرف کریں۔ اسی مقصد کے لیے وہ پاکستان بھی تشریف لائے۔

ان کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ادارے کی جانب سے اقبال کے شاہینوں سے ان کی ملاقات کروائی گئی ، جس میں انہوں نے قضیہ فلسطین اور طوفان اقصیٰ میں نوجوانوں کا کردار بیان کیا ،اور اس امر کی وضاحت کی کہ جب کسی قوم کے بچے اپنے اہداف کا تعین کرلیتے ہیں تو اس کے لیے اپنی ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ، یہی صورتحال اس وقت اہل غزہ کے نوجوانوں کی ہے جو 2014 میں آپ کی طرح چھوٹی عمر میں تھے انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد طے کیا ، او ر اس کے لیے آج ہر قسم کی قربانی پیش کررہے۔مہمان نے عربی زبان میں گفتگو کی۔ راقم الحروف نے ان کی گفتگو کا اردو میں ترجمہ پیش کیا، جو ذیل ہے۔

اپنی گفتگو کے آغاز میں انہوں نے سوال کیا کہ تم میں سے فلسطین کے نام سے کون کون واقف ہے؟ فلسطین کا نام سنتے ہی تمام بچوں نے ایک ساتھ ہاتھ بلند کیے اور اس امر کا اظہار کیا کہ ہم سب واقف ہیں۔ اس منظر کو دیکھتے ہی مخاطِب کا چہرہ لہلہا اٹھا اور گویا ہوئے کہ آپ کا یہ جذبہ اور چہروں پر یہ رونق ہماری قوت کا ذریعہ بنتی ہے۔ پیارے بچوں! اس وقت فلسطین کو جو درپیش چیلنجز ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے میری چند نصیحتوں پر عمل کرنا ہوگا۔

سب سے پہلا کام یہ کرنا ہے کہ آپ سب مسئلہ فلسطین کی حقیقت کو اچھے انداز میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس لیے کہ اس وقت اسرائیل کا سب سے اہم ہدف یہ کہ آج کی نسل کو فلسطین کی حقیقت سے گمراہ کیا جائے اور اس کے لیے وہ مختلف ذرائع سے ہمارے ذہنوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ امت مسلمہ اس کی حیثیت کو قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے اور فلسطین مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے۔ اس لیے بحیثیت مسلم ہم پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ مسئلہ فلسطین پرلکھی گئی کتابوں کا ، اس پر بنائی ڈاکومنٹریزسے فائدہ اٹھائیں اور اس کی حقیقت کو سمجھ کر اس کی آزادی کے لیے کوشش کرنے میں شعور کی قوت شامل ہوجائے گی جس کو کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

دوسری نصیحت یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے جو بھی ذرائع ہوسکتے ہیں ان کو استعمال کریں ۔ان کے حق میں منعقد کیے جانے والے مظاہروں میں شریک ہوں، ان کی قربانیوں کو بیان کیا جائے، ان پر جو ظلم وستم کیا جارہا ہے اس کو اجاگر کیا جائے۔ اپنے قلم کے ذریعے سے فلسطین کی آزادی کی تحریک چلائی جائے ، اپنی زبان کے توسط سیاس مسئلہ کی حقیقت کو بیان کیا جائے۔ اس وقت سوشل میڈیا کی نعمت میسر ہے اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے سے اس تحریک میں اپنا کردار ادا کریں۔ روزانہ کی بنیاد پر اس فریضہ کی ادائی میں اپنا حصہ شامل کریں۔

تیسری نصیحت یہ کہ ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے ، حقیقت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل کو اقتصادی شکست ملے گی، آپ کا یہ عمل اہل فلسطین کو مضبوط کرے گا۔ آپ کوئی بسکٹ یا چاکلیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں مسلم اور پاکستانی کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کریں۔ ان شاء اللہ آپ کا یہ اقدام دشمن کو معاشی شکست سے دوچار کرنے میں کارگر ثابت ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں خود غزہ کا باشندہ ہوں میرا آدھا خاندان شہادت کے درجے پر فائز ہوچکا ہے اور باقی خاندان غزہ ہی موجود ہے، اہلِ غزہ تو فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی جان جوکھوں پر لگائے ہوئے ہیں ، میری آپ سے یہ التماس ہے کہ آپ بھی اپنے فلسطین کو آزاد کرانے میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ ڈالیں ، اور آپ کا اسرائیلی مصنوعات سے بائیکاٹ اقصی کی آزادی میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔

چوتھی نصیحت یہ ہے کہ آپ اپنے کو جس علم سے منور کررہے ہیں وہ قرآن وسنت کا علم ہے ، یہی وہ علم ہے جو اہلِ غزہ کے بچوں نے آپ کی طرح حاصل کیا، اس کے بعد اپنی جوانیاں اللہ کے راستے میں جہاد میں لگائے ہوئے ہیں۔ اس وقت جو نوجوان اسرائیل کا مقابلہ کررہے ہیں وہ بھی آپ کی طرح بچے تھے ، لیکن ان کے والدین نے ان کی قرآن وسنت کے مطابق تربیت کی اور اس امر کی تعلیم دی کہ تم نے فلسطین آزاد کرانا ہے اور ا س کے لیے اپنی جان ، مال وخاندان کی قربانی پیش کرنی ہوگی ، اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ مسجد اقصی کی آزادی کے لیے لازوال قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ آپ نے بھی اپنے آپ کو اس علم سے منور کرکے دین کو غالب کرنا ہے اور اپنے علاقوں میں القدس کی آزادی کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔

پانچویں نصیحت یہ ہے کہ اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی اپنے مال کے ذریعے سے امداد کریں تاکہ ان کو بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکیں یہ امداد پاکستان میں الخدمت فاؤنڈیشن کے توسط سے آپ اہلِ غزہ کو پہنچاسکتے ہیں۔ اور آخری نصیحت یہ ہے کہ اپنے فلسطینی بھائیوں کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیے۔ اس لیے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’ایک مسلمان جب اپنے بھائی کے لیے اس حالت میں دُعا کرتا ہے کہ وہ موجود نہ ہوتو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔‘‘ اس لیے اپنی خصوصی دعاؤں میں اہلِ فلسطین کو یاد رکھیں۔

یہ چند امور ہیں اگر ان پر عمل کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اہلِ غزہ، فلسطین کو قوت پہنچتی رہے گی اور ان شاء اللہ وہ دن آئے گا جب اسرائیل نیست و نابود ہوگا اور فلسطین آزاد ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فلسطین کی آزادی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین۔