ایک مرتبہ اقرع بن حابسؓ نبیؐ کے پاس آئے۔ حضورؐ اس وقت حضرت حسنؓ کو پیار کررہے تھے اقرع کو دیکھ کر تعجب ہوا اور بولے یا رسولؐ اللہ! آپ بھی بچوں کو پیار کرتے ہیں، میرے تو دس بجے ہیں لیکن میں نے تو کبھی کسی ایک کو بھی پیار نہیں کیا… نبیؐ نے اقرع کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت و شفقت کو نکال دیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں؟
فاروق اعظمؓ کے دور میں حضرت عامرؓ کسی اہم عہدے پر تھے، ایک بار حضرت عمرؓ سے ملنے کے لئے ان کے گھر پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ لیٹے ہوئے ہیں اور بچے سینے پر چڑھے ہوئے کھیل رہے ہیں… حضرت عامر کو یہ بات کچھ گراں گزری۔ امیر المومنین نے پیشانی کے اتارچڑھائو سے ان کی ناگواری کو بھانپ لیا اور حضرت عمرؓ سے بولے: کہیے آپ کا اپنے بچوں کے ساتھ کیسا برتائو رہتا ہے؟
عامرؓ کو موقع مل گیا، بولے امیر المومنین! جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو گھر والوں پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ دم سادھ کر چپ ہوجاتے ہیں، حضرت عمرؒؓ نے بڑے سوز کے ساتھ کہا۔
’’عامر! آپ امت محمدیہؐ کے فرزند ہوکر یہ نہیں جانتے کہ مسلمان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ کس طرح نرمی اور محبت کا سلوک کرنا چاہیے‘‘۔
-18 اولاد کو پاکیزہ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لئے اپنی کوشش وقف کردیجیے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیجیے۔ یہ آپ کی دینی ذمہ داری بھی ہے، اولاد کے ساتھ عظیم احسان بھی اور اپنی ذات کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی بھی۔ قرآن میں ہے:
’’مومنو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے‘‘۔
اور جہنم کی آگ سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ آدمی دین کے ضروری علم سے بہرہ مند ہو اور اس کی زندگی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزر رہی ہو۔
نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے‘‘ (مشکوٰۃ)
اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ صدقہ جاریہ کر جائے، دوسرے یہ کہ وہ ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، تیسرے صالح اولاد جو باپ کے لئے دعا کرتی رہے‘‘ (مسلم)
دراصل اولاد ہی آپ کی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور پیغام توحید کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے اور مومن نیک اولاد کی آرزوئیں اسی لئے کرتا ہے تاکہ وہ اس کے بعد اس کے پیغام کو زندہ رکھ سکے۔
-19 بچے جب سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز سکھایئے، نماز پڑھنے کی تلقین کیجیے اور اپنے ساتھ مسجد لے جاکر شوق پیدا کیجیے اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں اور نماز میں کوتاہی کریں تو انہیں مناسب سزا بھی دیجیے قول و عمل سے ان پر واضح کردیجیے کہ نماز کی کوتاہی کو آپ برداشت نہ کریں گے۔
-20 بچے جب دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کردیجیے او رہر ایک کو الگ الگ چار پائی پر سلایئے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور نماز کے لئے ان کو سزا دو جب وہ دس سال کے ہوجائیں، اور س عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کردو‘‘۔
-21 بچوں کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھیے۔ ان کی طہارت، نظافت اور غسل وغیرہ کا خیال رکھیے، کپڑے بھی پاک صاف رکھیے، البتہ زیادہ بنائو سنگھار اور نمود و نمائش سے پرہیز کیجیے۔ لڑکی کے کپڑے بھی نہایت سادہ رکھیے اور زرق برق لباس پہنا کر بچوں کے مزاج خراب نہ کیجیے۔
-22 دوسروں کے سامنے بچوں کے عیب نہ بیان کیجیے اور کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کرنے اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس لگانے سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے۔
-23 بچوں کے سامنے کبھی بچوں کی اصلاح سے مایوسی کا اظہار نہ کیجیے، بکہ ان کی ہمت بڑھانے کے لئے ان کی معمولی اچھائیوں کی بھی دل کھول کر تعریف کیجیے۔ ہمیشہ ان کا دل بڑھانے اور ان میں خود اعتمادی اور حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کیجیے تاکہ یہ کارگاہ حیات میں اونچے سے اونچا مقام حاصل کرسکیں۔
-24 بچوں کو نبیوں کے قصے، صالحین کی کہانیاں اور صحابہ کرامؓ کے مجاہدان کارنامے ضرور سناتے رہیں۔ تربیت و تہذیب، کردار سازی اور دین سے شغف کے لئے اس کو انتہائی ضروری سمجھیے اور ہزار مصروفیتوں کے باوجود اس کے لئے وقت نکالیے اکثر و بیشتر ان کو قرآن پاک بھی خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنایئے اور موقع موقع سے نبیؐ کی پر اثر باتیں بھی بتایئے اور ابتدائی عمر ہی سے ان کے دلوں میں عشق رسولؐ کی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔
-25 کبھی کبھی بچوں کے ہاتھ سے غریبوں کو کچھ کھانا یا پیسے وغیرہ بھی دلوایئے تاکہ ان میں غریبوں کے ساتھ سلوک اور سخاوت و خیرات کا جذبہ پیدا ہو اور کبھی کبھی یہ موقع بھی فراہم کیجیے کہ کھانے پینے کی چیزیں بہن بھائیوں میں خود ہی تقسیم کریں، تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کا احساس اور انصاف کی عادت پیدا ہو۔
-26 بچوں کی ہر جاو بے جاضد پوری نہ کیجیے، بلکہ حکمت کے ساتھ ان کی یہ عادت چھڑانے کی کوشش کیجیے، کبھی کبھی مناسب سختی بھی کیجیے، بے جا لاڈ پیاد سے ان کو ضدی اور خود سر نہ بنایئے۔
-27 کرخت آواز سے بولنے اور گلا پھاڑ کر چیخنے چلانے سے خود بھی پرہیز کیجیے اور ان کو بھی تاکید کیجیے کہ درمیانی آواز میں نرمی کے ساتھ گفتگو کریں اور آپس میں بھی ایک دوسرے پر چیخنے چلانے سے سختی کے ساتھ بچیں۔
-28 بچوں کو عادت ڈالیے کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کریں، ہر کام میں نوکروں کا سہارا نہ لیں۔ اس سے بچے کاہل، سست اور اپاہج بن جاتے ہیں بچوں کو جفاکش، محنتی اور سخت کوش بنایئے۔
-29 بچوں میں باہم لڑائی ہوجائے تو اپنے بچے کی بے جا حمایت نہ کیجیے۔ یہ خیال رکھیے کہ اپنے بچے کے لئے آپ کے سینے میں جو جذبات ہیں وہی جذبات دوسروں کے سینے میں اپنے بچوں کے لئے ہیں، آپ ہمیشہ اپنے بچے کے قصوروں پر نگاہ رکھیے اور ہر پیش آنے والے ناخوش گوار واقعہ میں اپنے بچے کی کوتاہی اور غلطی کی کھوج لگا کر حکمت اور مسلسل توجہ سے اس کو دور کرنے کی پرزور کوشش کیجیے۔
-30 اولاد کے ساتھ ہمیشہ برابری کا سلوک کیجیے اور اس معاملے میں بے اعتدالی سے بچنے کی پوری پوری کوشش کیجیے۔ اگر طبعاً کسی ایک بچے کی طرف زیادہ میلان ہوتو معذوری ہے، لیکن سلوک و برتائو اور لین دین میں ہمیشہ انصاف کا لحاظ رکھے اور کبھی کبھی کسی ایک کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک نہ کیجیے جس کو دوسرے بچے محسوس کریں۔ اس سے دوسرے بچوں میں احساس کمتری، نفرت، مایوسی اور آخر کار بغاوت پیدا ہوگی اور یہ برے جذبات فطری صلاحیتوں کے پروان چڑھنے میں زبردست رکاوٹ اور اخلاق اور روحانی ترقی کے لئے سم قاتل ہیں۔
ایک بار حضرت نعمانؓ کے والد حضرت بشیرؓ اپنے بیٹے کو ساتھ لئے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: یا رسولؐ اللہ! میرے پاس ایک غلام تھا، وہ میں نے اپنے اس لڑکے کو بخش دیا۔ نبیؐ نے پوچھا کیا تم نے اپنے ہر لڑکے کو ایک ایک غلام بخشا ہے؟ بشیرؒ بولے: نہیں۔ تو حضورؐ نے فرمایا کہ اس غلام کو تم واپس لے لو اور فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے ساتھ مساوات اور برابری کا سلوک کرو، اب حضرت بشیرؓ گھر واپس آئے اور نعمان سے اپنا دیا ہوا غلام واپس لے لیا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
’’تو پھر مجھے گناہ پر گواہ نہ بنائو، میں ظلم کا گواہ نہ بنوں گا‘‘۔
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ حضورؐ نے پوچھا کیا تم یہ پسندکرتے ہو کہ سب لڑکے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ حضرت بشیرؓ نے کہا: یا رسولؐ اللہ کیوں نہیں۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’پھر ایسا کام مت کرو‘‘ (بخاری، مسلم)
-31 بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کیجیے۔ آپ کی زندگی بچوں کے لئے ایک ہمہ وقتی خاموش معلم ہے جس سے بچے ہر وقت پڑھتے اور سیکھتے رہتے ہیں بچوں کے سامنے کبھی مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولیے۔
حضرت عبداللہ بن عامرؓ اپنا ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضورؐ ہمارے گھر تشریف رکھتے تھے۔ میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا: ’’یہاں آ! میں تجھے چیز دوں گی۔ حضورؐ نے دیکھ لیا پوچھا: ’’تم بچے کو کیا دینا چاہتی ہو؟ والدہ بولیں: ’’میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں‘‘۔ آپؐ نے والدہ سے فرمایا: ’’اگر تم دینے کا بہانہ کرکے بلاتیں اور بچے کے آنے پر کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال نامہ میں جھوٹ لکھ دیا جاتا‘‘۔ (ابودائود)
-32 لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منایئے جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں، لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی اللہ کا عطیہ ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا۔ لڑکی کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھانا اور دل شکستہ ہونا اطاعت شعار مومن کے لئے کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ یہ ناشکری بھی ہے اور خدائے علیم و کریم کی توہین بھی۔
حدیث میں ہے کہ ’’جب کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں، اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ کمزور جان ہے جو کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک اللہ کی مدد اس کے شامل حال رہے گی‘‘۔ (طبرانی)
-33لڑکیوں کی تربیت و پرورش انتہائی خوش دلی، روحانی مسرت اور دینی احساس کے ساتھ کیجیے اور اس کے صلے میں اللہ سے بہشت بریں کی آرزو کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سرپرستی کی انہیں تعلیم و تہذیب سکھائی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا۔ یہاں تک کہ اللہ ان کو بے نیاز کردے تو ایسے شخص کے لئے اللہ نے جنت واجب فرمادی اس پر ایک آدمی بولا، اگر دو ہی ہوں تو نبیؐ نے فرمایا۔ دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپؐ ایک کی پرورش پر بھی یہی بشارت دیتے‘‘ (مشکوٰۃ)
حضرت عائشہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ایک عورت اپنی دو بچیوں کے لئے میرے پاس آئی اور اس نے کچھ مانگا۔ میرے پاس صرف ایک ہی کھجور تھی، وہ میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ اس عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور آدھی آدھی دونوں بچیوں میں بانٹ دی اور خود نہ کھائی اس کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر نکل گئی۔ اسی وقت نبیؐ گھر تشریف لائے، میں نے آپؐ کو یہ سارا ماجرا کہہ سنایا، آپؐ نے سن کر فرمایا: ’’جو شخص بھی بچیوں کی پرورش کے ذریعے آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کامیاب ہو تو یہ لڑکیاں اس کے لئے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی‘‘ (مشکوٰۃ)
-34 لڑکی کو حقیر نہ جانیے، نہ لڑکے کو اس پر کسی معاملے میں ترجیح دیجیے دونوں کے ساتھ یکساں محبت کا اظہار کیجیے اور یکساں سلوک کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر اسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر جانا اور نہ لڑکے کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی اور زیادہ سمجھا تو ایسے آدمی کو اللہ جنت میں داخل کرے گا‘‘ (ابودائود)
-35 جائیداد میں لڑکی کا مقررہ حصہ پوری خوش دلی اور اہتمام کے ساتھ کیجیے۔ یہ اللہ کا فرض کردہ حصہ ہے اس میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں، لڑکی کا حصہ دینے میں حیلے کرنا یا اپنی صواب دید کے مطابق کچھ دے دلاکر مطمئن ہوجانا اطاعت شعار مومن کا کام نہیں ہے۔ ایسا کرنا خیانت بھی ہے اور اللہ کے دین کی توہین بھی۔
-36 ان تمام عملی تدبیروں کے ساتھ ساتھ نہایت سوز اور دل کی لگن کے ساتھ اولاد کے حق میں دعا بھی کرتے رہیے۔ خدائے رحمن و رحیم سے توقع ہے کہ وہ والدین کے دل کی گہرائیوں سے نکل ہوئی پر سوز دعائیں ضائع نہ فرمائے گا۔