وہ دسمبر

232

یہ تقریباً پچیس سال پہلے کی بات ہے۔ ایک دن کالج کینٹین سے میں چنا چاٹ لے کر جیسے ہی پلٹی تو سامنے کھڑی لڑکی سے ٹکرا گئی، اس سے قبل کہ اپنے آپ کو سنبھالتی، چاٹ کی پلیٹ میرے ہاتھوں سے نکل کر اُس کے بے داغ یونیفارم کو داغ دار کرتے ہوئے زمیں بوس ہوگئی۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے معذرت کی تو اس نے کہا ’’کوئی بات نہیں، میں صاف کرلوں گی…‘‘ اور افسوس کرنے لگی کہ ’’آپ کی چاٹ تو ساری گر گئی، اب کیا کھائیں گی! چلیں آپ میرے ساتھ لنچ کرلیں، آج امی نے مجھے آلو کے پراٹھے اور شامی کباب بناکر دیے ہیں۔‘‘ یہ تھی شمع ناز سے میری پہلی ملاقات، جس کے بہترین اخلاق نے مجھے اُس سے دوستی کرنے پر مجبور کردیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی، حتیٰ کہ ہم ایک دوسرے کے گھر بھی آزادانہ آنے جانے لگے اور الحمدللہ یہ دوستی آج بھی قائم ہے۔

نوٹس کے سلسلے میں اکثر ہم کالج کے لان میں بیٹھ کر ڈسکس کیا کرتے تھے، خاص کر دسمبر میں صبح کی دھوپ میں بیٹھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ ایک دن میں نے شمع سے کہا ’’دسمبر کا مہینہ کتنا زبردست ہوتا ہے نا! دن میں ہلکی دھوپ میں بیٹھ کر موسمبی اور امرود سے لطف اندوز ہونا اور رات کو لحاف اور کمبل میں گھس کر مونگ پھلیاں کھانا، کافی یا چائے انجوائے کرنا… مجھے تو یہ مہینہ بہت پسند ہے‘‘۔ تو اُس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا:

’’ہاں! لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ مہینہ بہت اداسی لے کر آتا ہے۔ تم شاید بھول گئی ہو اسی دسمبر میں سانحۂ مشرقی پاکستان ہوا تھا، جن لوگوں نے اس سانحے کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھا ہے وہ آج بھی ماتم کناں ہیں۔ تم کسی دن میرے گھر آنا، میری امی جب تمہیں سقوطِ ڈھاکہ سے جڑی اپنے خاندان کی آپ بیتی سنائیں گی تو تمہاری سوچ خود ہی بدل جائے گی۔‘‘

میں دوسرے دن ہی اس کے گھر پہنچ گئی جہاں آنٹی ہماری منتظر تھیں۔ وہ بہت ملنسار اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے ہمیں پاس بلایا اور کہنے لگیں ’’تمہیں معلوم ہے ہم نے اس ارضِ وطن کے لیے دو بار قربانیاں دی ہیں، پہلی مرتبہ 1947ء میں انگریزوں سے آزادی حاصل کر کے اپنا الگ وطن بنانے کے لیے ہمارے والدین نے اپنا گھر بار، عزیز رشتے دار سب کچھ قربان کردیا، اور دوسری مرتبہ دسمبر 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ نے لاکھوں لوگوں کے خون کا خراج وصول کیا۔ اسی سانحے نے میری بڑی بہن کو مجھ سے چھین لیا۔ میں تمہیں اُن سے بچھڑنے کی کہانی سناتی ہوں تاکہ نئی نسل کو معلوم ہوسکے کہ کس طرح اپنوں کو کھونے کے بعد، آگ اور خون کا دریا پار کرکے ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔

میرا نام تارا ہے، ہم دو بہنیں تھیں جو اپنے والدین کے ساتھ سید پور میں رہتی تھیں۔ میری باجی کا نام چندا تھا، وہ اپنے نام کی طرح ہی بہت خوب صورت تھیں۔ باجی مجھ سے پانچ سال بڑی تھیں۔ کہتے ہیں بڑی بہن ماں کا روپ ہوتی ہے، واقعی وہ میرے لیے ویسی ہی تھیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہمیشہ اُن کو اپنے ساتھ ہی پایا۔ ساتھ سونا، ساتھ جاگنا، ساتھ کھیلنا، ساتھ اسکول جانا، ساتھ گھومنا… گویا کہ ہم ایک جان دو قالب تھے۔ لوگ کہتے تھے یہ دونوں تو چاند تارا کی جوڑی لگتی ہیں، اور امی دل ہی دل میں ہماری نظر اتارتیں اور ہماری سلامتی کی دعائیں مانگا کرتی تھیں۔ باجی بچپن ہی سے بہت ذہین تھیں، لہٰذا کم عمری میں ہی انہوں نے قرآن پاک مکمل کرلیا تھا۔ تھوڑی بڑی ہوئیں تو کھانا پکانے اور سینے پرونے میں بھی ماہر ہوگئیں۔ اُس زمانے میں چھوٹی عمر میں ہی شادی کردی جاتی تھی، لہٰذا جیسے ہی سلیم بھائی کا رشتہ آیا جو امی کے دور پار کے رشتے دار تھے اور اپنی دکان کے مالک تھے اور اپنے چھوٹے بھائی نسیم کے ساتھ سانتا ہار میں رہتے تھے، ابو امی نے چٹ منگنی پٹ بیاہ کرکے باجی کو رخصت کردیا۔ اُن کی شادی کے وقت میں اُن سے لپٹ کر خوب روئی تھی۔ مجھے آج بھی اُن کا یہ جملہ رلاتا ہے کہ ’’پگلی! میں شادی کرکے رخصت ہورہی ہوں، تم ایسے رو رہی ہو جیسے میں دنیا سے ہی رخصت ہونے لگی ہوں‘‘۔ آہ! انہیں کیا خبر تھی کہ وہ ہم سے کبھی نہ ملنے کے لیے بچھڑ رہی ہیں۔‘‘

اتنا کہنے کے بعد آنٹی اپنے آنسو پیتے ہوئے بولیں ’’بیٹا! تم لوگوں نے اپنی مطالعۂ پاکستان کی کتابوں میں تو پڑھا ہی ہوگا نا، کہ سانحۂ مشرقی پاکستان کیوں رونما ہوا تھا۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے لوگ بھی اپنی کتابوں میں پڑھتے ہوں گے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کیوں بنایا۔ خیر میں تو بس اتنا ہی کہوں گی کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

باجی کی شادی کے چند مہینوں بعد ہی ملک میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور بنگلہ دیش کی تحریک زور پکڑ چکی تھی۔ مکتی باہنی (علیحدگی پسند تحریک) کے غنڈے ’’جے بنگلہ‘‘ اور ’’آمار شنار بنگلہ‘‘ کا نعرہ لگانے لگے تو امی بہت گھبرا گئیں۔ خط کے ذریعے سلیم بھائی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ لوگ یا تو ہمارے پاس آجائیں یا کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں۔ مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ ایک دن خبر ملی باجی اور ان کے سارے گھر والے شہید کردیے گئے۔ بس ہم سب کچھ چھوڑ کر بچے ہوئے پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے۔ چند دنوں بعد ہی 16 دسمبر 1971ء کا وہ سیاہ دن آگیا جب چشم فلک نے دیکھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کو کس طرح عصبیت کی ہوا دے کر دولخت کردیا گیا۔‘‘
تارا آنٹی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی تھیں۔

حصہ