نیا سال:فلسطین سے پاکستان تک کچھ بدلے گا؟

411

ند گھنٹوں کے بعد سال 2023ء کا سورج غروب ہو جائے گا اور ایک نئے سال کے جشن کی تقریبات کا آغاز دنیا بھر میں ہوگا۔ سالِ دوراں جو کہ اب چند گھنٹوں کے بعد سالِ گزشتہ بن جائے گا، اس کا ایک مختصر جائزہ یہاں پیش کریں گے۔

یہ سال اس حوالے سے بھی اہم رہا کہ قومی و بین الاقوامی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کے اثرات تادیر نہ صرف محسوس ہوں گے بلکہ میری رائے میں اس پر دنیا کے مستقبل کا بھی انحصار ہوگا۔ ماضی کا تجزیہ اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ اس سے حال کو سمجھنے اور مستقبل کو دیکھنے کی راہ پیدا ہوتی ہے۔ ماضی نہ صرف حال کا عکاس بلکہ مستقبل کا آئینہ بھی ہے۔ سال 2023ء مشرق وسطیٰ کے لیے دھماکہ خیز ثابت ہوا کہ جہاں گزشتہ 75 سال سے لاینحل مسئلہ فلسطین جوکہ ایک طرح سے 7 اکتوبر سے قبل مسئلہ تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا، اب دنیا کے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آگیا ہے۔ اس میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ 7 اکتوبر کو علی الصبح حماس نے اپنی بہترین عسکری و تنظیمی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی فوج کو صرف چند گھنٹوں میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ان حملوں کی اوّلین خبریں جوکہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری کی گئیں ان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اِن حملوں میں 1400 اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ کئی زخمی ہوئے، اور 300 سے زائد اسرائیلی باشندوں کو گرفتار کرکے غزہ لے جایا گیا ہے۔ اسی رات اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے طبلِ جنگ بجادیا اور کہا کہ وہ غزہ کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کررہے ہیں۔ اور اس کارروائی کے اغراض ومقاصد میں سر فہرست قیدیوں کی بازیابی، حماس کا مکمل خاتمہ اور اسرائیل کو کسی سے خوف یا بیرونی حملے سے مکمل تحفظ دلوانا تھا۔ اسرائیل پر حماس کے حملے کو یہودیوں کی ہٹلر کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے اب تک یہودیوں کی ہلاکت کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا گیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے بالترتیب 18 اور 19 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کا دورہ کرکے اسرائیل کی مکمل حمایت کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ عسکری و انٹیلی جنس تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی۔ اس پورے تناظر میں 7 اکتوبر سے لے کر تاحال جبکہ جنگ کو 80 دن سے زائد گزر چکے ہیں، پورے غزہ پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ لیکن اسرائیل اپنے ان تینوں دعووں میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ ہر گزرنے والا دن اسرائیل کے لیے بھاری ثابت ہورہا ہے۔

اگر ماضی میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگوں سے اس کا موازنہ کیا جائے تو سب سے بڑی عرب اسرائیل جنگ جوکہ جون 1967ء میں لڑی گئی اور 6 دن جاری رہی، یہ جنگ اُس جنگ سے بھی نہ صرف بہت بڑی ہے بلکہ اس وقت طاقت کا توازن 100 بمقابلہ 1 کا بھی نہیں ہے۔ اسرائیل نے جو جنگی و عسکری ہیبت پورے مشرق وسطیٰ میں 1973ء کی جنگ کے بعد بٹھا دی تھی اس رعب کا خاتمہ 7 اکتوبر2023ء کو نہ صرف ہوگیا بلکہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیلی جانوں کا نقصان 1000 تھا جو اب بڑھ کر 1500 سے زائد ہوگیا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اسی طرح 1967ء میں اسرائیل کے مقابل 5 عرب ممالک کی پیشہ ور افواج تھیں جنہوں نے محض 6 دن میں ہتھیار ڈال دئیے، جبکہ 2023ء میں صرف ایک مزاحمتی گروپ حماس نے نہ صرف ان 80 سے زائد دنوں میں ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ گرفتار شدہ افراد کو بھی اپنی شرائط پر رہا کروایا ہے، جس کے بعد اسرائیل کے اس دعوے کو بھی باطل ثابت کردیا جس میں گرفتار شدگان کو بزور طاقت چھڑانے کی دھمکی دی گئی تھی۔

اس جنگ کو اگر اعداد و شمار سے الگ کرکے دیکھا جائے تو بھی یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے، عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے، بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی جو پیش رفت 75 سال کے طویل سفر میں ہوئی تھی کہ جہاں اسرائیل پوری دنیا کے لیے غاصب ریاست کے بجائے ایک آزاد و روشن خیال، ٹیکنالوجی ایڈوانس ملک کے روشن چہرے کے ساتھ سامنے آیا تھا اس محض 80 دن کی جنگ میں جوکہ تاحال جاری ہے 75 سال کا بنایا گیا قصر زمیں بوس ہوگیا۔ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر مشرقِ بعید تک جواسلامی ممالک کل تک بسر و چشم اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ تھے اور کئی ایک تسلیم کرچکے تھے اب وہاں بھی صورت ِحال انتہائی خراب ہے اور کئی ممالک نے اسرائیلی جارحیت کو منظم انسانی نسل کُشی قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات بھی منقطع کرلیے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی اس وقت مغرب میں آئی ہے جہاں اِس سال اسرائیل ایک جارح ریاست کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل شاید اسرائیل کا یہ چہرہ اس طرح عیاں نہیں تھا لیکن غزہ پر جارحیت، اسکولوں، اسپتالوں، چرچ، مساجد، زخمیوں، عورتوں اور بچوں، حتیٰ کہ ایمبولینسوں پر حملوں کے بعد اب مغرب کے عوام کی اکثریت اسرائیل کو ایک ظالم و جارح ریاست کے طور پر نہ صرف جانتی ہے بلکہ مظالم کا شکار غزہ کے عوام کے ساتھ بھی کھڑی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے حکمرانوں کے لیے ہی مسئلہ نہیں بنا کہ جہاں بنا بنایا کھیل بگڑ گیا، بلکہ اب یہ مغرب کے حکمرانوں اور ریاستوں کے لیے بھی ایک بہت بڑے مسئلے کیطور پر سامنے آیا ہے جہاں نہ صرف اس مسئلے نے سیاسی جماعتوں میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے بلکہ اب اس بھونچال کے جھٹکے ایوانِ اقتدار تک محسوس کیے جارہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں دونوں بڑی جماعتوں کنزرویٹو و لیبر کے اندر کسی بین الاقوامی مسئلے کی بنیاد پر شدید ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ لیبر پارٹی جس کو 7 اکتوبر سے قبل تک مسلمان ووٹرز کی اکثریتی حمایت حاصل تھی، کی صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے۔ کئی بلدیاتی کونسلز میں لیبر کے پورے گروپ نے جنگ بندی پر عمل درآمد کی قرارداد کی حمایت اور اپیل نہ کرنے پر لیبر پارٹی سے استعفیٰ دے دیا جس کے باعث بہت سی کونسلز میں لیبر اکثریت سے محروم ہوکر اقتدار سے بھی محروم ہوگئی۔ اسی طرح فرنٹ بینچ کے کئی اراکین یعنی مستقبل کے منسٹرز نے بھی اس پالیسی پر احتجاج کرتے ہوئے فرنٹ بینچ سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ سال برطانوی سیاست میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بھونچال کا سال رہا کہ جہاں طاقتور ترین سمجھی جانے والی وزیر داخلہ سوئیلا براومین بھی اس مسئلے کی وجہ سے اپنی وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

امریکا میں بھی صورت ِحال سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہی کہ جہاں مسئلہ فلسطین کو لے کر پورے امریکا میں احتجاج کی بازگشت سنائی دی اور تاریخ میں پہلی بار امریکی حکومت کے واضح اعلان کے باوجود عوام کی اکثریت نے امریکی حکومت کی اسرائیل نواز پالیسی کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ امریکی حکومت پر دبائو ڈال کر اس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بار بار ویٹو کرنے سے بھی روک دیا۔ نیویارک ٹائمز کے تازہ ترین سروے کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن کے موقف کو صرف 33 فیصد حمایت حاصل ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک اس وقت پوری امریکی حکومت و اسٹیبلشمنٹ کو ہے اور اس کی بنیاد پر امریکا اب ویٹو کا حق استعمال نہیں کررہا گوکہ وہ اب بھی اسرائیل کی حمایت میں کھڑا ہے، تاہم سفارتی زبان میں واضح تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔

اِدھر پاکستان جوکہ مسئلہ فلسطین کو ایک بنیادی مسئلہ تصور کرتا ہے اور آج تک اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم نہیں کرتا، اس کے موقف میں بھی تبدیلی کی ایک جھلک نظر آئی جب نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دو ریاستی حل کو ہی فارمولا برائے امن قرار دے ڈالا،اور وہ اس پر بات کرتے ہوئے اتنا آگے نکل گئے کہ جہاں شاید اُن کی عبوری حکومت کا منڈیٹ اُن کو اِن باتوں کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ اسی طرح چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی امریکی دورے کے دوران کم و بیش یہی بات کی اور دو ریاستی حل کا فارمولا سامنے رکھا، جس سے ایک طویل عرصے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بیک چینل ڈپلومیسی کی جھلک نظر آتی ہے، لیکن 7 اکتوبر کے بعد اب مسئلہ فلسطین ایک ایسی جگہ پہنچ چکا ہے جہاں پاکستان سمیت کسی بھی اسلامی ملک کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کی، اندرونی مزاحمت کی صورت میں، بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرکے جہاں انسانی زندگی کو ناممکن بنادیا ہے وہیں اب اس کے مقابلے میں یمن کے حوثیوں نے اسرائیل کا محاصرہ بحر احمر (Red Sea) سے کردیا ہے، جہاں سے وہ اب تاک تاک کر نہ صرف اسرائیلی بحری بیڑے کو نشانہ بنارہے ہیں بلکہ اب ان کے راکٹوں اور ڈرون کی پہنچ اسرائیل کی بندرگاہ و شہر ایلات تک ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے لیے بحراحمر اہم ترین حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسرائیل کی تجارت اور ایندھن کی سپلائی کا بہت زیادہ انحصار اسی روٹ پر ہے۔ حوثیوں کے حملے کے بعد برطانوی آئل کمپنی بی پی نے اپنی تیل کی سپلائی اس روٹ پر معطل کردی ہے جس کا اسرائیل اور برطانیہ دونوں کو شدید نقصان ہورہا ہے۔

یہ سال اسرائیل کی معیشت کے حوالے سے بھی تباہ کن رہا، اِس سال جنگ کے اخراجات اسرائیل کے مجموعی بجٹ سے تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئے۔ اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ کی 26 دسمبر کی اشاعت میں اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر جنگ سال 2024ء میں بھی جاری رہی تو اسرائیل کو 50 ارب شیکل اسرائیلی کرنسی یا 14 ارب امریکی ڈالر کا خسارہ ہوگا جوکہ اس کے مجموعی خسارے کا تین گنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کی معیشت پر یہ جنگ ایک بھاری بوجھ ثابت ہورہی ہے۔ ایک اور تخمینے کے مطابق اس جنگ کے دوران اسرائیل کے دہری شہریت رکھنے والے تقریباً 5 لاکھ لوگ واپس اپنے ممالک چلے گئے ہیں اور اسرائیل اب جنگ زدہ ملک کا منظر پیش کررہا ہے جس کے باعث معاشی سرگرمیوں اور کاروبار پر زبردست منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس نقصان کا مجموعی حجم 500 ارب شیکل یعنی ایک سال کے اسرائیل کے بجٹ کے مساوی ہوسکتا ہے۔

یہ سال اہلِ فلسطین کے لیے ایک تباہ کن سال ثابت ہوا لیکن شاید تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ مسئلہ فلسطین، فلسطینیوں کی جدوجہد اور ان کے خون سے دنیا کا نہ صرف نمبر ایک مسئلہ بن گیا ہے بلکہ یہ اب بین الاقوامی طاقتوں کی اندرونی سیاست میں بھی تبدیلیاں پیدا کررہا ہے۔ یہ سال غزہ کے نہتے لوگوں کے عنوان سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جنہوں نے ایک طویل ترین جدوجہد کے بعد دنیا کو جارح مجروح،ظالم مظلوم، فاتح و مفتوح کا اصل چہرہ دکھا دیا۔ یہ سال ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیل کو چند گھنٹوں میں عام آلاتِ حرب سے نقصان پہنچانے اور دنیا کی ایک بڑی مسلح فوج کو اپنے میدان میں لانے اور ان کو ناقابلِ تلافی نقصان سے ہم کنار کرنے کا سال بھی ہے۔ یہ سال اس حوالے سے بھی عالمی ضمیر کو جگانے، جھنجھوڑنے، اور یہ بات دکھانے کے لیے اہم تھا کہ صرف ایک جنگ میں اگر کوئی ریاست 90 سے زائد صرف صحافیوں کو قتل کردے تو اس کو کیا نام دیا جائے؟ یاد رہے کہ اس 80 روزہ جنگ میں اب تک 90 سے زائد صحافی جان سے جاچکے ہیں جوکہ کسی بھی جنگ میں مرنے والی صحافیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ سال اقوام متحدہ کے اداروں اور ان کے اہلکاروں کے لیے بھی تباہ کن رہا کہ جہاں محض غزہ میں 100 سے زائد اہلکار جان سے گئے۔ یہ اقوام متحدہ کے قیام سے لے کر اب تک کسی بھی جنگ میں مرنے والے اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

اس سال محض 42 اسکوائر مربع کلومیٹر رقبے پر محیط غزہ پردو ایٹم بموں کی طاقت سے زائد فاسفورس بموں کی صورت میں برسا دیا گیا۔ اس سب کے باوجود بھی عزم و ہمت کے کوہِ گراں اہلِ غزہ اپنی زمین چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس پوری جنگ میں اسرائیل کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے شاید اس سے قبل کسی بھی جنگ میں نہیں کرنا پڑا تھا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ غزہ اسرائیل کے مکمل قبضے میں ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اسرائیل پر راکٹ باری جاری ہے۔ اسرائیل تا حال اپنا ایک بھی قیدی نہیں چھڑوا سکا ہے، اور نہ ہی حماس کے کسی لیڈر کو قتل کرسکا۔ اُس کے جنگی جنون کا شکار محض بے گناہ لوگ ہوئے جوکہ غزہ میں بستے تھے۔ اگر اسرائیل کے 7-8 اکتوبر کے دعوے کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ سال اسرائیل کی فوجی، سیاسی اور سفارتی شکست کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ اسرائیل اپنے ان دعووں میں سے کسی ایک کو بھی پورا نہیں کرسکا۔

پاکستان کی سیاست میں یہ سال اس حوالے سے اہم رہا کہ دو سابق وزرائے اعظم کی کایا پلٹ ہوگئی۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو سزا اور انہیں نااہل قرار دے دیا گیا، جبکہ دوسرے سابق وزیراعظم نوازشریف نہ صرف اپنی بیرونِ ملک جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آگئے بلکہ ان کو نااہل سے اہل ترین کردیا گیا۔ وہ عدالت سے پے رول پر علاج کے لیے نومبر 2019ء میں لندن گئے تھے جہاں ایک طویل عرصہ قیام کے بعد وطن واپس لوٹے اور عدالتی حکم پر ان کو گرفتار بھی نہیں کیا گیا۔ نوازشریف کی وطن واپسی اور عمران خان کی جیل میں آمد نے اِس سال سیاسی کشیدگی کو عروج پر پہنچا دیا اور پاکستان سیاسی طور پر واپس 1990ء کی دہائی میں چلا گیا جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی سیاسی رسّاکشی چل رہی تھی اور ’’ایک جیل میں، دوسرا باہر… دوسرا باہر تو پہلا جیل میں‘‘ کی صورتِ حال رہی۔ اب جہاں اس کھیل میں پیپلز پارٹی تیسری بڑی قوت کے طور پر موجود ہے وہیں سوشل میڈیا پر بننے والے بیانیے نے اسٹیبلشمنٹ کو کڑا وقت دیا ہے، اور آج بھی وہ اس صورتِ حال سے مکمل طور پر نمٹنے میں ناکام ہے۔ بڑی تعداد میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو ڈرانے، دھمکانے اور ان کو مینج کرنے کے باوجود بھی اب تک صورت حال میں کوئی خاص بہتری نہیں آسکی۔ سوشل میڈیا جس کا استعمال خود بطور سیاسی بیانیے کے فوج کے تعلقاتِ عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے جنرل آصف غفور کی سربراہی میں کیا تھا آج اسی سوشل میڈیا کا سیاسی بیانیہ سر چڑھ کر ان کے ہی خلاف بول رہا ہے۔ مشہورِ زمانہ 2018ء کے انتخابات کے بعد جنرل آصف غفور کی ٹوئٹ جس میں قرآنی آیت کا حوالہ دے کر عزت و ذلت کا معیار مقرر کیا گیا تھا، آج بھی شاید عزت و ذلت کے معیار کے لیے کافی سمجھی جائے گی۔ سیاسی و معاشی طور پر پورا سال پاکستان شدید خلفشار کا شکار رہا اور نوجوانوں میں ملک کے حوالے سے شدید مایوسی نظر آئی۔ تقریباً 6 لاکھ سے زائد پاکستانی بہتر مستقبل کی تلاش میں وطن چھوڑ گئے۔ ان میں وہ اعلیٰ ترین دماغ بھی شامل تھے جواچھے روزگار، ایجنسیوں کے دبائو، یا جان کے خوف سے ملک چھوڑ گئے ہیں۔ یہ سال بھی اس حوالے سے المیے کا سال رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کہ جس کی گرفت پاکستان کی سیاست پر مزید مستحکم ہوئی ہے، وہ اپنے عوام کو تحفظ اور روزگار دونوں دینے میں ناکام رہی ہے۔ ملک کی اکثریت نوجوان نسل پر مشتمل ہے، وہ اگر اپنے لیے کوئی روشن مستقبل نہیں دیکھتے تو لامحالہ ان کے پاس وطن سے باہر جانے کے سوا کیا راستہ بچتا ہے؟ وطنِ عزیز میں سیاسی خلفشار، احساسِ عدم تحفظ وطن کے باشندوں کو ہجرت پر بار بار مجبور کررہا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارے میں اوسط سطح سے بھی کم درجے کے لوگ اعلیٰ ترین مناصب پر ہیں اور ان کے لیے صحیح، غلط، قانون، اصول اور میرٹ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی، معاشی، معاشرتی، عدالتی اور علمی انحطاط اس سال بھی جاری رہا۔ اس انحطاط کی اس سے اعلیٰ مثال کیا ہوگی کہ صرف 2023ء میں 694 افراد کو سول اعزازات سے نوازا گیا، جبکہ ہر معاملے میں انحطاط کوئی ڈھکا چھپا معاملہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں نئے انتخابات کے لیے اِس سال عبوری حکومت تشکیل دی گئی اور پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک عارضی عبوری حکومت کے لیے قانون میں ترامیم کرکے اسے وہ سارے اختیارات دے دیئے گئے جو کہ اس سے قبل صرف منتخب جمہوری حکومت کو حاصل تھے۔ صدرِ مملکت عارف علوی اپنی مدتِ صدارت ختم ہونے کے باوجود صوبائی اسمبلیاں نہ ہونے اور 90 روز کی مدت میں انتخابات کے عدم انعقاد کے باعث صدر کے عہدے پر برقرار رہے۔

سیاسی، سماجی، معاشی اور بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے سال 2023ء ایک مشکل سال ثابت ہوا کہ جہاں دنیا کووڈ کے دور میں پیدا شدہ معاشی مشکلات سے نمٹنے میں اِس سال بھی مصروف رہی، وہیں دنیا نے ایک اور جنگ کی صورت میں مزید تباہی و بربادی کا بھی سامنا کیا۔ بین الاقوامی فورم اقوام متحدہ کی حیثیت عالمی ثالثی میں مزید کمزور ہوئی اور دنیا کے عوام میں یہ سال بے چینی ختم کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا سال ثابت ہوا۔ آئندہ سال دنیا کے بیشتر ممالک بشمول پاکستان، بھارت، امریکا، برطانیہ، اسرائیل میں انتخابات ہیں کہ جہاں عوام اپنے لیے نئی قیادت کا انتخاب کریں گے۔ موجودہ سال کی صورتِ حال کا اس پر اثر ضرور ہوگا، لیکن یہ اثر کتنا ہوگا؟ اس کا جواب تو آنے والا سال دے گا۔ نئی امیدوں، تمنائوں اور مستقبل کے نئے امکانات کے ساتھ نئے سال کا آغاز کریں۔ اللہ کرے کہ یہ نیا سال پورے عالم کے لیے خوش کن سال رہے، آمین۔

حصہ