بلوچستان ہے کیا؟
اِس ہفتہ بلوچستان کے لاپتہ افراد سے ،متعلق تحریک زوروں پر نظر آئی MarchAgainstBalochGenocideجیسے ٹرینڈ چلتے رہے۔اس سے قبل یہ ٹرینڈ غزہ کے مسلمانوں کے لیے چل رہے تھے ۔ بلوچستان ، پاکستان کا ایسا صوبہ ہے، جو جغرافیائی اِعتبار سے اِنتہائی حساس ہے ۔ کم از کم 8ممالک کے براہ راست اس خطے سے مختلف اہم سیاسی و معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ اِن میں ایران، ، عمان ،افغانستان ،عرب امارات، بھارت، امریکہ ، روس اور چین سر فہرست ہیں۔اس لیے وہاں کون کس کا ایجنٹ بنا ہوا ہے یہ جاننا بڑا مشکل کام ہے۔ پھر ریاست کا خود اپنا نیٹ ورک بھی کام کر رہا ہےیوں 9 ممالک ہو گئے، اس کے علاوہ یورپی فنڈڈ این جی اوز الگ اپنے مشن میں مصروف ہیں۔ترک مشہور ڈرامہ سیریز ’کرولوس عثمان‘ کا پانچواں سیزن انتہائی کامیابی سے نشر ہورہا ہے اور دیکھا بھی جا رہا ہے۔ اس کی 11 اقساط ترکی سے نشر ہو چکی ہیں، دس سال سے ہم اس کو دیکھ رہے ہیں ۔ جاسوس لگانے کا عمل دس برس میں جتنا ہمیں اس سیریز نے سمجھایا ہے کوئی اور بھارتی یا ہالی ووڈ کی فلم بھی نہ سمجھا پاتی ۔ اس لیے بلوچستان میں ہو سکتا ہے آپ کو 20 سال سے ایک سادہ سے حاجی صاحب بلوچستان کے کسی شہر میں سبزی لیتے نظر آتے ہوں مگر درحقیقت وہ وہاں کسی کے لگائے ہوئے ہوں۔ ہوسکتاہے کہ جس محلے کے نائی سے آپ 20 سال سے حجامت کراتے ہوں ، وہ وہاں صرف حجامت کرنے کے لیے نہیں ہو۔ جو فقیر آپ کو سالوں سے اسٹاپ پر نظر آتا ہو وہ وہاں کسی کا لگایا ہوا ہو۔کسی یونیورسٹی کا پروفیسر بھی ہو سکتا ہے اور اسکول کا چوکیدار بھی۔ درزی سے لیکر نان بائی تک ۔یقین مانیں بالکل یہی صورتحال ہے بلوچستان کی، جہاں کم از کم 9 ممالک کی کئی ایجنسیز خطے میں کام کر رہی ہیں۔ اس لیے بلوچستان کی اہمیت کو سمجھیں ۔ بلوچستان کی معدنی اہمیت بھی بہت ہے، مگر وہاں تک پہنچنے سے پہلے زمین پر سلامت رہنا ضرور ی ہے۔
پس ماندگی کیا ہے؟
پس ماندہ ، فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ اس کے معنی ہیں پیچھے رہ جانا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ کون سی ریس لگی ہوئی ہے جس میں کوئی پیچھے رہ جائے تو اس کو پس ماندہ کہا جاتا ہے ؟باوجود اس کے کہ ہر صوبائی حکومت میں ’’سماجی بہبود و ترقی نسواں‘‘ کی ایک وزارت لازمی ہوتی ہے ،جس کی وزیر ایک خاتون ہی ہوتی ہے مگر کیا کہیں کہ اصل معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔ دیکھاجائے تویہ پس ماندگی کا لیبل ایک ’گالی‘ کی مانند ہے ۔سوا کروڑ آبادی کے ساتھ بلوچستان آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے چھوٹاصوبہ ہے ، لوگ اس کو بھی پس ماندہ کہتے ہیں ۔یہ ایسا ہے کہ جیسے ترقی کے نام پر ’مخصوص اقدار، مخصوص معاملات ‘ کو اپنانے کی ایک اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے ، کس نے لگائی ہے کسی کو نہیںمعلوم ۔ یہ دوڑ کیوں لگی ہے ؟ اس کو حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس سے کیا فائدہ ہوگا ؟ ان سارے سوالات کا جواب جانے بغیر سب دوڑ رہے ہیں اور جو کسی حد تک پہنچ جاتا ہے تو وہ دوسروں کو ’پس ماندہ‘ کہنا شروع کردیتا ہے کہ وہ پیچھے رہ گئے ۔اب کوئی بتائے کہ گیس، بجلی، پانی و سیوریج کی لائن ،اسکول ،کالج ،کمپیوٹر ، انٹرنیٹ ،سڑکیں، ہسپتال ، ہوائی اڈے، بس اڈے کیا عدم پس ماندگی کی علامت ہیں؟ ،پس ماندگی کے اس خطرناک لیبل میں ہی یہاں ہر قسم کے حقوق کی تحریک کو مہمیز ملتی ہے اور بیرونی قوتوں کو اُکسانے کا صاف رستہ ملتا ہے۔ اس کی اولین وجہ دین سے علمی ، فہمی و عملی دوری ہے اسکے بعد مغربی اثرات کی زبردستی مرعوبیت نےبھی شدید ’اثرات ِبد ‘مرتب کیے ہیں۔ ’احساس کمتری و محرومی ‘کو گیس ،پانی، صحت، ٹرانسپورٹ جیسے بہانوں سے اس طرح ٹھونسا گیا ہے کہ لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ وہ حقوق کے نام پر درحقیقت اپنے لیے مزید عذاب بھری زندگی مانگ رہے ہوتے ہیں۔اِس ساری حقوق کی بحث میں بلوچستان کے لاپتہ افراد کا معاملہ زیادہ الگ نوعیت کامعاملہ نہیں ہے ۔ اب ایک بات کہوں کہ جتنا بلوچستان کو پسماندہ کہاجاتا ہے ، ذرا سوشل میڈیا پر جھانک کر دیکھ لیں، لگ پتا جائے گا کہ کون کتنا پس ماندہ ہے؟
لانگ مارچ اور سوشل میڈیا:
بلوچستان سے لاپتا افراد کی بازیابی اور بالاچ بلوچ کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد لواحقین کی جانب سے بلوچستان سے دار الحکومت کی جانب ایک لانگ مارچ کا اعلان کر دیا گیا۔
اسلام آباد میں پہلے سے ایک احتجاجی دھرنا جاری ہے جسے کوئی سننے کو تیار نہیں۔ملک میں طویل المدت نگراں حکومت جاری ہے تاہم ریاستی پالیسیز پر من و عن عمل جاری و ساری نظر آرہا ہے۔مارچ کے شرکا نے 23 نومبر سے چھ دسمبر تک بلوچستان کے ضلع تربت میں دھرنا دیا گیا جس کے بعد مطالبات کی منظوری کے لیے چھ دسمبر سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا گیا۔مارچ کی قیادت ایک بلوچ خاتون ماہ رنگ بلوچ کر رہی ہیں ان کے ساتھ سیکڑوں لاپتہ بلوچ افراد کی لواحقین خواتین شامل ہیں۔ان کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کو بند اور لاپتا افراد کو رہا کیا جائے۔ خاتون نے حکومت کی جانب سے اُن کے مارچ کو روکنا ریاستی جبر قرار دیا ہے ۔بلوچستان کے علاقے تربت میں سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت سے معاملہ گرم ہوا جس کا بعد ازاں قتل کا مقدمہ بالاچ کے والد مولا بخش کی مدعیت میں ایس ایچ او سی ٹی ڈی اور دیگر اہلکاروں کے خلاف درج کرلیاگیا۔ اس ہفتہ بھر سوشل میڈیا پر یہ سب چلتا رہا ۔یہاں تک کہ جمعرات کو مارچ اسلام آباد پہنچا۔ ٹرینڈ میں سب سے زیادہ وائرل موضوع ہی مارچ کی خواتین پر ریاستی تشدد کے مناظر تھے۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے مطابق پولیس کی جانب سے واٹر کینن کے ذریعے دسمبر کی سرد رات میں مظاہرین کو پانی کے ذریعے پیچھے دھکیلا گیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا۔ ان ویڈیوز میں بچوں سمیت متعدد افراد زخمی دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم ابھی زخمیوں کی تعداد واضح نہیں ہے۔خواتین کو بسوں میں بھر کر گرفتاریوں کی بھی وڈیو وائرل رہی ۔ اِس کے ساتھ ڈاکٹر ماہ رنگ کی اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی وڈیو نے بھی ناظرین کو صورتحال کی گہرائی سے آگاہ کیا۔
چند اہم ٹوئیٹس :
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق لکھتے ہیں کہ ’’بلوچستان سے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی اور ماروائے عدالت ہلاکتوں کو روکنے کے حوالے سے بلوچ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے پر وفاقی انتظامیہ کی جانب سے بدترین تشدد، گرفتاریاں انسانی بنیادی حقوق کا قتل ہے۔ ( مظاہرین پر پولیس تشدد کی وڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ )یہ پولیس گردی/فاشزم ہے،یہ بنیادی انسانی حقوق اور دستوری حق احتجاج کا قتل ہے،نگران حکومت/ریاستی ادارے آگ سے کھیل رہے ہیں،ایک نہتی لڑکی کے احتجاج سے پوری حکومت لرزہ براندام ہے۔میں لانگ مارچ کیساتھ ہوں اور پارلیمنٹ کے فلور پر اس ریاستی دہشت گردی کیخلاف آواز اٹھاؤںگا۔‘‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنی ٹوئیٹ میںبلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ،احتجاجی مظاہرے کی کال دے دی۔ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’’ایچ آر سی پی اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین پر پولیس کے پرتشدد کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتا ہے، جس میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے خلاف واٹر کینن اور لاٹھی چارج کا بے جا استعمال کیا گیا۔ متعدد خواتین مظاہرین کو مبینہ طور پر گرفتار کر کے اُن کو ان کے مرد رشتہ داروں اور اتحادیوں سے الگ کر دیا گیا ۔ پرامن اجتماع کے اپنے آئینی حق کو استعمال کرنے والے بلوچ شہریوں کے ساتھ یہ سلوک ناقابل معافی ہے۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر مظاہرین سے ملاقات کے لیے ایک وفد تشکیل دے اور ان کے جائز مطالبات کی منصفانہ سماعت کرے۔‘‘
حامد میر نے اس عمل کو ’فاشسٹ ریاستی عمل‘‘ لکھا۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل نے بھی اس پر ٹوئیٹ کی کہ ،’’نہیں سمجھاتے ہوئے تھک گئے ۔ کیا آپ سب نے بنگلہ دیش سے سبق نہیں سیکھا؟ آپ رشتے کو مزید خراب کر رہے ہیں۔ خدا کے لیے عقل کے ناخن لیں ۔پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے مزید کی گنجائش نہیں ۔ معاملہ اب ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔‘‘
معروف ٹی وی میزبان اقرار الحسن لکھتے ہیں کہ ’’کل تک جو بلوچوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اُن کے دھرنوں میں شریک ہوتے تھے وہ آج اقتدار کے دہانے پر ہونے کے باوجود خاموش ہیں اور کل تک جو بلوچوں کو دہشت گرد کہتے تھے وہ آج اُن کے لئے ٹسوے بہا رہے ہیں۔ ہم مظلوم سے ہمدردی بھی تبھی کرتے ہیں جب ہمارا مفاد ہوتا ہے۔ اصل ظالم تو ہم ہیں۔‘‘
عبد السمیع قائم خانی ایک لاپتہ فرد کی صورتحال مگر دوسری جانب کے موقف سے سنگینی سمجھانے کے لیے لکھتے ہیں کہ ،’’راشد حسین بروہی کو احتجاجی کیمپوں میں ا انسانی حقوق کے چیمپیئن گمشدہ سماجی کارکن کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔ لیکن کیا راشد حسین بروہی حقیقت میں انسانی حقوق کا کارکن اور لاپتہ شخص ہے؟حقائق جانتے ہیں.راشد حسین بروہی شارجہ، متحدہ عرب امارات میں مزدور کے طور پر کام کر رہا تھا اور اسے اماراتی انٹیلی جنس نے 26 دسمبر 2018 کو گرفتار کیا تھا۔ اسے چھ ماہ تک قید میں رکھا گیا اور پھر جولائی 2019 میں پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ تو کیا وہ بے قصور تھا جب اسے متحدہ عرب امارات میں گرفتار کیا گیا اور وہاں کی پولیس نے اسے حراست میں لیا؟ نہیں بالکل نہیں۔ اس سے متحدہ عرب امارات میں بھی اس کا مجرمانہ ریکارڈ ثابت ہوتا ہے۔متحدہ عرب امارات جانے سے پہلے، راشد حسین نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے میں ملوث تھا اور اس نے دہشت گردوں کو 9 لاکھ روپے ادا کر کے حملے میں سہولت فراہم کی۔ سوال یہ ہے کہ ’’وہ نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کے حملے کے فوراً بعد متحدہ عرب امارات کیوں فرار ہوا۔؟‘‘اگر راشد بروہی چینی قونصلیٹ حملے میں ملوث ہونے کے سنگین الزام میں بے گناہ تھا تو وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوا؟ عدالت نہ آنے کی وجہ سے اسےمفرور قرار دیا گیا۔ ایمان زینب مزاری، اسلام آباد ہائی کورٹ میں راشد حسین بلوچ کے کیس کی نمائندگی کر رہی ہیں۔یہ فرضی دعوے صرف ہمدردی اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی توجہ حاصل کرنے اور دہشت گردی کے گھناؤنے جرائم میں ملوث دہشت گردوں کی حفاظت کے لیے ہیں۔‘‘
ایسی ہی دوسرا پہلو بتاتی ایک پوسٹ غریدہ فاروقی نے ٹوئٹر وال پر اپنے ٹی وی پروگرام کے کلپ لگا کر کی جس میں اُس نے لکھا کہ ’’لانگ مارچ جس شخص کے نام پر کیا جا رہا ہے اس بالاچ کو باقاعدہ ایف آئی آر کے بعد سی ٹی ڈی بلوچستان نے حراست میں لیا۔ بالاچ نے ریاست کیخلاف 11 حملوں کا اعتراف کیا بشمول تربت میں مزدوروں کے قتل کا۔ دورانِ تفتیش بالاچ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا تھا، کالعدم BLA کی بچھائی گئی IED سے گاڑی ٹکرائی جس میں بالاچ دیگر لوگوں کیساتھ ہلاک ہوا۔ ‘غریدہ نے سوال اٹھایا کہ ’’جو 7مزدور تربت میں مارے گئے ان کے لئے لانگ مارچ کیوں نہیں نکالا گیا؟‘‘