آخر شب کے ہمسفر

332

دیپالی نے لمبا سانس لیا اور ساریوں کا بنڈل اپنے آنچل میں چھپا کرباہر نکلی۔ گودام میں تالا لگایا۔ بنڈل برآمدے کی سیڑھیوں پر ڈال دیا اور بھوتارنی دیبی کے کمرے میں جاکر نہایت صفائی سے کنجیاں ان کے پلو میں باندھ دیں۔ بھوتارنی دیبی چڑ چڑی اور تنک مزاج ہونے کے علاوہ پیخیوں کے معاملے میں حد سے زیادہ سخت گیر اور محتاط تھیں۔ وہ ڈولی تک کا تالا صرف اپنے ہاتھ سے کھولتی تھیں۔ کنجیاں ان کے پلو میں باندھنے کے بعد دیپالی نے پوری طرح آنکھیں کھول کر بھگوتی کی مورتی کو دیکھا اور دروازے سے نکلی۔ سیڑھیوں پر سے بنڈل اٹھا کر آنگن میں سے بھاگتی ڈیوڑھی سے تیر کی طرح نکل کر پچھلی سڑک پر پہنچ گئی۔ پھاٹک پر بیٹھا کہار چلم ختم کرکے کہیں غائب ہوچکا تھا۔ دیپالی نے چاروں طرف دیکھا اور چند قدم آگے بڑھی۔ سڑک کی پلیاں کے نزدیک ایک نوجوان سائیکل سنبھالے کھڑا بے نیازی سے آسمان کو تک رہا تھا۔ دیپا کو دیکھ کر اس نے ہاتھ کا ہلکا سا اشارہ کیا۔

دیپالی دوڑ کر اس کے قریب پہنچی اور اچک کر سائیکل کے پیچھے کیریئر پر بیٹھ گئی۔

نواب پورے کی ایک گلی کے سرے پر ایک قدیم مکان کی بیٹھک میں چند نوجوان فرش پر بیٹھے سر گرشیاں کررہے تھے۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے نظر اٹھا کر دیکھا دیپالی سرکار سامنے کھڑی تھی۔ اس نے جھک کر بنڈل نوجوانوں کے سامنے رکھ دیا، ایک نوجوان نے بنڈل کھولا۔

’’دادا۔ اس سے زیادہ قیمتی چیز میرے گھر میں نہیں ہے‘‘۔

اس نوجوان نے جسے دیپالی نے مخاطب کیا تھا۔ ساریاں الٹی پلٹیں۔ ’’بالوچر ساریاں‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔ اس نوجوان نے اپنے شانوں پر زلفیں چھٹکا رکھی تھیں۔

’’بالوچر…!‘‘ دوسرے نوجوانوں نے حیرت اور اشتیاق سے ساریوں پر ہاتھ پھیرا۔

’’مگر بھائی ان کو خریدے گا کون؟ ہمیں تو فوراً چھ سو روپے چاہئیں‘‘۔

چار سو تک میں نہیں بک جائیں گی؟‘‘ دیپالی نے متفکر ہوکر پوچھا:

’’بالوچر ساریاں؟ آج کل دیپالی اپر کلاس لیڈیز انگریزی جارجٹ پہنتی ہیں‘‘۔

’’مگر یہ… تو یہ بے مثال چیز ہے اور نایاب‘‘ دوسرے نوجوان نے کہا۔

’’ہندوستان کا بیشتر پرانا فن نایاب اور بے مثال ہے‘‘۔ پہلے نے چڑ کر جواب دیا، ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔ پھر وہ دیپالی سے مخاطب ہوا۔ ’’تمہارے پاس اور کچھ نہیں؟‘‘

دیپالی نے تاسف سے سر ہلایا۔ دفعتاً اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔’’ان کو بیچنے یا گروی رکھنے کی کوشش تو کیجیے اکشے دادا‘‘۔

زلفوں والا نوجوان گہرا سانس لے کر فرش پر سے اٹھا۔ ’’اچھا، تھینک یو، دیپالی، اب تم واپس بھاگ جائو فوراً…‘‘ اور دفعتاً وہ تینوں نوجوان، جن میں سے تیسرا بالکل خاموش رہا تھا۔ بنڈل سمیت کوٹھری کے پیچھے دروازے سے نکل کر باہر اندھیرے میں غائب ہوگئے۔

اب رات کے نو بج رہے تھے اور میز پر کھانا چنا جاچکا تھا۔ بھوتارنی دیبی حسب عادت بڑبڑاتیی ہوئی رسوئی گھر اور کھانے کے کمرے کے پھیرے کررہی تھیں۔ کھوکھو، شونو اور ٹونو میچ سے واپس آکر تندہی سے کھیل پر بحث کرنے میں مشغول تھے۔ ڈاکٹر سرکار چہل قدمی سے لوٹ آئے تھے اور اپنے کمرے میں آرام کرسی پر نیم دراز حسب عادت ایک پائوں ہلاتے ہوئے سوچ بچار میں مصروف تھے۔

’’دیپالی…‘‘ انہوں نے آواز دی۔

دیپالی اپنے کمرے سے نکلی۔ ڈاکٹر سرکار آرام کرسی سے اٹھ کر بیٹھک خانے سے گزرتے کھانے کے کمرے میں پہنچ گئے۔ وہ ایک بھاری جسم کے متین چہرے اور سوچتی ہوئی آنکھوں والے انسان تھے۔ ان کے چہرے کے سکون سے ظاہر ہوتا تھا کہ خاموشی اور صبر کے ساتھ زندہ رہنا انہوں نے سیکھ لیا ہے۔

کھانے کی میز پر جاکر اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے دیپالی کی تلاش
میں نظریں دوڑائیں وہ اسی وقت اندر آرہی تھیں۔ ڈاکٹر سرکار نے ذرا تعجب سے اس کا جائزہ لیا۔

’’کیا بات ہے؟ طبیعت خراب ہے؟ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو‘‘۔

’جی نہیں… بابا… میں روزی۔ روزی کے گھر گئی تھی۔ واپس آرہی تھی تو، پلیا کے پاس ایک بھینسا مل گیا۔ اس کے ڈر سے دوڑتی آرہی ہوں‘‘۔ اس نے گلے پر ہاتھ رکھ کر ہنسنا چاہا۔

’’اتنی رات گئے روزی کے گھر سے اکیلی آرہی ہو؟‘‘ ڈاکٹر سرکار نے ذرا درشتی سے اسے ڈانٹنے کی کوشش کی۔

’’جی، جی نہیں۔ جوزف ساتھ آیا تھا‘‘۔ وہ دھم سے کرسی پر بیٹھ گئی۔

اس کے تینوں چھوٹے بھائی شور مچاتے ہوئے کھانا کھانے میں جت چکے تھے۔

’’ایک خوش خبری تمہارے لئے‘‘۔ کھانے کے دوران میں ڈاکٹر سرکار نے دیپالی سے کہا۔

وہ دھک سے رہ گئی۔ ’’کیسی خوش خبری… بابا؟‘‘

’’اشیت بابو‘‘ ڈاکٹر سرکار نے کرسی پیچھے سرکار کے جواب دیا۔ ’’میں ابھی اشیت بابو کے یہاں گیا تھا۔ وہاں ان کے بہنوئی آئے ہوئے ہیں‘‘۔

’’کلکتے والے؟ جیوتی بابو؟‘‘

’جیوتی بابو۔ وہ تمہارے ریکارڈ بھرنا چاہتے ہیں۔ ایچ ایم، وی ریکارڈ‘‘۔

’میرے ریکارڈ! سچ بابا… سچ بتایئے؟؟‘‘

تینوں لڑکوں نے کھانا چھوڑ کر غل مچانا شروع کردیا۔

’’دیدی کے ریکارڈ بجیں گے۔ گھر گھر دیدی کے ریکارڈ بجیں گے‘‘۔ کھوکھو نے گمبیھرتا سے اعلان کیا۔

’’دیدی امیر ہوجائے گی‘‘ منجھلا شونو زور سے چلایا۔

’’دیدی ہم کو پیسے دے گی‘‘۔ ٹونو نے سر جھکا کر نرمی سے کہا۔

’’ہمارے سائنس ماسٹر شنیل بابو کی بڑی دیدی کے ریکارڈ سارے انڈیا میں بجتے ہیں۔ وہ اتنی امیر ہوگئی ہین۔ ان کے پاس تو موٹر بھی ہے‘‘۔ شونو بولا۔

’’دیدی ریڈیو سے جتنے پیسے ملتے ہیں لاکر تم لوگوں پر خرچ کردیتی ہے‘‘۔ کھوکھو نے ڈانٹ بتائی۔

’’دیدی اتنے پیسے کیا کرے گی؟‘‘ سب سے چھوٹے ٹونو نے جو سب سے لاڈلا تھا مطالبہ کیا۔

’’اپنا جہیز بنائے گی، اور کیا تمہارا سر کرے گی‘‘۔ بھوتارنی دیبی نے جو اب تک تیوری پربل ڈالے چپ چاپ کھانا کھانے میں مشغول تھیں، گرج کر کہا۔

دیپالی ذراسی سرخ ہوگئی اور کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔ اس سارے ہنگامے میں وہ شام کی مہم کو تقریباً بھول چکی تھی۔ وہ میز پر سے اٹھنے لگی تو ڈاکٹر سرکار نے اس سے کہا ’’جیوتی بابو… انہوں نے تم سے کل ریڈیو اسٹیشن پر ملنے کو کہا ہے۔ تم کو ریکارڈنگ کے لئے کلکتہ جانا ہوگا۔ تم ریڈیو اسٹیشن کل کس وقت جائوگی؟‘‘

’’صبح کو بابا… دس بجے‘‘۔

’کالج پھرغانہ…؟‘‘

’’بابا۔ اب تو چھٹیاں شروع ہونے والی ہیں۔ اور (لڑکے اب ہلڑ مچاتے ہاتھ دھونے کے لئے باہر جاچکے تھے۔ بھوتارنی دیبی چپ چاپ برتن سمیٹنے میں مصروف تھیں) بابا… پروگرام کے پیسے جمع کرکے بچوں کے کپڑے بنادیئے تھے‘‘۔ وہ ٹھٹھک گئی۔ ’’بابا۔ میری ساریاں بالکل پھنے والی ہورہی ہیں‘‘۔ اس نے جھینپ کر بات ختم کی۔

ڈاکٹر سرکار نے سر جھکالیا۔ پھر وہ آہستہ سے اٹھ کر باہر چلے گئے، اور گودام کے نزدیک والے نل کے پاس کھڑے ہوکر کُلّا کرنے لگے۔ دیپالی چپکے چپکے پیچھے آئی اور گودام کے بند کواڑوں کو غور سے دیکھا جن میں لگا لوہے کا وزنی تالا بے حد ساکت اور پراسرار معلوم ہورہا تھا۔

2
طوفان سے پہلے

’’ابانی گنگوپادھیائے‘‘۔
’’پریذنٹ‘‘۔
’’مولینا گھوشال‘‘۔
’’پریذنٹ‘‘۔
’’روزی بنرجی‘‘۔
’’پریذنٹ‘‘۔
’’جہاں آرا چودھری‘‘
’’پریذنٹ‘‘۔
’’دیپالی سرکار‘‘
’’ایبسنٹ‘‘

سوکس (Civics) کی لیکچرر مسز ونس نے سینڈ ایئر آرٹس کی حاضری لیتے ہوئے روزی بنرجی اور جہاں آرا چودھری کے برابر والی تیسری خالی کرسی پر نظر ڈالی۔

’’دیپالی پھر غائب ہے‘‘ انہوں نے کہا۔

’’دیکھئے کرونادی‘‘ جہاں آرا نے پلو منہ پر رکھ کر کھی کبھی کرتے ہوئے مسرور ہنسی چھپانے کی کوشش کی۔’’دیپالی بیمار ہے‘‘۔

’’تم کو کیسے معلوم؟ تم تو اس سے گھر سے اتنی دور رہتی ہو…؟‘‘

’’وہ کل… میرا مطلب ہے،کل مجھے معلوم ہوا تھا کہ بیمار پڑ گئی ہے بے چاری‘‘۔

’’لڑکیو… مسز بونس نے لاس کو بڑے دکھ سے مخاطب کیا‘‘۔ فائنل امتحان سر پر ہیں اور تم سب کی سب ہوگی فیل… اور روزی‘‘

’’یس کردنادی‘‘۔

’تم دونوں… تم اور دیپالی ہر وقت ڈرامے کرنے میں جٹی رہتی ہو۔ ہر وقت۔ ایکٹریس بنوگی؟‘‘

’’کھی کھی کھی…‘‘ روزی اور جہاں آرا نے ہنسی روکی۔

’’کہہ دو…؟‘‘ روزی نے چپکے سے جہاں آرا سے پوچھا۔

’’کہہ دو‘‘۔

’’کردناری… دیکھئے کردنادی… اصل میں دیپالی کلکتے جارہی ہے۔ ایچ ایم وی ریکارڈ بھروانے۔

’’ایچ ایم وی ریکارڈ‘‘۔ ساری کلاس نے نعرہ لگایا۔

’’آج وہ گراموفون کمپنی کے ڈائریکٹر سے ملنے جارہی تھی تو راستے میں میرے گھر پر چھٹی کی عرضی چھوڑ گئی‘‘۔ روزی نے کہا۔

’’کہاں ہے عرضی؟‘‘

’’بھول آئی کردنادی۔ کھی کھی کھی‘‘۔

مسز بوس ایک نیک دل اور شریف خاتون تھیں۔ انہوں نے ذرا جھلا کر روزی کو گھورا اور باقی ماندہ کلاس کی حاضری لگانے کے بعد فوراً اپنا کلاس روم والا بے رنگ لہجہ اختیار کرکے سامنے دیکھتے ہوئے کہا ’’صفحہ 218 کھولو۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء‘‘۔

’’اوہ…ہو… ہو… اوہ… دیپالی کی خوشی کردنادی۔ آج جلدی چھٹی پلیز۔ پلیز۔ پلیز‘‘۔

’’جائو۔ بھاگو۔ منہ جلی چڑیلیں‘‘۔ آدھ گھنٹہ پڑھانے کے بعد مسز بوس نے مصنوعی غصے کے ساتھ کتاب زور سے بند کی۔ لڑکیاں بھد بھد کرتی کمرے سے نکل کر باہر گھاس پر بکھر گئیں۔

روزی اور جہاں آرا نے ٹک شاپ پر جاکر چاٹ خریدی۔

ابانی نے قریب آکر چپکے سے روزی سے کہا ’’پھاٹک پر کوئی لڑکا دیپالی کو پوچھ رہا ہے‘‘۔

’’وہی؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’میں جاتی ہوں‘‘۔

روزی بھاگتی ہوئی دور پھاتک پر پہنچی۔ نوجوان جو کل شام دیپالی کو سائیکل پر بٹھا نواب پور لے گیا تھا، اطمینان سے درخت کی آر میں کھڑا پان چبا رہا تھا۔ قریب ہی ایک گائے گھاس پر بکھرے چاٹ کے خالی دنوں پر منہ مارنے میں مصروف تھی۔

’’دیپالی نہیں آئی ہے۔ کوئی پیغام؟‘‘

’’ہاں‘‘ لڑنے نے کہا ’’اس سے کہنا 19 تاریخ کی شام کو ریڈیو اسٹیشن کی برساتی ٹھیک سات بجے ضرور پہنچ جائے۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ جس کام کے لئے کل گئی تھی وہ امید ہے ایک دو دن میں ہوجائے گا‘‘۔

’’اور کچھ…؟‘‘

’’بس… نومشکار‘‘ لڑکا سائیکل کے پیڈل پر پائوں مارتا ہوا ہوا ہوگیا۔

روزی جو بے حد تیزی سے دوڑتی پھاٹک پر آئی تھی، اب سر جھکائے سوچ میں ڈوبی ٹک شاپ واپس پہنچی۔ جہاں بہت سی لڑکیاں اکٹھی ہوکر کسی نئی خبر پر زور زور سے تبصرہ کررہی تھیں۔

(جاری ہے)

حصہ